Al-Qurtubi - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ : پس ڈرو اللہ سے مَا اسْتَطَعْتُمْ : جتنی تم میں استطاعت ہے وَاسْمَعُوْا : اور سنو وَاَطِيْعُوْا : اور اطاعت کرو وَاَنْفِقُوْا : اور خرچ کرو خَيْرًا : بہتر ہے لِّاَنْفُسِكُمْ : تمہارے نفسوں کے لیے وَمَنْ يُّوْقَ : اور جو بچالیا گیا شُحَّ : بخیلی سے نَفْسِهٖ : اپنے نفس کی فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ : وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
سو جہاں تک ہو سکے خدا سے ڈرو اور (اسکے احکام کو) سنو اور (اسکے) فرمانبردار ہو اور (اسکی راہ میں) خرچ کرو (یہ) تمہارے حق میں بہتر ہے اور جو شخص طبیعت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔
اس میں پانچ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اہل تاویل کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ یہ آیت اس آیت اتقوا اللہ حق تقتہ (آل عمران : 102) کے لئے ناسخ ہے۔ ان میں قتادہ، ربیع بن انس، سدی اور ابن زید ہیں۔ طبری نے ذکر کیا ہے : مجھے یونس بن عبدالاعلی نے اور انہیں ابن دہب نے انہیں ابن زید نے خبر دی کہ یایھا الذین امنوا اتقوا اللہ حق تقتہ (آل عمران : 102) کے ارشاد سے شدید امر آیا صحابہ نے کہا : اس کی قدر کون پہچان سکتا ہے یا کوئی اس تک پہنچ سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے پہچان لیا کہ یہ امر ان پر شدید ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ان پر منسوخ کردیا اور اس آیت کے بدلے دوسری آیت لایا، وہ یہ آیت ہے فاتقوا اللہ ما استطعتم۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ محکم ہے اس میں کوئی نسخ نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اتقوا اللہ حق تقتہ منسوخ نہیں لیکن حق تقتہ کا معنی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے جہاد کرے جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت انہیں گرفت میں نہیں لیت، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے انصاف کے لئے کھڑے ہوتے ہیں خواہ انصاف ان کے خلاف ہوا ان کے آباء کے خلاف ہو اور ان کے بیٹوں کے خلاف ہو۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اگر یہ کہا جائے : جب یہ آیت محکم ہے منسوخ نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کا فرمان جو سورة تغابن میں ہے فاتقوا اللہ ما استطعتم کا کیا معنی ہے تو یہ کیسے جائز ہوگا کہ اتقوا اللہ حق تقتہ (آل عمران : 102) اور فاتقوا اللہ ما استطعتم جمع ہوجائیں جبکہ اتقوا اللہ حق تقتہ ایسا امر ہے جو بغیر کسی خصوص کے ثابت ہے اور ان میں کوئی شرط بھی نہیں اور فاتقوا اللہ ما استطعتم ایسا امر ہے جو شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ تو اسے کہا جائے گا : اللہ تعالیٰ کا فرمان فاتقوا اللہ ما استطعتم اس سے مختلف ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان : اتقوا اللہ حق تقتہ دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان فاتقوا اللہ ما استطعتم کا معنی ہے اے لوگو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور تاڑ میں رہو ان چیزوں میں جو تمہارے لئے فتنہ بنا دی گئی ہیں وہ تمہارے مالوں میں سے ہو اور تمہاری اولاد سے ہو کہ کہیں وہ فتنہ تم پر غالب ہی نہ آجائے اور اللہ تعالیٰ کے لئے جو تم پر واجب ہے اس سے تمہیں روک نہ دے جیسے کفر کے علاقہ سے اسلام کی سرزمین کی طرف ہجرت کی۔ جس قدر تم طاقت رکھتے ہو تو تم ہجرت کو ترک کر دو ، معنی ہے تم ہجرت کی طاقت رکھتے ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کو معذور جانا ہے جو ہجرت کی طاقت نہ رکھتا ہو، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ ظَاِلِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْط قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِط قَالُوْٓا اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللہ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَاط فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہََنَّمُط وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا۔ اِلَّا الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً وَّلَا یَہْتَدُوْنَ سَبِیْلًا۔ فَاُولٰٓئِکَ عَسَی اللہ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ (النسائ : 99) اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ جو آدمی حیلہ نہیں رکھتا اور دار شرک میں رہنے کی وجہ سے کوئی راہ نہیں پاتا تو اسے معافی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فرمان : فاتقوا اللہ ما استطعتم بھی ہجرت کے بارے میں ہے کہ دارشرک سے داراسلام کی طرف ہجرت کرو تو تم اپنے اموال اور اولاد کے فتنہ کی وجہ سے ترک کرو، جو چیز اس کی صحت پر دال ہے وہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فاتقوا اللہ ما استطعتم جو یایھا الذین امنوا ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروھم کے بعد آیا ہے۔ قرآن حکیم کی تاویل کرنے والے اہل علم اسلاف میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت ایسے افراد کے بارے میں نازل ہوئیں جنہوں نے دار شرک سے داراسلام کی طرف ہجرت کرنے میں تاخیر کی کیونکہ ان کی اولادوں نے انہیں روک لیا تھا جس طرح پہلے گزر چکا ہے، یہ سب طبری کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فاتقوا اللہ ما استطعتم سے مراد ہے یہ نفلی عبادت اور صدقہ کے بارے میں ہے کیونکہ جب اتقوا اللہ حق تقتہ (آل عمران : 102) آیت نازل ہوئی تو یہ حکم قوم پر بڑا سخت واقع ہوا انہوں نے قیام کیا یہاں تک کہ ان کی پنڈلیاں سوج گئیں، ان کی پیشانیاں زخمی ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں تخفیف کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی فاتقوا اللہ ما استطعتم تو پہلی آیت منسوخ ہوگئی، یہ ابن جبیر نے کہا : مادردی نے کہا : یہ احتمال موجود ہے اگر یہ قول ثابت نہ ہو کہ جس آدمی کو نافرمانی پر مجبور کیا جائے تو اس کا مواخذہ نہ ہو کیونکہ وہ تقویٰ کی استطاعت نہیں رکھتا تھا (1) ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ واسمعوا واطیعوا جو تمہیں وعظ نصیحت کی جاتی ہے اس کو سنو اور جس کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور جس سے تمہیں روکا جاتا ہے اس کی اطاعت کرو۔ مقاتل نے کہا : اللہ کی کتاب میں سے جو تم پر نازل کی جاتی ہے اسے غور سے سنو، سماع میں یہی اصل ہے اللہ تعالیٰ کا رسول جو تمہیں حکم دے اور جس سے تمہیں منع کرے اس کی اطاعت کرو۔ قتادہ نے کہا : ان دونوں امور میں نبی کریم ﷺ کی بیعت کی گئی کہ امر و نہی کو سنا بھی جاسکتا اور طاعت بھی کی جائے گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسمعوا کا معنی ہے جو تم سنتے ہو اسے قبول کرو۔ اسے سماع سے تعبیر کیا ہے کیونکہ قبول کرنا سماع کا فائدہ ہے۔ میں کہتا ہوں : حجاج نے اس آیت کی تعبیر میں اپنی جانب سے معنی گھسیڑا جب اس نے اس آیت کی تلاوت کی اور اسے عبد الملک بن مروان پر منطبق کیا گیا : فاتقوا اللہ ما استطعتم واسمعوا واطیعوا یہ عبدالملک بن مروان جو امین اللہ اور اس کا خلیفہ ہے کہ بارے میں ہے اس میں کوئی استثناء نہیں اللہ کی قسم ! اگر میں کسی کو حکم دوں کہ وہ مسجد کے دروازے سے باہر نکلے تو وہ کسی اور جگہ سے نکلے تو اس کا خون میرے لئے حلال ہوجائے گا (٭) ۔ اس نے آیت کی تاویل کرنے میں جھوٹ بولا کیوں نہیں یہ اولا نبی کریم ﷺ کے لئے ہے پھر آپ ﷺ کے بعد اولی الامر کے لئے ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم (النسائ :59) مسئلہ نمبر 4 ۔ وانفقوا ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد زکوٰۃ ہے (2) ، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد جہاد میں نفقہ ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : انسان کا اپنی ذات کے لئے نفقہ ہے (3) ۔ ابن عربی نے کہا : لانفسکم کے الفاظ نے اس سے یہ قول کروایا ہے اور اس پر یہ امر ختص رہا کہ نفقہ میں فرض اور نفل سب اپنی ذات کے لئے ہی نفقہ ہوتا ہے (4) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ان احسنتم احسنتم لانفسکم وان اساتم فلھا (الاسرائ : 7) انسان بھلائی میں سے جو بھی فعل کرتا ہے وہ اپنے لئے ہی کرتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ حکم عام ہے نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے آپ ﷺ سے عرض کی : میرے پاس ایک دینار ہے۔ فرمایا : ” اسے اپنی ذات پر خرچ کر “۔ اس نے عرض کی : میرے پاس دوسرا ہے۔ فرمایا : ” اسے اپنے گھر والوں پر خرچ کر “۔ عرض کی : میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا : ” اسے اپنی اولاد پر خرچ کر “۔ عرض کی میرے پاس ایک اور دینار ہے۔ فرمایا : ” اسے صدقہ کر دے “ (٭) پہلے ذات، اہل اور اولاد کا ذکر کیا اور صدقہ کو بعد میں رکھا، شرع میں یہی اصل ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ خیرالانفسکم۔ خیرا سیبویہ کے نزدیک فعل مضمر کی وجہ سے منصوب ہے اس پر انفقوا دلالت کرتا ہے گویا فرمایا : ایتوافی الانفاق خیرا لانفسکم یا قدموا خیر الانفسکم۔ کسائی اور فراء کے نزدیک یہ مصدر مخدوف کی صفت ہے تقدیر کلام یہ ہے انفقوا انفاقا خیرء الانفسکم ابو عبیدہ کے نزدیک یہ کان مضمر کی خبر ہے تقدیر کلام یہ ہوگی یکن خیرا لکم جس نے خیر سے مراد مال لیا ہے تو یہ انفقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ ومن یوق شخ نفسہ فاولئک ھم المفلحون (11) اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے اس طرح ان تقرضوا اللہ قرضا حسنا یضعفہ لکم ویغفرلکم کے بارے میں سورة بقرہ اور سورة حدید میں بحث گزر چکی ہے۔ ویغفرلکم واللہ شکور حلیم۔ شکر کے بارے میں بحث سورة البقرۃ میں گزر چکی ہے۔ حلیم اسے کہتے ہیں جو جلد بازی نہیں کرتا۔
Top