Fi-Zilal-al-Quran - Adh-Dhaariyat : 75
وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ : اور ہر چیز میں سے خَلَقْنَا : بنائے ہم نے زَوْجَيْنِ : جوڑے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : تم نصیحت پکڑو
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں۔ شاید کہ تم اس سے سبق لو۔
ومن ........ تذکرون (15 : 94) ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے شاید کہ تم اس سے سبق لو۔ “ یہ ایک عجیب حقیقت ہے جو اس زمین کی تخلیق کا بنیادی اصول بتاتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ یہی اصول پوری کائنات میں بھی کار فرما ہو کیونکہ انداز تعبیر میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ صرف زمین اندر ہی یہ اصول کار فرما ہے۔ یہ اصول تخلیق میں زوجیت اور جوڑے کا اصول ، زندہ چیزوں میں زوجیت کا اصول تو بالکل ظاہر و باہر ہے لیکن ” شئی “ کے لفظ کا اطلاق دوسری چیزوں پر بھی ہوتا ہے تو معنی یہ ہوئے کہ تمام اشیاء بھی زوجیت کے اصول پر تخلیق کردہ ہیں۔ جب ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ہم چودہ سو سال سے اس آیت کو پڑھ رہے ہیں اور زوجیت کے اصول کی اس قدر ہمہ گیری کا تصور اس وقت نہ تھا جو اب ہوگیا ہے ، اس وقت تو زندہ چیزوں میں بھی یہ اصول اس قدر ہمہ گیر متصور نہ تھا چہ جائیکہ کوئی تمام اشیاء کے اندر زوجیت کا تصور کرتا ہے۔ اگر ہم یہ حقیقت سوچ لیں تو پھر ہمارے سامنے ایک عجوبہ آجاتا ہے اور یہ ہمیں بتایا ہے کہ اس پوری کائنات کی ہر چیز زوجیت کے اصول پر ہے۔ یہ آیت ہمیں حقیقت بھی بتاتی ہے کہ دور جدید کے تمام انکشافات ہمیں حقیقت کبریٰ کے بہت قریب کرتے جارہے ہیں۔ تمام تحقیقات اس پر متفق ہوتی جارہی ہیں کہ کائنات کی تخلیق ذرے سے ہوتی ہے اور ذرہ دو کہربائی جوڑوں سے مرکب ہے۔ مثبت اور منفی لہٰذا جدید طبعی تحقیقات اس حقیقت کے ثبوت کی طرف جارہی ہیں۔ عبارت اور الفاظ کے لحاظ سے چھوٹے اور مختصر اور مفہوم کے اعتبار سے بڑے اور محیرالعقول اشارات کی روشنی میں آسمان کی دوریوں ، زمین کے اطراف واکناف اور مخلوقات کے انفس کے مکالمے اور مشاہدے کی روشنی میں اب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو نہایت ہی بلند آواز سے پکارتا ہے کہ دوڑو خالق ارض وسماء کی طرف ، خالص ہوکر ، تمام بوجھ اپنے کاندھوں سے پرے پھینک کر ، ہلکی روح ، بےقید دل کے ساتھ اور توحید کے جھنڈے ہاتھوں میں لئے ہوئے دوڑ پڑو۔
Top