Tadabbur-e-Quran - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
تو اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک ہو سکے اور سنو اور مانو اور خرچ کرو اپنی بھلائی کے لیے اور جو حرض نفس کی بیماری سے محفوظ رکھے گئے وہی فلاح پانے والے ہوں گے۔
فاتقوا اللہ ما استطعتم واسمعموا واطیعوا وانفقوا خیر الا نفسکم ومن یوق شح نفسہ فاولیک ھو المفلحون) (16)۔ (فلاح کی راہ)۔ یہ اس سلسلہ کی آخرت نصیحت ہے کہ اللہ سے برابر ڈرتے رہو کہ شیطان تمہیں کسی فتنہ میں نہ ڈالنے پائے۔ یہ ڈرنا تاحد امکان ہو۔ تمہارے امکان میں جس حد تک ہے اگر اس حد تک تم اللہ سے ڈرنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ شیطان کو تم پر قابو پانے نہیں دے گا ورنہ مال و اولاد کے کسی فتنہ میں پڑ کر تم اللہ کی راہ سے اتنے دور ہو جائو گے کہ تمہارے لیے بازگشت کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہے گا۔ (واسمعوا واطیعو وانفقوا خیر لا نفسکم) یہ وہی اوپر والی بات مثبت انداز میں فرمائی کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات سنو اور مانو اور خدا کی راہ میں جس انفاق کی دعوت دی جا رہی ہے اس پر لبیک کہو۔ اس انفاق کا اصلی نفع اللہ و رسول کو نہیں حاصل ہوگا بلکہ تمہی کو حاصل ہوگا اگر تم خلوص اور فیاضی سے خرچ کرو گے۔ (ومن یوق مشح نفسہٖ فاولیک ھم المفلحون) شح۔ کے معنی بخل و حرص کے ہیں۔ فرمایا کہ انسان کے نفس کے اندر جو بخل ہے۔ اگر وہ نفس پر غالب آجائے تو وہ اس کے لیے تباہی کا سبب بن جاتا ہے۔ مبارک ہیں اللہ کے وہ بندے جو اس کے غلبہ سے محفوظ رکھے گئے۔ آخرت میں فلاح پانے والے وہی بنیں گے ! (شح) کی اضافت، نفس کی طرف اس بات کی دلیل ہے کہ نفس انسانی جن داعیات سے مرکب ہے ان میں اس کا بھی ایک مقام ہے لیکن یہ ان دعادی میں سے ہے جن سے اگر ہوشیار نہ رہا جائے تو یہ شہوت یا غضب کی طرح انسان کی ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس کو اتنی ڈھیل نہ دی جائے کہ یہ نفس پر غالب آ کر ایثار و قربانی کے جذبات کو دبا لے۔ اس کا طریقہ یہی ہوسکتا ہے کہ جب یہ جذبہ غالب ہونے لگے تو انسان اس کے علی الرغم انفاق کر کے اس کو دباتا رہے یہاں تک کہ یہ اتنا کمزور ہوجائے کہ نیکی کے اقدامات میں مزاحم نہ ہو سکے۔ قرآن کے الفاظ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے اس جذبہ کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کوشش میں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جو اس کوشش میں کامیاب ہوئے آخرت کی فلاح کے حق دار وہی ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ کی رضا جوئی کے اعمال میں انفاق کا درجہ سب سے اونچا ہے بالخصوص وہ انفاق جو آدمی اپنی ذاتی ضروریات کو نظر انداز کر کے کرتا ہے۔ (وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ) (الحشر : 59، 9) (وہ اپنے اوپر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود ضرورت مند ہوں)
Top