Kashf-ur-Rahman - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
اللہ تعالیٰ ان کو ان کے مذاق کا بدلہ دیتا ہے اور ان کو ان کی سرکشی میں بڑھاتا ہی اور ان کی حالت یہ ہے کہ وہ متحیرو متردد ہیں یعنی صحیح رائے نہیں قائم نہیں کرسکتے1
1۔ اور جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس طرح ایمان لائو جس طرح دوسرے مخلص اور کامل انسان ایمان لائے ہیں تو یہ جواب دیتے ہیں کیا ہم بھی اس طرح ایمان لائیں جس طرح یہ کم عقل اور بیوقوف ایمان لائے ہیں آگاہ رہو کہ یہ منافق خود ہی بیوقوف ہیں مگر یہ اپنی بیوقوفی سے واقف نہیں ہیں اور یہ منافق جب مسلمانوں سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان دار ہیں اور جب خلوت و تنہائی میں اپنے سرداروں کے پاس جمع ہوتے ہیں تو ان کو اپنی معیت کا یقین دلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں مسلمانوں سے تو ہم صرف ہنسی اور مذاق کیا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان منافقوں کو ان کے مذاق کی سزا دے رہا ہے اور ان کو ان کی شرارت اور سرکشی میں اس طور سے بڑھاتا ہے کہ وہ حیران و سرگرداں پھر رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان منافقوں کی دوزخی پالیسی کا یہ حال ہے کہ جب ان سے ایمان لانے کو کہا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مخلص مسلمانوں کو بیوقوف اور کم عقلی کہیں اور جب مسلمانوں کے سامنے پڑجائیں تو اپنے ایمان کا اقرار اور اعتراف کریں اور جب اپنے سرداروں اور چودھریوں کے پاس تخلیہ میں جائیں تو کہیں ہم تمہارے موافق ہیں ہم تو مسلمانوں کو جھانسہ دے رہے ہیں اور ان سے دل لگی کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ میں استہزاء کا لفظ فرمایا حالانکہ وہ استہزا سے پاک اور منزہ ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے تھا نے دار جو اریوں اور قمار بازوں سے کہے میں بھی آج تمہارے ساتھ جوا کھیلوں گا یا آج میں تم کو جوا کھلائوں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ واقعی تھا نے دار جوئے میں شرکت کرے گا ۔ بلکہ اس کے کہنے کا مطلب ہوتا ہے کہ میں آج تم سب کو گرفتار کروں گا اور اس جوئے کا تم کو مزہ چکھائوں گا ۔ یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی استہزاء سے یہی مراد ہے۔ ہر گناہ کی سزا گناہ کی ہم شکل اور ہر نیکی کا صلہ اس نیکی کے مماثل ہوا کرتا ہے اسی مماثلت کی وجہ سے استہزا کی سزا کو بھی لفظ استہزا سے تعبیر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ کا استہزا یہی ہے کہ وہ منافقین کی رسی دراز کر رہا ہے اور یہ اس ڈھیل کو کامیابی سمجھ رہے ہیں وہ ان کو انکی سرکشی اور طغیان میں بڑھا رہا ہے اور ان کو ان رسوا کن نتائج کی کچھ خبر نہیں جو عنقریب پیش آنے والے ہیں آخرت میں بعض گناہ گاروں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے گا جہنم میں ان کو ایسا معلوم ہوگا کہ دوزخ کا دروازہ کھلا ہوا ہے وہ بھاگ کر جائیں گے کہ باہر نکل جائیں لیکن جب دروازے کے قریب پہنچیں گے تو اس کو بند پائیں گے۔ ان کے ساتھ بار بار یہی سلوک ہوگا اور یہ بار بار شرمندہ ہو کر واپس ہوں گے ہوسکتا ہے کہ یہ سلوک منافقوں کے ساتھ کیا جائے اور یہ ان کے اس استہزا کی سزا ہو جو وہ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کرتے تھے جس طرح آنکھوں کے اندھے کیلئے عمی ہے اسی طرح عقل کے اندھے کیلئے عمہ ہے۔ حضرت شیخ الہند (رح) نے یعمھون کا ترجمہ اسی لئے عقل کے اندھے ہیں فرمایا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آنکھوں کا اندھا ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے اسی طرح عقل کے اندھے کوئی آخری اور صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے اور حیران و سرگرداں پڑے پھرتے ہیں وہی حالت ان منافقین کی ہے اور اسی حال میں ان کو ان کی شرارتوں اور طغیان و سرکشی میں پڑھایا جا رہا ہے۔ فائدہ۔ منافقوں کا یہ قول کہ ہم بھی کیا بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں یہ غالباً اپنے سرداروں سے کہتے ہوں گے یا اپنے دل میں کہتے ہوں گے یا آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے۔ ( تسہیل)
Top