Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - At-Taghaabun : 16
فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
فَاتَّقُوا اللّٰهَ
: پس ڈرو اللہ سے
مَا اسْتَطَعْتُمْ
: جتنی تم میں استطاعت ہے
وَاسْمَعُوْا
: اور سنو
وَاَطِيْعُوْا
: اور اطاعت کرو
وَاَنْفِقُوْا
: اور خرچ کرو
خَيْرًا
: بہتر ہے
لِّاَنْفُسِكُمْ
: تمہارے نفسوں کے لیے
وَمَنْ يُّوْقَ
: اور جو بچالیا گیا
شُحَّ
: بخیلی سے
نَفْسِهٖ
: اپنے نفس کی
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
: وہ ہیں فلاح پانے والے ہیں
پس ڈرو اللہ تعالیٰ سے جس قدر تم طاقت رکھتے ہو ، اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو ، یہ بہتر ہے تمہاری جانوں کے لئے۔ اور جو شخص بچا لیا گیا اپنے نفس کے بخل سے ، پس یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے
ربط آیات : سورۃ کی ابتداء میں اللہ نے توحید اور ایمان کی بات بیان فرمائی۔ پھر نبوت و رسالت کے معترضین کو جواب دیا اور جزائے عمل کا ذکر کیا۔ فرمایا قیامت یوم التغابن یعنی ہار جیت کے دن واقع ہوگی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول اور اس پر نازل کردہ نور پر ایمان لانے کا حکم دیا۔ پھر اللہ نے تکلیف آنے کا فلسفہ بیان فرمایا کہ یہ منجانب اللہ آتی ہے لہٰذا اس میں جزع فزع نہیں کرنا چاہیے آگے فرمایا کہ بہت سے لوگوں کے حق میں ان کے بیوی بچے ان کے دشمن بن جاتے ہیں لہٰذا ان سے محتاط رہنے کا حکم دیا۔ پھر اللہ نے مال اور اولاد کے متعلق فرمایا کہ یہ آزمائش کا ذریعہ ہے۔ اس میں مبتلا ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غافل نہیں ہوجانا چاہیے۔ تقوی اختیار کرنے کی ترغیب : اب سورة کے آخر میں اللہ نے مذکورہ غفلت کو دور کرنے اور امور خیر میں دل کھول کر خرچ کرنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ فاتقو اللہ ما استطعتم ، پس اللہ تعالیٰ سے ڈرجائو جس قدر تم میں طاقت ہے۔ تقویٰ کا معنی بچائو ہوتا ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی گرفت سے ڈر کر معصیت سے بچ جائو۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی تفسیر کے مطابق اتقیٰ کا معنی یہ ہے کہ انسان سب سے پہلے کفر ، شرک اور نفاق سے اور پھر معاصی سے بچ جائے اول الذکر بدعقیدگی کی چیزیں اور کبیرہ گناہ ہیں۔ اگر ان سے بچ گیا اور پھر چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بھی محفوظ رہا تو اس کو کامل درجے کا تقویٰ حاصل ہوجائے گا۔ تقویٰ کا ایک معنی عاجزی بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت کے مطابق تقویٰ کا مفہوم یہ ہے الا تری نفسک خیرا من احمد کو تو اپنے آپ کو کسی دوسرے سے بہتر نہ سمجھے بلکہ عاجزی اختیار کرے اور اللہ کی مقررکردہ حدود کی حفاظت کرے۔ اللہ نے سورة توبہ میں اپنے نیک بندوں کی ایک یہ صفت بھی بیان کی ہے۔ والحفظون لحدود اللہ (آیت 112) کہ وہ اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں ، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) کے نزدیک تقویٰ ” محافظت برحدود شرع است “ یعنی شریعت کی حدود کی حفاظت کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ حدود شرع میں چونکہ اعتقاد ، اور عمل ب کچھ شامل ہے لہٰذا ان سب کی درستگی ضروری ہے۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر ایک اشکال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس آیت میں تو حسب استطاعت تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جب کہ سورة آل عمران میں ارشاد ہے یایھا ………………تقتہ (آیت 102) اے ایمان والو ! اللہ تے ڈر جائو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ بظاہر تو ان دونوں آیتوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ سورة آل عمران میں جہاں مضبوطی سے تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس تقویٰ سے مراد عقیدے کا تقویٰ ہے یعنی ایمان اور توحید کے معاملہ میں کسی قسم کا ضعف نہیں آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے کہ وہ کفر اور شرک کو معاف نہیں کرے گا ، اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے معاف کردے چونکہ کفر اور شرک کا تعلق عقیدے سے ہے ، اس لئے فرمایا کہ عقیدے میں اس طرح تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ تقویٰ کا حق ہے۔ انسان کا عقیدہ ہر قسم کی آلائش سے پاک ہونا چاہیے۔ اور اس آیت میں فرمایا ہے کہ اللہ سے ڈرجائو ما استطعتم ، جس قدر تمہاری طاقت ہے تو اس سے مراد اعمال تقویٰ ہے کیونکہ اعمال میں کوتاہی قابل معافی اور قابل رعایت ہے۔ مثلاً اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں تو بیٹھ کر پڑھ لے ، بیٹھ کر نہیں پڑھ سکتا تو لیٹے لیٹے پڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر بیمار ہے یا مسافر ہے اور روزہ نہیں رکھ سکتا تو قضا کرلے۔ اللہ تعالیٰ کا عام قانون بھی یہی ہے لا یکلف………………وسعھا (البقرہ 286) اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ غرضیکہ سورة آل عمران میں آمدہ تقویٰ سے مراد عقیدے کا تقویٰ ہے جب کہ اس آیت میں تقویٰ سے مراد اعمال کا تقویٰ ہے لہٰذا دونوں آیات میں فی الحقیقت کوئی تعارض نہیں ہے۔ سماعت ، اطاعت اور نفاق : فرمایا حسب استطاعت اللہ سے ڈرو۔ واسمعوا اور سنو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی بات کو سنو ، قانون پر عمل درآمد کے لئے سماعت پہلی منزل ہے۔ جو شخص سنے گا ، پھر سمجھے گا تو اس پر عمل بھی کریگا۔ اور جو شخص کسی بات کو سننے کے لئے ہی تیار نہ ہو ، اس سے عمل کی امید کیا ہوسکتی ہے ؟ اس لئے فرمایا سنو واطیعو اور اطاعت کرو۔ جو کچھ حکم دیا جارہا ہے اس کو بسر وچشم قبول کرو اور پھر اس کے مطابق عمل پیرا ہوجائو آگے فرمایا وانفقوا اور خرچ کرو۔ سورة منافقون میں گزر چکا ہے وانفقوامن ما رزقنکم (آیت 10) جو کچھ ہم نے روزی دی ہے اس میں سے خرچ کرو۔ یہاں بھی یہی مطلب ہے کہ اللہ کے عطا کردہ مال میں سے خرچ کرو۔ جہاں تک خرچ کی مدات کا تعلق ہے تو ان کا تذکرہ بھی مذکورہ سورة میں ہوچکا ہے کہ سب سے پہلے فرائض کو پورا کرو۔ مالی نصاب کو پہنچ گیا ہے تو زکوٰۃ ادا کرو ، صدقہ فطر دو ، قربانی کرو پھر غربیوں محتاجوں ، مسکینوں ، مسافروں ، ہمسائیوں اور اقرباء پر خرچ کرو۔ لوگوں کے حقوق ادا کرو…………اور مستحبات پر خرچ کرو ، حج کرو اور دیگر عبادات پر خرچ کرو خیرلانفسکم ، ایسا کرنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ بخل اچھا نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ومن ………………نفسہ (محمد 38) جو شخص بخل کرتا ہے اس کا وبال اس کی اپنے نفس پر ہی پڑتا ہے۔ یہی مضمون اللہ نے یہاں بھی بیان فرمایا ہے ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون ، جس کو اس کے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا ، پس یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں بخل ، حرص اور لالچ بداخلاقی کی باتیں ہیں ، اور بخل خاص طور پر بدترین بیماری ہے کتنے افسوس کا مقام ہے کہ لوگ ناجائز اور فضول رسومات پر تو بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔ مگر نیکی کے کام پر خرچ کرنے سے اعراض کرتے ہیں یہی بخل ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ بسا اوقات انسان اولاد کی خاطر بخل کرتا ہے تاکہ ان کے لئے مال جمع رہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ کی فرضیت میں دو مصالح ہیں۔ ایک مصلحت تو خود زکوٰۃ دہندہ کے لئے ہے کہ اس کے نفس سے بخل کا مادہ خارج ہوتا ہے اور اس کی بجائے فیاضی کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور دوسری مصلحت محتاجوں کی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان کی ضروریات پوری ہوتی رہتی ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ خرچ کرو تاکہ تمہاری طبیعتوں میں سے بخل کا مادہ نکل جائے۔ قرض حسن : آگے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو قرض حسن سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ان تقرضوا اللہ قرضا حسنا ، اگر تم اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دو گے یضعفہ لکم ، تو خدا تعالیٰ اسے دگنا کرکے تمہیں لوٹائیگا۔ عام اصطلاح میں قرض حسن وہ ہوتا ہے جو کسی ضرورتمند کو بغیر سود ، احسان یا تکلیف کے دیا جائے۔ یہ قرضہ قابل واپسی ہوتا ہے تاکہ مقروض اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد واپس کردے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ جو آدمی صدقہ کرتا ہے اسے اس کا کم از کم دس گناہ بدلہ ملتا ہے اور جو قرض حسن دیتا ہے اسے دگنا ملتا ہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا کہ قرض حسن دو ، اللہ تمہیں دگنا عطا کرے گا۔ البتہ یہاں قرض حسن سے مراد قابل واپسی قرضہ نہیں بلکہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے بالخصوص جہاد کے لئے خرچ کرنے کو قرض حسن کہا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں بخل کی بیماری عام ہے جس کی وجہ سے لوگ قرض حسن سے اعراض کرتے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں بنکاری کا نظام رائج ہے اور لوگوں کو سود کا چسکا پڑچکا ہے ، لہٰذا اکثر لوگ اپنی رقوم بنکوں میں جمع کرکے نفع حاصل کرتے ہیں یا مختلف سکیموں میں سرمایہ کاری کرکے دگنا چوگنا کماتے ہیں۔ کہیں انشورنس ہے ، کہیں انعامی بانڈز ہیں ، کہیں پانچ سالہ یا دس سالہ سک میں ہیں۔ گویا اس نظام کی بہت سی شکلیں ہیں جو یہودیوں کی یاجاد کردہ ہیں اور جنہوں نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، لہٰذا کوئی شخص آسانی سے قرض حسنہ دینے پر تیار نہیں ہوتا۔ ادھر قرض لینے والے بھی لے تو لیتے ہیں مگر آسانی سے واپس نہیں کرتے بلکہ بعض تو بالکل ہی پی جاتے ہیں۔ یہ بھی بہت بری بات ہے اور قرض حسن کے راستے میں ایک رکاوٹ ہے ، تاہم مال ہوتے ہوئے کسی ضرورت مندکو نہ دینا اس سے بھی بری بات ہے۔ اس ضمن میں جابنین کا رویہ قابل اصلاح ہے۔ انفاق فی الجہاد : جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے اس آیت میں انفاق سے مراد بالخصوص جہاد کے لئے خرچ کرنا ہے۔ عام انفاق کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے۔ من جآئ………………امثالھا (الانعام 161) جو ایک نیکی کرتا ہے ۔ اس کا بدلہ دس گنا ہے ، یعنی ایک روپیہ خرچ کرنے پر دس روپے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔ البتہ جہاد کے لئے خرچ کرنے کا اجر سات سو گنا سے شروع ہوتا ہے اور جس کی زیادہ سے زیادہ کوئی حد نہیں ہے ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی ؓ نے جہاد کے موقع پر اللہ کے راستے میں ایک اونٹنی بمع سازو سامان دی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اس کے بدلے میں تمہیں سات سو اونٹنیاں بمع سازو سامان عطا فرمائے گا۔ فرمایا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دگنا اجر عطا کرے گا۔ ویغفرلکم اور تمہاری غلطیاں بھی معاف فرمادے گا۔ کیونکہ واللہ شکور حلیم ، اللہ تعالیٰ بہت قدردان اور بردبار ہے۔ شکور کا معنی شکر ادا کرنا بھی ہوتا ہے۔ اور شکر قبول کرنا بھی۔ یہاں پر قدردانی مراد ہے یعنی اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کا شکریہ قبول کرتا ہے ، اور اس کی قدردانی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بیحد قدردان ہے اور ایک درہم خرچ کرنے پر سات سو درہم عطا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ حلیم یعنی بردبار اور تحمل والا بھی ہے۔ وہ کسی نافرمان کی سزا دینے میں جلدی نہیں کرتابل کہ اسے مہلت دیتا ہے۔ شاید کہ وہ سدھر جائے۔ اللہ کا فرمان ہے۔ واملی لھم ، ان کیدی متین (القلم 45) میں ڈھیل دیتا رہتا ہوں وگرنہ میری تدبیر بڑی مضبوط ہے ، جب چاہوں کسی مجرم کو پکڑ لیتا ہو۔ اسی لئے کسی نے کہا ہے۔ ؎ تو مشو مغرور بر حلم خدا دیر گیرد سخت گیرد مرترا تجھے خدا تعالیٰ کی بردباری پر مغرور نہیں ہونا چاہیے۔ وہ دیر سے پکڑتا ہے ، مگر اس کی گرفت بڑی سخت ہوتی ہے۔ عالم الغیب والشہادت : آگے اللہ نے اپنی صفت علم محیط کا ذکر فرمایا ہے علم الغیب والشھادۃ وہ مخفی اور ظاہر سب چیزوں کو جاننے والا ہے۔ یہ ظاہر اور پوشیدہ مخلوق کے اعتبار سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ وہ انسان کی نیت اور ارادے سے بھی واقف ہے۔ اس کا فرمان ہے وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ فی الارض والا فی السماء (یونس 61) تیرے پروردگار سے تو ایک ذرے کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ بہرحال مخفی اور ظاہر کا ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنی فکر کرنی چاہیے اس کا ہر چھوٹا بڑا عمل بلکہ عقیدہ نیت اور ارادہ بھی اللہ کی نگاہ میں ہے۔ جو بھی نیکی کا کام خلوص نیت سے کرو گے ، اللہ تعالیٰ اس کی قدر کرے گا۔ وہ العزیز یعنی زبردست اور کمال قدرت اور کمال قوت کا مالک ہے ، جب وہ کسی کی گرفت کرتا ہے تو اس کے سامنے کوئی چیز مزاحم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ کمال قوت کا مالک ہے۔ نیز وہ الحکیم بھی ہے۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے وہ ہر کام حکیمانہ انداز میں کرتا ہے۔
Top