Tafseer-e-Haqqani - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
پھر جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور (حکم) سنو اور مانو اور اپنے بھلے کے لیے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو اور جو شخص اپنے دل کے لالچ سے محفوظ رکھا گیا سو وہی فلاح بھی پانے والے ہیں
ترکیب : خیرا منصوب مضمر دل علیہ اتقوا کانہ قال ائتوافی الانفاق خیر لانفسکم وقد موا خبر الھا ھذا قول سیبویہ۔ وعند الکسائی والفراء ھو نعت الصدر محذوف ای انفاقا خیرا و قال ابو عبیدہ ھو خبر یکن مقدرۃ فی جواب الامر وقال الکوفیون منصوب علی الحال وقیل ھو مفعول بہ لا نفقوا ومن شرط فاولئک الجملہ جو ابہ ان تقرضوا شرط یضاعفہ جو ابہ ولذاصار مجزوما ویغفر معطوف علیہ عالم الغیب الرفع علی انہ خبر بعد خبر۔ العزیز موصوف الحکیم صفتہ وکلاھما خبر مبتد واحد ھما مبتداء والاخر خبر۔ تفسیر : پہلے فرمایا تھا تمہارے مال و اولاد فتنہ ہیں اور اجر عظم اللہ کے پاس ہے اور انسان پھر انسان ہے اس فتنہ میں پڑ ہی جاتا ہے۔ اس لیے فرماتا ہے خیر اگر تم مال و اولاد کے سبب معاصی میں مبتلا بھی ہوجاؤ تو فاتقوا اللہ ما استطعتم واسمعوا واطیعوا۔ تو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم سنو اور سن کر مانو۔ یہ کفارہ زن و فرزند کی محبت بےجا کا ہے اور مال کی محبت کا یہ کفارہ ہے کہ وانفقوا خیر لانفسکم اس کو اپنی بھلائی کے لیے خرچ 1 ؎ کرو کس کے لیے کہ جو دے لو گے وہ تمہارے ساتھ چلے گا جس کا اجر یقینا ملے گا جو چھوڑ گئے وہ تمہارے پاس سے جاتا رہا۔ یا یوں کہو کہ اجر عظم جو اللہ کے پاس ہے اس کے حاصل کرنے کے طریقے بتلاتا ہے۔ (1) اللہ سے ڈرو جہاں تک ہو سکے یہ قوت نظریہ کی تکمیل ہے (2) سنو اور عمل کو۔ یہ قوت عملیہ کی تکمیل ہے مگر دونوں بدنی عبادت ہیں۔ (3) اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ مالی عبادت ہی خرچ کرنا عام ہے زکوٰۃ ہو یا صدقات نافلہ ہوں اقارب و یتامٰی وغیرہ و مسافرین وغیرہ اس کے مستحق پہلے کئی بار بتلا چکا ہے اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا۔ قتادہ و ربیع بن انس و سدّی وابن زید وغیرہ علماء فرماتے ہیں کہ یہ آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم ناسخ ہے اس آیت کی۔ اتقوا اللہ حق تقاتہ کو اللہ سے ڈر جیسا کہ ڈرنا چاہیے۔ ابن ابی حاتم نے رسی کی تائید میں ایک روایت کی ہے کہ جب فاتقوا اللہ حق تقانہ نازل ہوئی تو لوگوں نے اعمال کی سخت مشقت اختیار کی یہاں تک کہ نماز میں کھڑے رہنے سے پائوں سوج سوج گئے تب اللہ نے مسلمانوں پر تخفیف کرنے کے یے یہ آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم نازل ہوئی کہ جہاں تک طاقت ہو وہاں تک ڈرو۔ مگر ابن عباس ؓ وغیرہ علماء فرماتے ہیں یہ ناسخ نہیں دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں کس لیے کہ حق تقاتہ کے یہ معنی نہیں کہ اپنی طاقت سے زیادہ ڈر کیونکہ خدا تعالیٰ بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ کوئی حکم نہیں دیتا بلکہ دونوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ جہاں تک طاقت ہو اور یہی ڈرنے کا حق بھی ہے۔ ابن عطا فرماتے ہیں کہ ما استطعتم اس کے لیے ہے جو اللہ سے ثواب پر راضی ہو اور جو راضی نہ ہو تو اس پر وہی حکم حق تقاتہ ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ خرچ کرنا ان کا کام ہے جو لالچی اور حریص نہیں اور حرص سے بچے ہوئے ہیں وہی دنیا اور آخرت میں کامیاب بھی ہیں (شح بخل اور لالچ یہ عام ہے مال کا ہو ‘ جاہ کا ہو ‘ عورت کا ہو) انسان کے اوصاف رذیلہ میں سے یہ بھی ایک ایسی بری خصلت ہے کہ عزت سے محروم کرتی ہے اور نیک کاموں سے روکتی ہے بری باتوں چوری ‘ قتل ‘ غضب ‘ جھوٹ بولنے ‘ بد عہدی کرنے پر ابھارتی ہے عصمت پارسائی کو کھول دیتی ہے۔ پھر اللہ کی را ہمیں صرف کرنے کو قرض دینا فرما کر اطمینان دلاتا ہے اور اس کے فوائد ظاہر کرتا ہے۔ (1) یضاعفہ لکم اس کا دو چند ثواب دے گا یہاں تک کہ ایک کے ساتھ سو تک ملیں گے اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس مال کو بڑھا دے گا۔ تجربہ ہے کہ سخی کے مال میں برکت ہوتی ہے۔ (2) تم کو بخش دے گا اور اللہ قدر دان ہے حلیم بھی ہے سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا پھر بندے کے اجر کو ضائع کرنے میں کیونکر جلدی کرے گا مگر صدقہ میں نیت اور خلوص پر مدار ہے اس لیے قرض حسن فرمایا تھا اس کی طرف عالم الغیب والشہادۃ میں اشارہ کرتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور اس کہنے سے کہ اللہ کو قرض 1 ؎ دو یہ نہ سمجھو کہ وہ عاجز ہے بلکہ العزیز زبردست اور قادر ہے یوں نہ دو گے تو وہ برباد بھی کرسکتا ہے الحکیم اس دینے میں تمہارے لیے صدہا حکمتیں ہیں۔ 1 ؎ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر صبح فرشتے نازل ہوتے ہیں ایک کہتا ہے کہ الٰہی دینے والے کو عوض دے دوسرا کہتا ہے بخیل کو برباد کر (متفق علیہ) نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے اے ابن آدم تجھے دیا جائے گا (متفق علیہ) نبی ﷺ نے فرمایا ظلم سے بچو کہ وہ قیامت کے دن ظلمات ہے اور لالچ سے بچو کیونکہ پہلے تم سے جو ہلاک ہوئے اس لالچ سے ہوئے اس نے ان خون کرنے اور حرام چیزوں کے حلال کرنے پر آمادہ کیا تھا (رواہ مسلم) نبی ﷺ نے فرمایا صدقہ غضب الٰہی کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے (رواہ الترمذی) معلوم ہوا کہ بخیل بری موت مرتا ہے ادنیٰ بات یہ ہے کہ مرتے وقت مال و اسباب کی جدائی کا ایسا رنج ہوتا ہے کہ اللہ کو بھی بھول جاتا ہے۔ 12 منہ۔
Top