Tafseer-e-Baghwi - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
تمہارا مال اور تمہاری اولاد تو آزمائش ہے اور خدا کے ہاں بڑا اجر ہے۔
15 ۔” انما اموالکم واولادکم فتنۃ “ آزمائش و امتحان اور آخرت سے روکنا ہے کہ اس کے سبب انسان بڑے گناہوں اور حق کو روکنے اور حرام کھانے میں واقع ہوجاتا ہے۔ ” واللہ عندہ اجر عظیم “ ان میں سے بعض نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے دشمن کو ذکر کیا تو اس میں ” من تبعیض “ کا داخل کردیا۔ پھر فرمایا ” ان من ازواجکم واولادکم عدوالکم “ اس لئے کہ سارے گھر والے اور اولاد دشمن نہیں ہیں اور اپنے قول ” انما اموالکم واولاد کم فتنۃ “ میں من کو ذکر نہیں کیا۔ اس لئے کہ یہ فتنہ اور دل کے مشغول ہونے سے خالی نہیں ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں تم میں سے کوئی یہ نہ کہے ” اللھم انی اعوذبک من الفتنۃ “ کیونکہ تم میں سے ہر ایک جب مال اور گھر والوں کی طرف لوٹتا ہے تو وہ فتنہ پر مشتمل ہوتا ہے لیکن چاہیے کہ یوں کہے ” اللھم الی اعوذبک من مفصلات الفتن “ ابوبریدہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے تو حسن اور حسین ؓ آئے اور ان دونوں شر سرخ قمیصیں تھیں، یہ چلتے اور گرتے پڑتے آرہے تھے تو رسول اللہ ﷺ منبر سے اترے ، ان دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے رکھا، پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے ” انما اموالکم واولادکم فتنۃ “ میں نے ان بچوں کی طرف دیکھا کہ گرتے پڑتے چلے آرہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہوا اور میں نے اپنی بات درمیان میں چھوڑ دی اور ان دونوں کو اٹھا لیا۔
Top