Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے کہ شرارت و سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں
اَللہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ : اللہ بھی انسان سے مذاق کرتا ہے، اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ : وہ جس طرح مسلمانوں کے ساتھ استہزاء اور استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں، اللہ بھی ان سے ایسا معاملہ کرتا ہے انہیں ذلت و ادبار میں مبتلا کرتا ہے، اسی کو مشاکلت کے طور پر استہزاء سے تعبیر کردیا گیا ہے یہ زبان کا ایک اسلوب ہے، حقیقۃً استہزاء نہیں بلکہ ان کے فعل استہزاء کی سزا ہے، جس کو استہزاء سے تعبیر کردیا گیا جیسے : ” وَجَزٰؤُا سَیِّئَۃٍسَیِّئَۃٌ مِّثْلُھا “ (الشوریٰ آیت 40) میں برائی کے بدلہ کو برائی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز عمل ہے۔ ذات باری کی طرف تمسخر کا انتساب قدیم صحیفوں میں : قدیم صحیفوں میں ذات باری کی جانب ہنسی اور تمسخر کا انتساب برابر موجود ہے، تو ایک خداوند ان پر ہنسے گا، تو ساری قوموں کو مسخرہ بنا دے گا۔ (زبور 8، 89) میں تمہاری پریشانیوں پر ہنسوں گا، اور جب تم پر دہشت غالب ہوگی، تو ٹھٹھے ماروں گا۔ (امثال، 26: 1) وَیَمُوُّھُمْ فِیْ طُغْیٰنِھِمْ یَعْمَھُوْنَ ، اَلْمَدُّ ، اَلزّیادۃ، یونس بن حبیب نے کہا ہے کہ مَدٌّ کا استعمال شر میں اور اَمَدَّ کا استعمال خیر میں ہوتا ہے جیسے : ” وَاَمْدَدْنَاکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ ۔ وَاَمْدَدْناھُمْ بِفَاکِھَۃٍ وَّلَحْمٍ “ اللہ تعالیٰ کا قوم وَیَمُدُّھم فِی طُغْیَانِھِمْ ، خود ” اَللہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ “ کی تفسیر ہے، یعنی ان کی افتاد طبع کے مطابق اللہ ان کو مزید مہلت اور ڈھیل دیتا ہے، تاکہ سرکشی اور طغیان مکمل ہو کر مکمل سزا کے مستحق ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون تکوینی کے مطابق مخلوق کو جو آزادی دی ہے، اس میں وہ خواہ مخواہ دست اندازی نہیں کرتا، سانپ کو کاٹنے کی، زہر کو ہلاک کرنے کی، آگ کو جلانے کی آزادی اور اجازت اسی قانون تکوینی کے مطابق ہے۔ یَعْمَھُوْنَ ، عَمْہٌ، اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ انسان کو راستہ سجھائی نہ دے اور وہ اندھوں کے مانند ادھر ادھر ٹٹولتا پھرے، اَلْعَمْہ التردد فِی الضلال والتحیر فی منازعۃ (تاج) العمیٰ فی العین وَالعَمہ فی القلب۔ (قرطبی) ایک شبہ کا ازالہ : حدیث و فقہ کا یہ مشہور مقولہ کہ ” اہل قبلہ کو کافر نہیں کہا جاسکتا “ اس کا مطلب آیت مذکورہ ” آمِنوا کما آمَن الناس “ کی روشنی میں یہ متعین ہوگیا کہ اہل قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریات دین میں سے کسی کے منکر نہیں ورنہ منافقین بھی تو مسلمانوں کی طرح اہل قبلہ تھے، مگر ان کا اہل قبلہ ہونا اس بنائ پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام ؓ کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا، نیز قادیانی کا اہل قبلہ ہونا اس بنا پر کافی نہ ہوا کہ ان کا ایمان صحابہ کرام ؓ کی طرح تمام ضروریات دین پر نہیں تھا، حتیٰ کہ بعض ہنود بھی اہل قبلہ ہیں تو کیا یہ سب جماعتیں مسلمین مخلصین میں شامل ہیں ؟ (معارف مخلصا وتصریفا)
Top