Jawahir-ul-Quran - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور خون بہت سی نشانیاں جدا جدا پھر بھی تکبر کرتے رہے اور تھے وہ لوگ گناہ گار126
126: جب معجزات عصا، ید بیضا، قحط سالی وغیرہ سے ان کے دلوں میں عاجزی اور انابت کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے اور وہ انکار و جحود اور ضد وعناد پر قائم رہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ فرعون اور اس کی قوم سرکشی اور عناد کی انتہاء کو پہنچ چکی ہے اس لیے ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے بعد والوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بالکلیہ تباہ و برباد کرنے سے پہلے کئی صورتوں میں ان پر عذاب نازل فرمایا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ “ اَلطُّوْفَانَ ” آٹھ دن تک متواتر دن رات ان پر اندھیرا چھایا رہا اور مسلسل بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ ان کے گھروں میں اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ ان کے کندھوں سے اوپر چڑھ گیا، پورے سات دن وہ اسی حالت میں مبتلا رہے، نہ بیٹھ سکتے تھے، نہ کھانے کے لیے کوئی چیز مہیا ہوسکتی تھی۔ مگر اسرائیلیوں کے گھروں میں پانی داخل نہ ہوا اور اس کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف نہ ہوئی آخر لاچار ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ وہ اللہ سے دعاء کر کے انہیں اس مصیبت سے نجات دلا دیں تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے پانی ہٹا لیا اور زمین ظاہر ہوگئی تو اس میں پہلے سے زیادہ گھاس وغیرہ پیدا ہوئی تو فرعونیوں نے اپنا عہد تور دیا اور کہنے لگے یہ کوئی عذاب تھوڑا ہی تھا یہ تو ہمارے لیے ایک نعمت تھی۔ “ وَالْجَرَادَ ” اس کے بعد اللہ نے ٹڈی دل بھیج دیا جس نے ان کے تمام باغوں اور کھیتوں کا صفایا کردیا ان کا کوئی درخت نہ چھوڑا، یہاں تک کہ ان کے مکانوں کے دروازہ، چھتوں کے شہتیروں اور کڑیوں کو، ان کے کپڑوں اور گھر کے ساز و سامان تک کو نیست و نابود کردیا۔ بنی اسرائیل کی ہر چیز اس عذاب سے بھی محفوظ رہی۔ آخر فرعونیوں کی التجاء پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء سے اللہ نے ہوا بھیجی جس نے تمام ٹڈی دل کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، مگر وہ پھر اپنے قول سے منحرف ہوگئے اور ایمان نہ لائے۔ “ وَالقُمَّل ”: اس کے بعد اللہ نے جوؤں کو مسلط کردیا اور انہوں نے ان کے بدن کے چمڑے اور گوشت کو کھانا شروع کردیا جب قوم فرعون کا کوئی آدمی روٹی کھانے لگتا تو اس کا منہ جوؤں سے بھر جاتا۔ جب اس مصیبت سے نجات ملی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ اب تو ہمیں پورا یقین ہوگیا ہے کہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ بعض نے “ قُمَّلَ ” سے چچڑیاں یا گیہوں کا کیڑا مراد لیا ہے۔ “ قُمَّلَ ” سے مراد چچریاں ہیں جیسا کہ مترجم (رح) نے اختیار کیا یا جوئیں یا گیہوں وغیرہ غلہ میں جو کیڑا لگ جاتا ہے جس سے غلہ خراب ہوجاتا ہے۔ یعنی بدن اور کپڑوں میں چچریاں اور جوئیں پڑگئیں۔ غلہ میں گھن لگ گیا۔ (تفسیر عثمانی) ۔ “ وَالضَّفَادِعَ ” پھر اللہ نے ان پر مینڈکوں کو مسلط کردیا۔ ان کے گھروں کے صحن، ان کے کمرے، اور تمام برتن مینڈکوں سے بھر گئے۔ اگر وہ بات کے لیے منہ کھولتے تو پھدک کر مینڈک ان کے مونہوں میں پہنچ جاتے، ان کے کھانوں میں داخل ہو کر ان کو خراب کردیتے، اس سے تنگ آ کر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے زاری کی اور ایمان لانے کا عہد کیا مگر اس دفعہ بھی عہد توڑ دیا۔ “ وَالدَّمَ ” آخر اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کا عذاب نازل فرمایا، دریائے نیل خون کا بہنے لگا، قبطیوں کے برتنوں کا پانی تمام خون ہوگیا مگر اسرائیلیوں کے پانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ قبطی اسرائیلیوں کے برتنوں سے اپنے برتنوں میں پانی ڈالتے تو وہ خون ہوجاتا یہاں تک کہ اگر کوئی اسرائیلی اپنے منہ پانی لے کر کسی فرعونی کے منہ میں ڈالتا تو وہ اس کے منہ میں پہنچ کر فوراً خون ہوجاتا۔ “ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلَاتٍ ” یہ واضح نشانیاں تھیں مگر انہوں نے ہر بار عناد و استکبار سے کام لیا۔ “ کل ذلک من الروح والقرطبی والخازن وغیرھا ”۔
Top