Al-Quran-al-Kareem - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
سو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھو اور سنو اور حکم مانو اور خرچ کرو، تمہارے اپنے لیے بہتر ہوگا اور جو اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے جائیں سو وہی کامیاب ہیں۔
1۔ فَاتَّقُوا اللہ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔۔۔۔۔۔: مال و اولاد کے فتنے سے بچنے کے لیے چند چیزوں کی تاکید فرمائی ، جن میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حسب استطاعت تقویٰ ہے ، پھر سمع و طاعت اور آخر میں فتنہ بننے والے اس مال کو خرچ کرنا ہے اور اس میں بخل سے گریز کرنا ہے۔ 2۔ مَا اسْتَطَعْتُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے لیے اللہ کے احکام پر اتنا عمل ہی فرض ہے جتنی اس میں طاقت ہے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(لَا یُکَلِّفُ اللہ ُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا) (البقرہ : 286)”اللہ کسی جان کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی گنجائش کے مطابق“۔ جہاں آدمی بےبس ہوجائے وہاں مؤاخذہ نہیں۔ (دیکھئے بقرہ : 173۔ انعام : 19 ، نحل : 106) مؤاخذہ اسی صورت میں ہے جب آدمی استطاعت کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ آدمی بہانہ بنا لے اور فرض کو لے کر فلاں کام میری استطاعت سے باہر ہے ، حالانکہ وہ اس کی استطاعت میں ہو تو اس پر اس کا ضرور مؤاخذہ ہوگا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر بات کا علم ہے۔ 3۔ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا : یعنی اللہ اور اس کے رسول کے احکام سنو اور ان کی اطاعت کرو۔ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام ؓ سے سمع و طاعت کی بیعت لیا کرتے تھے ، عبادہ بن صامت ؓ کی بیعت والی حدیث کے الفاظ ہیں :(بایعنا رسول اللہ ﷺ علی السلمع والطاعۃ فی المشط والمکرہ) (بخاری الاحکام ، باب کیف بیابع الامام الناس ؟ 7199) ’ ’ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے خوش دلی اور ناگواری (ہر حال) میں سننے اور فرماں برداری کرنے پر بیعت کی“۔ 4۔ وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ :”خیرا“ ”یکن“ کی خبر ہونے کی وجہ سے منصوب ہے جو یہاں ”انفقوا“ کے جواب میں مقدر ہے۔ یعنی خرچ کرو یہ تمہارے لیے بہترہو گا۔ یہ مال کے فتنے کا تریاق ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جائے ، جمع کرکے نہ رکھا جائے۔ ابو ذر ؓ فرماتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ، آپ اس وقت کعبہ کے سائے میں تھے اور فرما رہے تھے :(ھم الاخسرون و رب الکعبۃ ھم الاخسرون و رب الکعبۃ) ”وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم ! وہی سب سے زیادہ خسارے والے ہیں رب کعبہ کی قسم !“ میں نے کہا :”میرا کیا معاملہ ہے ، کیا مجھ میں کوئی (خسارے والی) چیز دکھائی دے رہی ہے ، میرا معاملہ کیا ہے ؟“ خیر میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور آپ یہی فرماتے رہے ، مجھ میں خاموش رہنے کی سکنت نہ رہی ، اللہ کو جو منظور تھا (یعنی بےقراری اور اضطراب) وہ مجھ پر طاری ہوگیا ، تو میں نے پوچھا :”وہ کو نہیں یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ؟“ آپ ﷺ نے فرمایا :(ھم الاکثرون اموالا الا من قال ھکذا وھکذا وھکذا) (بخاری ، الایمان والتذوا ، باب کیف کانت یمین النبی ﷺ ؟: 6638، مسلم : 990)”وہ لوگ جو بہت زیادہ اموال والے ہیں ، سوائے اس کے جو اس طرح اور اس طرح اور اس طرح (بےدریغ) خرچ کرے“۔ 5۔َ ”اَنْفِقُوْا“ (خرچ کرو) کا مصرف ذکر نہیں فرمایا، تا کہ عام رہے اور فرض و نفل ہر قسم کا خرچ کرتے رہنے کی تاکید ہوجائے۔ اس میں اپنی ذات پر ، اہل و عیال پر اور ان لوگوں پر خرچ کرنا بھی شامل ہے جن کی پرورش اس کے ذمے ہے۔ ضرورت کی دوسری جگہوں پر بھی ، صدقات کے ان آٹھ مصارف میں بھی جن کا سورة ٔ توبہ کی آیت (60) ”اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ۔۔۔“ میں ذکر ہے اور ان میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں پر جو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے وقف ہیں۔ دیکھئے سورة ٔ بقرہ (273) کی تفسیر۔ 6۔ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ۔۔۔۔۔۔: اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے سورة ٔ حشر کی آیت (9) کی تفسیر۔”شح“ سے بچنے کی تاکید سے ظاہر ہے کہ اہل و عیال پر خرچ بھی اللہ کے ساتھ قرض حسن کے معاملے میں شامل ہے۔
Top