Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
پس تم اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تم سے ہو سکے (رسول کی باتوں کو) سنو اور مانو اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور جس کو اس کے نفس کے لالچ سے بچالیا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یعنی تمہاری استطاعت ہے سنو اور مانو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے 16 ؎ اللہ سے ڈرو اور اتنا ڈرو جتنی تمہاری استطاعت ہے اس لیے کہ سارے انسانوں میں ایک جیسی استطاعت نہیں ہوتی اس لیے سب کو نہ تو برابر ڈرایا جاسکتا ہے اور نہ سب برابر ڈر سکتے ہیں ۔ اس زیر نظر آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کردیا حالانکہ سورة آل عمران کی آیت 125 میں ارشاد فرمایا تھا کہ ” اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جس طرح اللہ سے ڈرنے کا حق ہے “ اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور جن لوگوں نے ان دونوں باتوں میں فرق سمجھا ہے اور پھر اس فرق کو اپنی طرف سے نکالنے کی کوشش کی ہے ہمارے خیال میں ان کی تفہیم ہی صحیح نہیں ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا حق سب کو برابر کیونکر ہوا ؟ اس لیے کہ ڈر اور خوف کا تعلق علم اور سمجھ سے ہے۔ جتنا علم و عقل ہوگی اسی کے مطابق ڈر اور خوف ۔ وہی بات جس کے متعلق زیر نظر آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ، دونوں آیتوں میں کوئی فرق نہیں ہے صرف الفاظ الگ الگ ہیں ایک ہی بات کو دس طریقوں سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے لیکن اس کو اختلاف کا نام نہیں دیا جاسکتا ۔ اختلاف اس چیز کا نام ہے جو فی نفسہٖ بات میں اختلاف ہو جب بات ایک ہی ہے تو اس کو مختلف الفاظ میں بیان کرنے سے اختلاف کیسے ہوگیا ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سنو اور ان کو تسلیم کرو اور اپنے مشکل سے کمائے ہوئے مالوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرو ۔ چادر دیکھ کر پائوں پھیلائو اور اپنی آمدنی کے مطابق اخراجات کا بوجھ اٹھائو اور اس میں سے کچھ نہ کچھ غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، سوالیوں ، بیوائوں ، مسافروں اور دوسرے حق داروں کا بھی خیال رکھو۔ ایسا نہ کرو کہ جس طرف تمہارا جی چاہے اس طرف تو پیسے کو پانی کی طرح بہانا شروع کر دو چاہے وہ اخراجات اللہ نے آپ کے ذمہ ڈالے ہوں یا نہ ڈالے ہوں اور جس طرف تمہارا جی نہ چاہے اس طرف سے پیسے کو روک لو چاہے اللہ کا حکم اس طرف خرچ کرنے ہی کا ہو ۔ نہیں ایسا مت کرو یہ مال اللہ نے تم کو دیا اگر تم نے نجارت سے کمایا ہے تو آخرت تجارت میں بھی تم نے اصل زر بھی خرچ کیا ہے اور وہ بھی تم کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا تھا۔ اگر تم نے ملازمت کی ہے تو ظاہر ہے کہ جس علم فکر کے باعث تم کو وہ ملازمت ملی ہے وہ عقل و فکر بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ چیز ہے۔ اسی طرح غور کرتے جائو اور جو بھی جائز طریقہ تمہارے پاس مال کے جمع ہونے کا ہو اس طریقہ میں اللہ رب کریم کا یقینا حصہ ہے اور وافر حصہ ہے اس لیے اس کو خرچ کرتے وقت بھی تم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے خرچ کرو تاکہ تمہارا یہ مال تمہاری آخری کو بنا دے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہو اور تم کو وہ بغیر حساب کے عطا کر دے اور یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہے اور پھر تاکید فرمائی کہ بخل سے بچو اس لیے کہ جس شخص نے اپنے آپ کو بخل سے بچا لا لاریب اس نے فلاح دارین حاصل کرلی ۔ بخل کیا ہے ؟ اس کی وضاحت ہم پیچھے عروۃ الوثقیٰ جلد دوم سورة آل عمران کی آیت 180 ، سورة النساء کی آیت 37 ، جلد چہارم سورة التوبہ کی آیت 76 ، جلد ہشتم سورة محمد کی آیت 37 ، 38 ، جلد ہذا سورة الحدید کی آیت 24 میں بیان کر آئے ہیں وہاں سے ملاحظہ کریں۔
Top