Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر تکبر ہی کرتے رہے۔ اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار۔
فرعون کی قوم پر مختلف قسم کے عذاب نازل ہوئے۔ 132(فار سلنا علیھم الطوفان) ابن عباس ، سعید بن جبیر ؓ قتادہ، محمد بن اسحاق رحمہما اللہ فرماتے ہیں ان سب کے اقوال آپس میں ملتے جلتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب جادوگر ایمان لے ائٓے اور فرعون مغلوب ہوگیا تو اس نے اور اس کی قوم نے اسلام لانے سے انکار کردیا اور کفر پر ڈٹ گئے اور شر پھیلانے میں خوب کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لگا تار کئی نشانیاں بھیجیں اور ان پر قحط اور پھلوں کے نقصان کا وبال آیا لیکن ان چار نشانیوں عصا، ید بیضاء ، قحط اور پھلوں کے نقصان کے بعد بھی انہوں نے ایمان لانے سے انکار کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر بد دعا کی اور کہا اے میرے رب ! تیرے بندے فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کی قوم نے آپ سے کیا ہوا وعدہ توڑا۔ اے میرے رب ! ان کو ایسی سزا میں پکڑ جو ان کے لئے سزا ہو اور میری قوم کے لئے نصیحت اور ان کے بعد والوں کے لئے نشانی اور عبرت ہو تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان بھیجا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان پر پانی بھیجا۔ بنی اسرائیل اور قبطیوں کے گھر آپ س میں ملے ہوئے اور قریب تھے۔ قبطیوں کے گھر پانی سے اتنے بھر گئے کہ وہ گردن تک پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان میں سے جو بیٹھتا تھا وہ ڈوب جاتا تھا اور ادھر بنی اسرائیل کے گھروں میں ایک قطرہ بھی پانی کا داخل نہ ہوا اور پانی قبطیوں کی زمینوں میں بھی ٹھہر گیا جس کی وجہ سے وہ نہ کاشت کرسکے اور نہ کوئی دوسرا کام۔ اور یہ طوفان سات دن رہا ایک ہفتہ کے دن آیا اگلے ہفتہ کے دن تک رہا۔ مجاہد اور عطاء رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ طوفان سے مراد موت ہے اور وہب (رح) فرماتے ہیں کہ یمن کی لغت میں طوفان اک معنی طاعون ہوتا ہے۔ ابوقلابہ (رح) فرماتے ہیں کہ طوفان سے مراد چیچک ہے دنیا میں چیچک کا عذاب سب سے پہلے انہی پر آیا تھا اس کے بعد زمین میں باقی رہ گیا۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ طوفان سے مراد پانی ہے جو ان کی کھیتوں کے اوپر بلند ہوگیا۔ ابن ظبیان نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ طوفان سے مراد اللہ کا امر ہے جس نے ان کا چکر لگایا پھر یہ آیت پڑھی ” فطاف علیھا طائف من ربکم وھم نائمون “ کوفہ کے نحوی فرماتے ہیں کہ طوفان مصدر ہے اس کی جمع نہیں آتی جیسے رجحان اور نقصان ہیں اور اہل بصرہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جمع ہے اس کا واحد ” طوفانۃ “ ہے۔ اس طوفان کے آنے کے بعد ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اپنے رب سے دعا کریں کہ ہم سے بارش کو دور کردیں ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ (علیہ السلام) کے ساتھ بھیج دیں گے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے رب تعالیٰ سے دعا کی، ان سے طوفان ہٹا لیا گیا۔ پھر اس سال اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اتنا چارہ اور فصلیں اور پھل اگائے کہ اس سے پہلے اتنی فرا انی نہ ہوئی تھی ان کے شہر سرسبز ہوگئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ پانی تو ہمارے لئے نعمت اور خوش حالی تھا ۔ پھر بھی ایمان نہ لائے اور ایک مہینہ عافیت سے گزر گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈیوں کو بھیجا، انہوں نے ان کی کھیتیاں اور پھل اور درختوں کے پتے کھال لیے یہاں تک کہ دروازے اور گھروں کی چھتیں اور لکڑیاں اور کپڑے اور سامان اور دروازوں کی لوہے کی میخیں تک کھا گئیں۔ یہاں تک کہ ان کے گھر گرگئے اور ٹٹڈیاں بھوکی رہنے لگیں کہ کھانے کو کچھ نہ تھا اور بنی اسرائیل کو ان میں سے کوئی تکلیف نہ پہنچی تو وہ چیخنے چلانے لگے اور کہنعے لگے اے موسیٰ (علیہ السلام) ہمارے لئے اپنے رب سے دعا کریں کہ اگر آپ ہم سے تکلیف کو دور کردیں تو ہم ضرور آپ پر ایمان لائیں گے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو خوب عہد و میثاق دیئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ٹڈیوں کا عذاب دور کردیا۔ یہ عذاب بھی سات دن ہفتہ کے دن سے ہفتہ تک رہا اور یہ بھی خبر ہے کہ ہر ٹڈی کے سینے پر لکھا ہوا ہوتا تھا ” جند اللہ الاعظم “ اللہ کا بڑا لشکر اور کہا گیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کھلے میدان میں گئے اور اپنے عصا سے مشرق و مغرب کی طرف اشارہ کیا تو ٹڈیاں جہاں سے آئی تھیں وہاں چلی گئیں اور ان کے غلہ جات اور کھیتوں میں سے کچھ باقی رہ گیا تھا وہ کہنے لگے کہ ہمیں اتنی مقدار کافی ہے ہم اپنے دین کو نہیں چھوڑ سکتے تو انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا اور اپنے برے اعمال کی طرف لوٹ گئے اور ایک مہینہ عافیت سے رہے۔ قمل کی تفسیر میں مفسرین کے مختلف اقوال پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ” فمل “ کو بھیجا۔ اس کی تفسیر میں اختلفا ہے۔ سعید بن جبیر ؓ نے ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ آپ ؓ نے فرمایا کہ ” فمل “ وہ کیڑا ہے جو گندم سے نکلتا ہے اور مجاہد، سدی، قتادہ اور کلبی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ ” فمل “ چھوٹی ٹڈی جس کے پر نہ ہوں اور جرا د بڑی ٹڈی جس کے پر ہوں اور ابو عبیدہ (رح) فرماتے ہیں کہ : حمنان ہے یعنی چھوٹی چچڑی۔ عطاء خراسانی (رح) فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جوں ہے اور اسی وجہ سے ابوالحسن نے ” القمل “ کو قاف کے فتحہ اور میم کے سکون سے پڑھا ہے۔ مفسرین رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ مصر کے قریب ایک بستی عین شمس کے ایک ٹیلے پر جائیں تو موسیٰ (علیہ السلام) اس ٹیلہ پر گئے اس کو عصا مارا تو اس پر چچڑیاں امڈ آئیں اور قبطیوں کے باقی پھل اور کھیتیاں بھی کھا گئیں اور زمین تک کو بھی چاٹ لیا اور وہ ان کے کپڑوں میں گھس کر کپڑے اور جسم کو کاٹ دیتی تھیں کوئی کھانا کھا رہا ہوتا تو وہ کھانا چچڑیوں سے بھر جاتا اور ان پر چچڑیوں سے بڑی کوئی مصیبت نہ آئی تھی، انہوں نے ان کے بال، چمڑے، پلکیں بھنوئیں تک لے لیں اور ان کے جسم پر چیچک کی طرح چمٹ گئیں وہ سو نہ سکتے تھے تو وہ چیختے چلاتے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گئے کہ ہم توبہ کرتے ہیں اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کریں کہ یہ مصیبت دور کر دے تو موسیٰ علیہ لاسلام نے دعا کی، یہ چچڑیاں چلی گئیں لیکن انہوں نے پھر وعدہ توڑا اور اپنے خبیث اعمال کی طرف لوٹ گئے اور کہنے لگے کہ آج سے پہلے ہمیں آپ (علیہ السلام) کے جادو گر ہونے کا یقین نہ تھا کہ آج تو آپ نے ریت کو کیڑے مکوڑے بنادیا ہے اور کہنے لگے فرعون کی عزت کی قسم ! ہم آپ کا کہنا نہ مانیں گے اور نہ آپ کی تصدیق کریں گے تو وہ عافیت سے ایک ماہ رہے۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان پر بد دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر مینڈک بھیجے جس سے ان کے گھر، صحراء ، کھانے اور برتن بھ رگئے جو کوئی بھی برتن کا کھانا کھولتا تو اس میں مینڈک ملتے اور آدمی مینڈکوں میں اپنی ٹھوڑی تک ڈوبا رہتا اور اس کو یہ ڈر ہوتا کہ اگر میں نے کسی سے بات کی تو مینڈک میرے منہ میں داخل ہوجائیں گے۔ وہ مینڈک ان کی ہانڈیوں میں کو دجاتے، کھانا خراب کردیتے، آگ بجھا دیتے، کوء سونے کے لئے پہلو پر لیٹا تو اس پر اتنے مینڈک سوار ہوجاتے کہ وہ پہلو نہ بدل سکتا تو اس سے ان کو سخت تکلیف پہنچی۔ عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ مینڈک خشکی کے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو الٓ فرعون پر بھیجا تو انہوں نے اطاعت کی اور اپنے آپ کو جوش مارتی ہوئی ہانڈیوں اور بھڑکتے ہوئے تندروں میں ڈال دیتے تو اللہ تعالیٰ ان کی اطاعت سے خوش وہو کر پانی کو ٹھنڈا کردیتے۔ جب آل فرعون نے یہ معاملہ دیکھا تو رونے لگے اور موسیٰ (علیہ السلام) کو شکایت کی اور کہا کہ اس مرتبہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرتے ہیں اور اب دوبارہ غلطی نہ کریں گے اور بڑے عہد و پیمان لئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو مینڈک ان سے ہٹا لئے۔ یہ بھی سات دن رہے۔ ہفتے سے ہفتہ کے دن تک۔ پھر ایک مہینہ عافیت سے رہے۔ پھر عہد توڑا اور کفر کی طرف لوٹ گئے تو موسیٰ علیہ اسللام نے ان پر بد دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کا عذاب بھیجا تو دریائے نیل خون بن گیا اور ان کے پانی خون بن گئے اور وہ کنوئوں اور نہروں سے پانی نکالتے تو وہ سرخ خون بن جاتا تو انہوں نے فرعون کو شکایت کی اور کہا کہ ہمارے لئے پینے کا پانی نہیں ہے اس نے کہا کہ یہ تمہارا جادو ہے تو قوم کہنے لگی کہ ہمارا جادو کہاں سے آگیا ؟ ہم اپنے برتنوں میں پانی نہیں پاتے، صرف خون ہوتا ہے۔ فرعن ایک برتن پر قبطی اور اسرائیلی کو جمع کردیتا تھا جو حصہ قبطی کے سامنے ہوتا وہ خون ہوتا اور جو اسرائیلی کے سامنے ہوتا وہ پانی ہوتا اور وہ مٹکے پر جاتے تو اسرائیلی نکالتا تو پانی ہوتا قبطی نکالتا تو خون ہوتا یہاں تک کہ قبطی عورت پیاس سے بےتاب ہو کر اسرائیلی عورت کے پاس آتی اور کہتی کہ اپنے منہ میں پانی لے کر میرے منہ میں کلی کر دے۔ تواسرائیلی عورت ایسا کرتی جب اس کے منہ میں کلی کرتی تو وہ خون بن جاتا اور فرعون کو پیاس ستاتی تو وہ تر درختوں کو چباتا تو اس کا رس اس کے منہ میں جا کر نمکین کھارا بن جاتا۔ اسی حالت میں سات دن رہے صرف خون پیتے تھے۔ زید بن اسلم (رح) فرماتے ہیں کہ جو خون ان پر مسلط کیا گیا وہ نکسیر تھا تو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور دعا کا کہا کہ اب ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ عذاب دور کردیا لیکن وہ ایمان نہ لائے۔ یہ تفصیل ہے اس آیت کی (والجراد والقمل والضفادع و الدم ایت مفصلت) اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر عذاب ایک ہفتہ رہتا اور دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا وقفہ ہوتا۔ (فاستکبروا وکانوا قوماً مجرمین)
Top