Tafseer-e-Saadi - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
سو جہاں تک ہو سکے خدا سے ڈرو اور (اسکے احکام کو) سنو اور (اسکے) فرمانبردار ہو اور (اسکی راہ میں) خرچ کرو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے اور جو شخص طبیعت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تقوے کا حکم دیتا ہے جو اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کے نواہی سے اضتناب کرنے کا نام ہے اور اللہ نے اس کو استطاعت اور قدرت سے مقید رکھا ہے یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ واجب جس کو ادا کرنے سے بندہ عاجز ہو اس سے ساقط ہوجاتا ہے اگر کچھ امور پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور کچھ پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ انہی امور پر عمل کرے گا جن پر عمل کرنے کی وہ قدرت رکھتا ہے اور جن امور پر عمل کرنے سے عاجز ہے وہ اس سے ساقط ہوجائیں گے جیسا کہ نبی نے فرمایا۔ ترجمہ۔ جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں استطاعت ہے اس کے مطابق اس پر عمل کرو اس شرعی قاعدے میں اتنی زیادہ فروع داخل ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان (واسمعوا) یعنی الہ جو تمہیں نصیحت کرتا ہے ور اس نے جو احکام تمہارے لیے مشروع کیے ہیں ان کو سنو۔ ان کو جان لو اور اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کردو۔ (واطیعوا) اور اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ (وانفقوا) اور شرعی نفقات واجبہ اور مستحبہ ادا کرو۔ تمہارا یہ فعل (خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ ۭ ) دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہوگا کیونکہ بھلائی تمام تر اللہ کے اوامر پر عمل کرنے، اس کے نصائح کو قبول کرنے اور اس کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ہے اور شر تمام تر اس کی مخالفت کرنے میں ہے مگر وہاں ایک اور آفت بھی ہے جو بہت سے لوگوں کو اللہ کے راستے میں مامور بہ نفقات سے روکتی ہے اور وہ ہے بخل۔ جو اکثر نفوس کی جبلت ہے نفس مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں اس کی موجودگی کو پسند کرتے ہیں اور مال کے ہاتھ سے نکلنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ( وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ ) جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس کے نفس کے بخل سے بچالیا یعنی اس کو مال خرچ کرنے کی توفیق عطا کردی جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ (فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) تو وہ لوگ فلاح پانے والے کیونکہ انہوں نے مطلوب کو پالیا اور ڈرائے جانے والے امور سے نجات پائی۔ بلکہ شاید یہ ہر اس امر کو شامل ہے جس کا بندے کو حکم دیا گیا یا اس سے اس کو روکا گیا ہے کیونکہ اگر اس کا نفس بخیل ہے تو اس حکم کی اطاعت نہیں کرے گا جس کا اسے حکم دیا جارہا ہے اور مامور بہ نفقات کو ہاتھ سے نہیں نکالے گا تو اس نے فلاح نہیں پائی بلکہ دنیا وآخرت میں خسارے میں رہا اگر اس کا نفس سختی ہے اللہ کی شریعت پر انشراح کے ساتھ مطمئن اور اس کی رجا کا طلب گار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس فعل کے درمیان جس کا وہ مکلف کیا گیا ہے اس فعل کے علم اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی معرفت اور اس چیز کی بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کررہا ہے اس طریقے سے فلاح پائے گا اور تمام تر کامیابی سے بہرہ مند ہوگا۔
Top