Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
ان (منافقوں) سے خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں
اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ ( خدا انکے ساتھ ٹھٹھا کرتا ہے) یعنی انہیں ٹھٹھا کرنے کی جزا دیتا ہے لفظی مقابلہ کے طور پر ٹھٹھا کرنے کی سزا کو ٹھٹھا کرنے سے تعبیر کردیا ہے۔ علامہ بغوی (صاحب معالم التنزیل) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ٹھٹھا کرنا یہ ہے کہ ان کے لیے جنت کا ایک دروازہ کھول دیا جائے گا۔ جب وہ اس دروازہ تک پہنچیں گے تو فوراً بند کردیا جائے گا اور آگ کی طرف دھکیل دیئے جائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ اللہ کا ٹھٹھا کرنا یہ ہے کہ مؤمنین کے لیے ایک نور پیدا کیا جائے گا کہ جس کی روشنی سے پل صراط پر چلیں گے جب منافق اس نور تک پہنچیں گے تو ان کے اور مؤمنین کے مابین ایک پردہ حائل ہوجائے گا جیسا کہ حق تعالیٰ اپنے کلام پاک میں ایک جگہ فرماتا ہے فَضُرِبَ بَیْنَھُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ ( یعنی پھر بنا دی جائے ان کے درمیان ایک دیوار کہ جس کا ایک دروازہ ہوگا) حسن نے فرمایا ہے کہ ٹھٹھا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نفاق کو مومنین پر ظاہر فرما دیتا ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب الصمت میں حسن سے روایت کیا ہے کہ جو لوگوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں ان میں سے ایک کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا اور اسے پکارا جائے گا کہ آیہاں آ۔ جب وہ وہاں تک پہنچے گا اور دروازہ سے پرے ہی ہوگا کہ دروازہ بند کردیا جائے گا ایسا ہی ہوتا رہے گا حدیث کا مضمون ختم ہوا یہ حدیث مرسل اور جید ہے جملہ اللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ کو علیٰحدہ بیان کیا گیا اور پہلے کلام پر عطف نہیں کیا گیا تاکہ یہ بات خوب واضح ہوجائے کہ اللہ ہی ان کی جزا دینے کے لیے کافی ہے مؤمنین کو ان سے تعرض کرنے کی حاجت نہیں اور بجائے اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ کے اللّٰہُ مُسْتَھْزِئٌ بِھِمْ نہیں فرمایا تو اس میں یہ حکمت ہے کہ سزاء استہزاء انہیں متواتر ملتی رہے گی (اور اس تکرار پر مضارع کا صیغہ خود دلالت کررہا ہے) چناچہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے : اَوَ لَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ یعنی کیا نہیں دیکھتے وہ کہ سال میں ایک یا دو دفعہ مبتلائے مصیبت ہوتے رہتے ہیں۔ وَ یَمُدُّھُمْ ( اور اللہ انہیں مہلت دیتا ہے) لفظ یمد مَدَّ الْجَیْشَ سے مشتق ہے اور مد الجیش کے معنی ہیں لشکر کو زیادہ کیا اور اسے قوت دی مد کے اصلی معنی زیادتی کے ہیں۔ لفظ مد اور امداد ہم معنی ہیں صرف فرق ہے تو اتنا ہے کہ مد کا استعمال اکثر شر میں آتا ہے اور امداد کا خیر میں جیسا کہ حق تعالیٰ کے اس قول میں امداد کا استعمال خبر میں آیا ہے وَ اَمْدَدْنَاکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ (اور ہم نے مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی ہے) فِیْ طُغْیَانِھِمْ ( اپنی سرکشی میں اطغیان سے مراد گناہ اور کفر میں حد سے متجاوز ہونا۔ کسائی نے لفظ طغیان کو ہر جگہ امالہ سے پڑھا ہے۔ یَعْمَھُوْنَ ( بہکے پھرتے ہیں) لفظ عمد لغت میں بصیرت یعنی دانائی اور سمجھ کے ضائع ہونے کو کہتے ہیں جیسا کہ لفظ عمیٰ بینائی کے ضائع ہونے کو بولتے ہیں۔
Top