Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 133
فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ١۫ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ
فَاَرْسَلْنَا : پھر ہم نے بھیجے عَلَيْهِمُ : ان پر الطُّوْفَانَ : طوفان وَالْجَرَادَ : اور ٹڈی وَالْقُمَّلَ : اور جوئیں۔ چچڑی وَالضَّفَادِعَ : اور مینڈک وَالدَّمَ : اور خون اٰيٰتٍ : نشانیاں مُّفَصَّلٰتٍ : جدا جدا فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : ایک قوم (لوگ) مُّجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں مگر تکبر ہی کرتے رہے۔ اور وہ لوگ تھے ہی گنہگار۔
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : 1 اسرائیل نے سماک کے واسطہ سے نوف شای سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جادوگروں پر غالب آنے کے بعد آل فرعون میں چالیس برس تک ٹھہرے رہے۔ اور محمد بن عثمان بن ابی شیبہ نے منجاب سے بیس سال کا عرصہ روایت کیا ہے، آپ انہیں نشانیاں یعنی ٹڈی، جوئیں، مینڈک اور خون کے معجزات دکھاتے رہے۔ مسئلہ نمبر 2۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الطوفان اس سے مراد شدید بارش ہے (ایضا، جلد 2، صفحہ 444) یہاں تک کہ وہ اس میں تیرنے لگے۔ حضرت مجاہد اور حضرت عطاء (رح) نے بیان کیا ہے کہ طوفان سے مراد موت ہے (تفسیر طبری، جلد 9، صفحہ 40 ) ۔ اخفش نے کہا ہے : اس کا واحد طوفانۃ ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 443 ) ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مصدر ہے جیسا کہ رجحان اور نقصان مصدر ہیں، پس اس کے لیے واحد کا کوئی مطالبہ نہیں۔ نحاس نے کہا ہے : لغت میں طوفان وہ ہے جو ہلاک کرنے والا ہو چاہے وہ صوت ہو یا سیلاب، یعنی وہ ان پر چکر لگاتا رہا اور انہیں ہلاک کرتا رہا۔ اور سدی (رح) نے کہا ہے : بنی اسرائیل کو اس پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پہنچا، بلکہ وہ قبطیوں کے گھروں میں داخل ہوا یہاں تک کہ وہ اپنی ہنسلیوں تک پانی میں کھڑے رہے۔ اور وہ پانی مسلسل سات دن تک ان پر رہا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ چالیس دن تک رہا۔ تب انہوں نے کہا : ہمارے لیے رب سے دعا کیجئے وہ ہم سے اس عذاب کو دور فرمادے تو ہم تمہارے ساتھ ایمان لے آئیں گے، پس آپ نے رب کریم سے دعا کی تو اس نے ان سے طوفان کو اٹھا لیا لیکن وہ ایمان نہ لائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سال ان کے لیے گھاس اور فصلوں میں وہ کچھ اگایا جو اس سے پہلے نہ اگایا تھا، تو وہ کہنے لگے : وہ پانی تو نعمت تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈی کو بھیج دیا اور یہ ایک معروف حیوان ہے، جراد مذکر ومونث دونوں صورتوں میں جرادۃ کی جمع ہے پس اگر تو ان کے درمیان فرق کرنا چاہے تو پھر صفت لگانا پڑے گی اور تو یہ کہے گا رایت جرادۃ ذکرا) (میں نے نرٹڈی کو دیکھا ( پس وہ ان کے پھلوں اور کھیتیوں سبھی کو کھاگئی یہاں تک کہ وہ چھتوں دروازوں کو کھانے لگی اور ان کے گھر گرنے لگے، لیکن بنی اسرائیل کے گھروں میں اس میں سے کوئی شے داخل نہ ہوئی۔ مسئلہ نمبر 3۔ ٹڈی کو مارنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے جب وہ کسی زمین میں آئے اور اسے خراب کرنے لگے بعض نے کہا ہے : اسے نہیں مارا جائے گا۔ اور تمام علمائے فقہ نے کہا ہے : اسے مار دیا جائے گا۔ فریق اول کا استدلال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے بہت بڑی مخلوق ہے وہ اللہ تعالیٰ کا رزق کھاتی ہے اور اس پر قلم نہیں چلتا۔ اور اس وجہ سے بھی کہ یہ روایت ہے ” تم ٹڈی کو قتل نہ کر رو کیونکہ یہ اللہ الاعظم کا لشکر ہے “ (شعب الایمان، لی محسنۃ الجراد والصبر علیھا، جلد 7، صفحہ 232، حدیث نمبر 10127 ) اور جمہور نے کہا اس سے استدلال کیا ہے کہ اسے چھوڑنے میں اموال کا فسا د ہے حالانکہ حضور نبی مکرم ﷺ نے مسلمانوں کو قتل کرنے کی رخصت دی ہے جب وہ کسی کا مال لینا چاہے، پس ٹڈی جب اموال کو برباد کرنے کا ارادہ کرے تو بدرجہ اولی اسے قتل کرنا جائز ہوگا۔ کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ تمام نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ سانپ اور بچھو کو مارنا جائز ہے ؟ کیونکہ وہ دونوں لوگوں کو اذیت دیتے ہیں پس اس طرح ٹڈی بھی ہے۔ ابن ماجہ نے حضرت جابر اور حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ جب ٹڈی کے خلاف دعا کرتے تو اس طرح کہتے : اللھم اھلک کبارہ واقتل صغارہ وافسد ببضہ اقطع دابرہ وخذ بافواھہ عن معایشنا وارزقنا انک سمیع الدعاء ( اے اللہ ! اس کے بڑوں کو ہلاک کر دے اور اس کے چھوٹوں کو قتل کر دے اور اس کے انڈوں کو فاسد کر دے اور اس کے پیچھے آنے والوں کو قطع کر دے اور ان کے مونہوں سے ہماری معیشت اور ہمارے رزق لے لے بیشک تو دعا کو سننے والا ہے) ایک آدمی نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ آپ اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر کے خلاف اس کی دم کٹ جانے کی دعا کیسے کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” بیشک ٹڈی سمندر میں ایک مچھلی کی چھینک ( سے پیدا شدہ) ہے “ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصید، جلد 1، صفحہ 238۔ ایضا، حدیث نمبر 3211، ضیاء القرآ پبلی کیشنز) ۔ مسئلہ نمبر : 4 صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ کی روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : ہم سات غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہے اور ہم آپ کے ساتھ ٹڈی کھاتے رہے (صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحہ 152 ) ۔ المختصر اس کے کھانے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں۔ جب اسے کوئی زندہ پکڑ لے اور اس کا سر کاٹ دیا جائے تو یہ بالاتفاق حلال ہے۔ اور یہ اس کو ذبح کرنے کے قائم مقام ہوجاتا ہے، البتہ علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کیا آدمی اس کے سبب موت کو جاننے کا محتاج ہوتا ہے جب اسے شکار کیا جائے یا نہیں ؟۔ تو عام رائے یہی ہے کہ سبب موت جاننے کی ضرورت نہیں، اسے کھایا جائے گا جیسے بھی یہ مرے۔ ان کے نزدیک اس کا حکم مچھلی کے حکم کی مثل ہے۔ یہ نظریہ ابن نافع اور مطرف کا ہے۔ اور امام مالک (رح) کی رائے یہ ہے کہ سبب موت جاننا لازم اور ضروری ہے، مثلا اس کے سر کا کٹنا یا پاؤں کا یا اس کے پروں کا کٹ جانا، جب کہ اس کی موت اس سبب سے ہو یا اسے آگ میں ڈال دیا جائے گا، کیونکہ آپ کے نزدیک وہ خشکی کا جانور ہے اور اس کا مردار حرام ہے۔ حضرت لیث مردہ ٹڈی کھانا مکرہو جانتے تھے۔ مگر جب کوئی اسے زندہ پکڑے پھر وہ مرجائے تو بیشک اسے پکڑنا ذبح کرنے کے مترادف ہے۔ یہی نظریہ حضرت سعید بن مسیب ؓ کا ہے۔ دارقطنی نے حضرت ابن عمر ؓ (سنن دار قطنی، کتاب الصید والذبائح، جلد 4، صفحہ 272) سے روایت نقل کہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ہمارے لیے دو مردار حلال کیے گئے ہیں مچھلی اور ٹڈی اور دو خون ( حلال کیے گئے ہیں) جگر اور تلی “۔ ابن نے بیان کیا ہے : احمد بن منیع، سفیان بن عیینہ نے ابو سعید سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کی ازواج مطہرات ٹڈی بڑی طشتری میں رکھ کر ایک دوسرے کو بطور ہدیہ دیتی تھیں (سنن ابن ماجہ، کتاب الصید، جلد 1، صفحہ 239، ایضا، حدیث نمبر 3210، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے ابن منذر نے بھی ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ محمد بن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے اور انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے بیان کیا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” بیشک اللہ تعالیٰ نے ہزار پیدا فرمائی ہیں ان میں سے چھ سو سمندر میں ہیں اور چار سو خشکی میں ہیں۔ اور بلاشبہ ان امتوں میں سے سب سے پہلے ہلاک ہونے والی ٹڈی ہے پس جب ٹڈی ہلاک ہوجائے گی تو باقی امتیں موتیوں کی لڑی کی مثل اس کے پیچھے آئیں گی جب وہ کٹ جائے “۔ اسے حکیم ترمذی نے ” نوادر الاصول “ میں ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا : بلاشبہ ان امتوں میں سب سے اول ہلاک ہونے والی ٹڈی ہے، کیونکہ اسے اس مٹی سے تخلیق کیا گیا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے فالتو بچی تھی۔ پھر آدمیوں کے ہلاک ہونے کی وجہ سے وہ امتیں ہلاک ہوجائیں گی کیونکہ یہ ان کے لیے مسخر ہے۔ ہم قبط کے قصہ کی طرف رجوع کرتے ہیں پس انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے معاہدہ کیا کہ اگر ان سے ٹڈی کو دور کردیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، پس آپ (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تو اسے دور کردیا گیا۔ اور ان کی کھیتوں میں سے ابھی کچھ چیزیں باقی تھیں، تو وہ کہنے لگے : جو باقی ہے وہ ہمارے لیے کافی ہوگا۔ اور وہ ایمان نہ لائے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر جوئیں بھیج دیں۔ اور یہ چھوٹا سا کیڑا ہے۔ یہ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : اور الدبی سے مراد اڑنے سے پہلے کی ٹڈی ہے۔ اس کی واحد دباۃ ہے۔ جب کوئی کیڑا زمین کی نباتات کھا جائے تو اس کے لیے کہا جاتا ہے : ارض مدبیۃ اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قمل سے مراد وہ سوس (گھن) ہے جو گندم میں ہوتا ہے (المحرالوجیز، جلد 2، صفحہ 444 ) ۔ ابن زید نے کہا (زاد المسیر، جلد 2، صفحہ 191) ہے : اس سے مراد براغیث (مچھر) ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : یہ چھوٹے چھوٹے سیاہ رنگ کے کیڑے ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا : اس سے مراد جمنان ہے اور یہ چچڑی کی ایک قسم ہے، اس کا واحد حمنانۃ ہے۔ پس یہ ان کے جانوروں اور ان کی کھیتیوں کو کھا گئی۔ اور ان کی جلد کے ساتھ چمٹ گئی، گویا کہ یہ ان پر چیچک ہے اور اس نے انہیں سونے اور قرار حاصل کرنے سے روک دیا۔ اور حبیب بن ابو ثابت نے کہا ہے : قبل سے مراد جعلان ہے ( یعنی سیاہ رنگ کا کپڑا) اور اہل لغت کے نزدیک قمل چیچڑیوں کی ایک قسم ہے۔ ابو الحسن اعرابی عدوی نے کہا ہے : قمل چچڑی کی جنس سے ایک چھوٹا سا کیڑ ا ہے، لیکن یہ اس سے چھوٹا ہوتا ہے، اس کی واھد قملۃ ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ اس کے خلاف نہیں ہے جو اہل تفسیر نے کہا ہے، کیونکہ یہ مراد لینا جائز ہے کہ یہ تمام اشیاء ان پر بھیجی گئی ہوں اور یہ تمام انہیں اذیت پہنچانے کے اعتبار سے جمع ہو سکتی ہیں۔ بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے کہ یہ عین شمس ( اس وقت مصر کا دارالخلافہ) میں ریت کا ایک ٹیلہ تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر اپنا عصا مارا تو وہ قمل (جوئیں) بن گیا۔ قمل کی واحد قملہ ہے۔ عطا خراسانی نے کہا ہے : اسے قمل اور قمل دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ اور حسن کی قرات میں ہے والقمل یعنی قاف مفتوح اور میم ساکن ہے۔ پس وہ عجز وزاری کرنے لگے لیکن جب ان سے اسے دور کردیا گیا تو وہ پھر ایمان نہ لائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر مینڈک مسلط کردیئے۔ ضفادع، ضفدع کی جمع ہے۔ اور یہ وہ معروف جانور ہے جو پانی میں ہوتا ہے (اور اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے) کہ انہیں مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ نے صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابو داؤد نے امام احمد بن حنبل سے، انہوں نے عبدالرزاق سے اور ابن ماجہ نے محمد بن یحییٰ نیشاپوری ذبلی سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے کہ انہوں فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے صرد ( موئے سر سفید پیٹ اور سبز پیٹھ کا ایک پرندہ جو چھوٹے پرندہ کو شکار کرتا ہے۔ لٹورا) مینڈک، چیونٹی اور ہد ہد کو مارنے سے منع فرمایا ہے (سنن ابن ماجہ، کتاب الصید، جلد 1، صفحہ 239، ایضا، حدیث نمبر 3213، 3214، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ سنن ابی داود، کتاب ابو اب السلام، باب فی قتل الذر، حدیث نمبر 4583، ضیاء القرآن پبلی کیشنز نسائی نے حضرت عبدالرحمن بن عثمان سے روایت کیا ہے کہ ایک حکیم نے حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس دوا میں مینڈک کا ذکر کیا، تو حضور نبی کریم ﷺ نے اسے اس کے مارنے سے منع فرمایا (سنن نسائی، کتاب الصید والذبائح، جلد 2، صفحۃ 201۔ سنن ابی داؤہد، کتاب ابواب النوم، باب قتل الضفدع، حدیث 4585، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اسے ابو محمد عبد الحق نے صحیح قراد دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے : صرد پہلا پرندہ ہے جس نے روزہ رکھا ہے۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ شریف بنانے کے لیے شام سے حرم پاک کی طرف نکلے تو آپ کے ساتھ سکینہ ( تیز رو ہوا) اور صرد تھے، پس صرد نے مخصوص جگہ کی طرف آپ کی رہنمائی کی اور سکینہ نے اس کی مقدار کی طرف، پس جب آپ اس خاص جگہ تک پہنچے تو سکینہ بیت اللہ شریف کی جگہ پر چلی اور پکار کر کہا : اے ابراہیم ! میرے سائے کی مقدار پر ( گھر) تعمیر کر دے۔ پس حضور نبی مکرم ﷺ نے صرد کو مارنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیت اللہ شریف پر راہنمائی کی اور مینڈک کو مارنے سے منع کیا، کیونکہ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی لے جلائی جانی والی آپ پر پانی ٹپکاتا تھا۔ اور جب یہ فرعون پر مسلط ہوئے تو یہ آئے اور تمام جگہوں پر چھا گئے۔ جب یہ تنور کی طرف گئے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں وہاں بھی ڈیرہ ڈال لیا حالانکہ ان میں آگ بھڑک رہی تھی، پس اللہ تعالیٰ نے اس کی آواز کو تسبیح بنا دیا۔ کہا جاتا ہے : تمام جانوروں سے زیادہ یہ تسبیح کرنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ نے کہا ہے : تم مینڈک کو نہ مارو، کیونکہ اس کی وہ آواز جو تم سنتے ہو وہ تسبیح ہے۔ پس روایت ہے کہ اس (مینڈک) نے ان کے بستروں، برتنوں اور کھانے پینے کی چیزوں کو بھر دیا تھا ایک آدمی اپنی ٹھوڑی تک مینڈکوں میں بیٹھتا تھا اور جب وہ بات کرتا تو مینڈک اچھل کر اس کے منہ میں داخل ہوجاتا، تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکوہ کیا اور کہنے لگے : ہم توبہ کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان سے انہیں دور کردیا لیکن وہ دوبارہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر خون بھیجا تو ان پر نیل خون بن کر بہنے لگا۔ اسرائیل اس سے پانی کے چلو بھرتے تھے اور قبطی خون کے۔ اسرائیلی قبطی کے منہ میں پانی انڈیلتا تھا تو وہ خون ہوجاتا تھا۔ اور قبطی اسرایلہ کے منہ میں خون انڈیلتا تھا تو وہ میٹھا او لذیذ پانی ہوجاتا تھا۔ آیت : ایت مفصلت یعنی ظاہر اور بین علامات، یہ مجاہد (رح) سے مروی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : آیت : ایت مفصلت، حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ اور یہ روایت بھی ہے کہ آپ نے ایک نشانی ظاہر کی تھی اور وہ ایک نشانی آٹھ دن تک رہی۔ بعض نے کہا ہے : چالیس دنوں تک رہی۔ اور بعض نے کہا ہے : ایک مہینہ تک رہی پس اسی لیے فرمایا : آیت : مفصلت، فاستکبروا پس وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان لانے سے تکبر کرتے رہے۔
Top