Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 149
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اِنْ تُطِيْعُوا : اگر تم اطاعت کرو الَّذِيْنَ : ان لوگوں کی كَفَرُوْا : جنہوں نے کفر کیا يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دیں گے تم کو عَلٰٓي اَعْقَابِكُمْ : اوپر تمہاری ایڑیوں کے فَتَنْقَلِبُوْا : تو لوٹ جاؤ گے تم۔ پلٹ جاؤ گے تم خٰسِرِيْنَ : خسارہ پانے والے ہوکر
اے ایمان والو ! اگر تم ان لوگوں کی بات مانو گے جنہوں نے کفر کیا ، تو وہ تم کو پلٹا دیں گے تمہاری ایڑھیوں پر ، پھر تم پلٹ جاؤ گے نقصان اٹھانے والے ہوکر۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ انبیاء اور ان کے پیروکاروں کا نمونہ بیان فرمایا اور اہل ایمان کو ترغیب دی کہ وہ بھی انہی لوگوں کا طریقہ اختیار کریں جو سابقہ انبیاء کے متبعین نے اختیار کیا انہوں نے دشمن کے ساتھ جہاد کیا اور ثابت قدم رہے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیابی عطا اور دنیا و آخرت کا ثواب عطا کیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے نبیوں اور ان کے ماننے والوں کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ برخلاف اس کے نافرمانوں اور منافقین کے اقوال و افعال سے بچنا بھی ضروری ہے۔ دشمن کے غلط پراپیگنڈا سے اہل ایمان میں بددلی پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ لہذا دشمن کی چالوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔ جنگ احد کے واقعہ میں بیان ہوچکا ہے۔ کہ جب حضور ﷺ زخمی ہو کر گرگئے ، تو مشرک حملہ آور نے مشہور کردیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت (علیہ السلام) کو شہید کردیا گیا ہے۔ اس غلط پراپیگنڈہ کی بنا پر مسلمانوں میں بددلی پیدا ہوگئی ، منافقین کو موقع مل گیا۔ وہ کہنے لگے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ ہی ہمارے درمیان موجود نہیں رہے۔ تو پھر ہمیں ان کا دین چھوڑ کر اپنے پرانے دین کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔ بعض نے کہا کہ ابوسفیان سے امان حاصل کرلینی چاہیے یہ سب پراپیگنڈا تھا۔ تاکہ مسلمان اپنے دین سے پھرجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی باتوں کا رد فرمایا ہے۔ اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے۔ کہ اللہ نے فرمایا۔ وما محمد الا رسول۔ یعنی حضور نبی کریم (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں۔ وہ خود خدا نہیں جو ازلی ابدی ہے۔ بلکہ وہ تو فانی ہیں۔ اگر موت یا شہادت کی بنا پر وہ اس دار فانی سے رخصت ہوجائیں تو کیا تم آپ کے لائے ہوئے دین کو ترک کردوگے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بلکہ حضور ﷺ کا لایا ہوا دین قیامت تک قائم رہے گا۔ مسلمانوں کو منافقین کے پراپیگنڈا سے متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ عظیم نقصان : ارشاد ہوتا ہے۔ یا ایھالذین امنوا۔ اے ایمان والو ! ان تطیعوا الذین کفروا۔ اگر تم کافروں کی بات مانوگے اور منافق بھی کافروں میں شامل ہیں۔ تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ یردوکم علی اعقابکم۔ کہ وہ تمہیں پلٹا دیں گے تمہاری ایڑیوں پر۔ مراد یہ کہ ان کی کوشش یہ ہوگی۔ کہ وہ تمہیں دین حق سے دوبارہ جاہلیت کی طرف لے جائیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ فتنقلبوا خسرین۔ کہ تم سخت نقصان اٹھانے والے بن کر پلٹ جاؤگے۔ مقصد یہ اپنے دین پر قائم رہو۔ ہر حالت میں دین کی حفاظت کرو۔ تمہیں وقتی طور پر فتح ہو یا شکست اپنے دین پر ہر صورت میں قائم رہو۔ اگر تم نے دین کے پاکیزہ نظریات کو ترک کردیا ، تو پھر کفر اور جہالت کی طرف پلٹ جاؤگے۔ اور یہ سب سے بڑا نقصان ہوگا۔ لہذا مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے۔ کہ کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانیں ورنہ وہ تمہیں دوبارہ جاہلیت کی طرف پھر دیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس مومن کے دل میں ایمان راسخ ہوگیا ہے ، اس کو اگر آگ کے شعلوں میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ کفر کی طرف پلٹنا پسند نہیں کرے گا۔ وہ ہر قسم کی مشکلات برداشت کرلے گا مگر ایمان کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوگا۔ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اے ایمان والو ! لاتتخذوا بطانۃ من دونکم۔ یعنی ایمان والوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا دلی دوست نہ بناؤ۔ کافروں کو اپنے معاملات میں دخیل نہ ہونے دو ۔ ورنہ وہ تمہیں کفر کی طرف لے جائیں گے۔ یہود و نصاری ان سے بھی بدتر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ولن ترضی عنک الیھود ولا النصری۔ آپ سے یہود و نصاری کبھی راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کا دین اختیار نہ کرلو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو ثابت قدمی اور دشمن کی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے۔ مسلمانوں کے تنزل کی وجہ : اس وقت دنیا میں مسلمان جس تنزل کا شکار ہیں اس کی اسی فیصد وجہ کفار کی مداخلت ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے قوانین ، سیاست ، تجارت ، تعلیم ، ٹیکس وگیرہ میں دخیل ہیں۔ غیر مسلم کافر ہوں یا مشرک ، یہودی ہوں یا نصرانی ، کمیونسٹ ہوں یا دہریے وہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدابیر کرتے ہیں۔ اپنے ملکوں میں تعلیم کے نام پر ایسے شاگرد بنا کر بھیجتے ہیں جو مسلمانوں کے نظریات کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر رکھ دیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن ایک صالح آدمی مولوی شہاب الدین کا بیٹا تھا جو کہ شیخ الہند کا شاگرد تھا۔ مگر یہ یہودیوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ اسمتھ کا شاگرد تھا۔ جس نے اس کے ذہن کو بگاڑ کر رکھ دیا۔ صدر ایوب کے زمانے میں اس نے کتاب لکھی تھی جس میں قرآن پاک کے وحی الہی ہونے کا انکار کردیا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ پورے کا پورا قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ اس میں آدھا یا کچھ کلام حضور خاتم النبیین ﷺ کا ہے۔ مقصد یہ کہ غیر مسلم لوگ مسلمانوں کو اپنے ہاں تعلیم دے کر ان کے بنیادی نظریات پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر انہی کے ہاتھوں ان کی قوم کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ روس کیا کر رہا ہے۔ افغانستان اور ایران وغیرہ میں اپنے نظریات پھیلا رہا ہے مگر مسلمانوں کی آج زبوں حالی یہ ہے کہ ان کی مرکزیت ختم ہوچکی ہے۔ رسوخ عقیدہ مفقود ہے۔ قرآن پر غور و تدبر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ قرآن پر غور و تدبر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ حضور ﷺ کی تعلیمات سے دلچسپی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دین اور اخلاق دونوں بگڑ چکے ہیں۔ کفار ہمارے تمام معاملات میں دخیل ہیں۔ ترکی کے معاملات میں امریکہ دخل اندازی کر رہا ہے۔ عرب اس کے مشورہ کے بغیر کوئی بات نہیں کرسکتے ، ترقی پذیر ممالک میں ایڈوائزر وہاں سے آتے ہیں۔ لہذا مسلمان ترقی کی بجائے تنزل کی طرف جا رہے ہیں۔ اللہ نے اس لیے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی بات مانوگے تو وہ تمہیں دوبارہ کفر کی طرف لے جائیں گے۔ عیسائی مشنریاں اس پر مستزاد ہیں۔ مسلمان ممالک میں خاص طور پر کام کررہی ہیں۔ تیس تیس سال تک کام کرنے کے بعد رپورٹ دیتی ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کو عیسائی تو نہیں بنایا جاسکا۔ مگر ان کے نظریات اس قدر بگاڑ دیے گئے ہیں۔ کہ وہ مسلمان بھی باقی نہیں رہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ان خطرات کو محسوس کریں۔ اپنے کام خود انجام دیں۔ اور غیر مسلم اقوام کی مداخلت بند کریں ورنہ وہ کفار کے چنگل سے کبھی آزاد نہ ہوسکیں گے۔ فرمایا اغیار سے منہ موڑ کر صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ بل اللہ مولیکم۔ بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے۔ مولا کے بہت سے معنی آتے ہیں جیسے آقا ، سید ، ناصر ، معین ، ساتھی۔ آزاد کیا ہوا غلام ، ، چچا زاد بھائی وغیرہ تقریباً پچیس معنی ہیں۔ مگر یہاں پر مولا سے مراد مددگار ہے۔ خود اللہ پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ جیسے فرمایا۔ انت مولانا۔ یہ لفظ حضور ﷺ کی ذات اقدس کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ سیدنا اور مولانا۔ یعنی حضور ہمارے آقا ، سردار اور راہنما ہیں تاہم اس مقام پر اہل اسلام کو تسلی دی کہ اغیار کی تمام تر سازشوں کے خلاف تمہارا مددگار اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ یقیناً تمہاری مدد کرے گا۔ وھو خیر النصرین۔ وہ بہتر مدد کرنے والا ہے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اس کی وحدانیت پر صدق دل سے ایمان لاؤ۔ اس نے ہمیشہ اہل ایمان کی مدد فرمائی ہے۔ ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلۃ۔ اس نے تمہاری غزوہ بدر میں مدد فرمائی حالانکہ تم اس موقع پر بہت کمزور تھے۔ اس نے حنین کے موقع پر بھی تمہاری مدد فرمائی اس کی مدد ایسے طریقے سے شامل حال ہوجاتی ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسلام کا رعب : اہل اسلام کی مزید تسلی کے لیے فرمایا : سنلقی فی قلوب الذین کفروا لرعب۔ ہم کافروں کے دلوں میں عنقریب رعب ڈال دیں گے۔ جنگ احد کے موقع پر ایسا ہی ہوا۔ بظاہر کافروں کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بہت سے اکابر مسلمان شہید ہوئے۔ مگر پھر کافر وہاں ٹھہر نہ سکے۔ انہیں واپس ہی جانا پڑا۔ ایک موقع پر ابوسفیان کے دل میں خیال پیدا ہوا۔ کہ مسلمان تعداد میں تھوڑے سے تو تھے۔ ان میں سے شہید اور زخمی بھی ہوئے۔ مگر ہم پھر بھی واپس پلٹ رہے ہیں۔ واپس جا کر ان کا کام تمام کردینا چاہئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ انہیں دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور واپس مکہ لوٹ گئے۔ البتہ نبی کریم (علیہ السلام) اور آپ کے زخمی صحابہ نے آٹھ میل تک کفار کا تعاقب کیا۔ فرمایا ان پر رعب اس لیے مسلط کردیا۔ بما اشرکوا باللہ۔ کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شریک بنائے ہیں۔ اور شرک سے ضعف پیدا ہوتا ہے۔ اور حمیت بھی ہو تو وہ حمیت جاہلیہ ہوتی ہے۔ بعض اوقات وہ تعصب اور عناد کی وجہ سے بہادری کا بثوت بھی پیش کرتے ہیں مگر عقل اور بصیرت سے خالی ہوتے ہیں۔ برخلاف اس کے اگر مومن کو وقتی طور پر تکلیف بھی پہنچے تو وہ بصیرت اور سمجھ پر ہوتا ہے۔ کافر اندھے ہوتے ہیں۔ ان میں وہن اور کمزوری پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ توہمات کے پرستار ہوتے ہیں۔ مشرکین کا حال دیکھ لیں۔ ذرا ذرا سی بات پر شگون لیتے ہیں۔ وہ خود اعتمادی سے عاری ہوتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ ضعف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بلال دلیل شرک : فرمایا یہ لوگ جس شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ وہ ایسا ہے۔ مالم ینزل بہ سلطانا۔ جس کی اللہ نے کوئی سند یا دلیل نہیں اتاری ، سلطان کا معنی غلبہ برہان ، دلیل وغیرہ ہے۔ صاحب اقتدار کو بھی سلطان کہتے ہیں یعنی طاقت اور قوت والا۔ بہرحال یہاں سلطان کا معنی دلیل ہے کہ مشرکین کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں بلکہ محض اپنے دادا یا باپ یا قوم کی اندھی تقلید ہے جس پر یہ لوگ مصر ہیں اسکے برخلاف کفر کی تردید میں ہزاروں دلائل موجود ہیں۔ ان میں عقلی ، نقلی ، کتابی ، سمعی ، بصری ہر قسم کے دلائل موجود ہیں۔ انسان ذرا سا غور کرے تو اس کی سمجھ میں یہ بات آسکتی ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے۔ ایک پتہ ہی لے لیں یا گھاس کے ایک تنکے کی تخلیق پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سمجھ میں ٓا جائیگی اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر قطعی طور پر فرما دیا۔ لا برھان لہ بہ۔ ان کے پاس شرک کی کوئی دلیل نہیں۔ محض سنی سنائی باتوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے۔ وماواھم النار۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ کی آگ ہے۔ اور یاد رکھو ! وبئس مثوی الظلمین۔ ظالموں کا ٹھکانا بہت برا ہے۔ کفر شرک کرنے والے سب سے بڑھ کر ظالم ہیں۔ ان لشرک لظلم عظیم۔ شرک ظلم عظیم ہے۔ یہ اول درجے کا ظلم ہے۔ اس کے بعد حقوق ضائع کرنے والے۔ اور لوگوں کی جان و مال کے تلف کنندہ دوسرے درجے کے مجرم ہوں گے ، اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے سب سے بڑے مجرم ہیں۔ ان کا اعتقاد فاسد ہے۔
Top