Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے
(16) اللہ تعالیٰ دنیاوی زندگی میں بھی ان کے کفر اور گمراہی میں اتنی ڈھیل دیتا ہے کہ جس پر انکی بصیرت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور سچائی کا امتیاز باقی نہیں رہتا، یہ اس طرح کے لوگ ہیں جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر کو اختیار کرلیا ہے اور ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، لیکن انکو اپنی اس تجارت میں کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی میں مبتلا ہوئے اور اب یہ گمراہی سے سیدھی راہ پر نہیں آئیں گے۔ شان نزول : (آیت) ”واذا لقوالذین امنوا“۔ الخ) واحدی ؒ اور ثعلبی ؒ نے بواسطہ محمد بن مروان، سدی صیغر، کلبی، ابوصالح، ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آیت کریمہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اس کے نزول کا سبب یہ ہے کہ ایک دن منافقین کی جماعت نکلی، راستہ میں ان لوگوں کو رسول اکرم ﷺ کے کچھ صحابہ کرام ؓ نظر آئے، عبداللہ بن ابی نے اپنے دوستوں سے کہا کہ دیکھو کس طرح میں تم سے (العیاذ باللہ) ان بیوقوفوں کو ہٹاتا ہوں، چناچہ عبداللہ بن ابی نے آکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا صدیق اکبر ؓ بنی تمیم کے سردار، مسلمانوں کے بزرگ، رسول اللہ ﷺ کے رفیق غار، رسول اللہ ﷺ کے لیے اپنی جان اور مال کو خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو۔ پھر اس نامراد نے حضرت عمر فاروق ؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا عدی بن کعب کے سردار فاروق اعظم ؓ اللہ تعالیٰ کے دین میں بہت جری اور بہادر، اپنی جان ومال رسول اکرم ﷺ کے لیے خرچ کرنے والے آپ کو خوش آمدید ہو، پھر اس نے حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگا رسول اللہ ﷺ کے چچا زاد بھائی اور آپ ﷺ کے داماد حضور ﷺ کے علاوہ بنی ہاشم کے سردار، مرحبا۔ اس کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم نے دیکھا میں نے کیا کیا جب تم ان لوگوں کو دیکھو تو تم بھی میری طرح ان سے پیش آؤ، یہ سن کر اس کے منافق ساتھیوں نے اس کی تعریف کی۔ یہ جماعت صحابہ کریم ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہاں آئی، اور آپ کو سارے واقعہ کی تفصیل سے آگاہ کیا اس وقت یہ آیت اتری، اس روایت کی یہ سند بہت ہی کمزور ہے کیوں کہ سدی صغیر اور اسی طرح کلبی دونوں کذاب ہیں اور ابوصالح ضعیف ہے، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top