Tafseer-e-Jalalain - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے
آیت نمبر 16 ترجمہ : یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اختیار کرلی (یعنی) گمراہی کو ہدایت سے بدل لیا، مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے، یعنی ان کو اس سودے میں نفع نہیں ہوا بلکہ خسارا ہوا ان کے دائمی آگ کی طرف پلٹنے کی وجہ سے اور یہ اپنے طریقہ کار میں ہرگز صحیح طریقہ پر نہیں ہیں اور ان کی کیفیت ان کے نفاق میں اس شخص کی کیفیت جیسی ہے، جس نے تاریکی میں آگ جلائی سو جب آگ نے اطراف و جوانب کو روشن کردیا، تو اس کو سجھائی دینے لگا اور سردی کی تکلیف دور ہوگئی اور خوف کی چیزوں سے مامون ہوگیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کرلیا (یعنی) اس کو بجھا دیا اور (ھم) ضمیر کو جمع لانا، اَلَّذِیْ ، کے معنی کی رعایت کے اعتبار سے ہے اور انہیں تاریکیوں میں اس حال میں چھوڑ دیا کہ انہیں اپنے آس پاس کا کچھ نظر نہیں آتا حال یہ کہ وہ راستہ کے بارے میں متحیر ہیں اور خوف زدہ ہیں یہی کیفیت ان لوگوں کی ہے کہ جو کلمہ ایمان کا اظہار کرکے مامون ہوگئے اور جب مرجائیں گے تو ان پر خوف اور عذاب مسلط ہوجائے گا، یہ سماع حق سے بہرے ہیں، جس کی وجہ سے اسے قبول کرنے کے ارادہ سے نہیں سنتے (کلمہ) خیر کہنے سے گونگے ہیں کہ اس کو زبان سے نہیں نکالتے، راہ ہدایت سے اندھے ہیں کہ اس کو نہیں دیکھتے سو یہ لوگ گمراہی سے باز آنے والے نہیں، یا ان کی مثال ان لوگوں جیسی ہے کہ آسمان (بادل) سے زور کی بارش ہو رہی ہو (صَیِّبٌ) کی اصل صَیْوِبٌ تھی، صَابَ یَصُوْبُ سے بمعنی یَنزِلُ ، اور اس بادل میں گھٹا ٹوپ اندھیریاں ہوں اور گرج ہو اور وہ فرشتہ ہے جو اس پر مامور ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ اس فرشتے کی آواز ہے اور بجلی اس کے اس کوڑے کی چمک ہے جس سے وہ بادلوں کو ڈانتا ہے، یہ بارش والے (بجلی) کے کڑاکے سن کر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں، یعنی کڑاکے کی آواز کی شدت کی وجہ سے تاکہ اس کو نہ سنیں، یہی کیفیت ان لوگوں کی ہے کہ جب قرآن نازل ہوتا ہے اور اس میں کفر کا ذکر ہے، جو ظلمتوں کے مشابہ ہے اور (کفر) پر وعید ہے جو رعد کے مشابہ ہے اور دلیلیں ہیں جو برق کے مشابہ ہیں، اپنے کانوں کو بند کرلیتے ہیں تاکہ اس کو نہ سنیں، کہیں (ایسا نہ ہو) کہ اپنے دین کو ترک کرکے ایمان کی طرف مائل ہوجائیں اور یہ ان کے نزدیک موت ہے، اللہ تعالیٰ ان منکرین حق کو (اپنے) علم وقدرت کے احاطہ میں لئے ہوئے ہے، سو یہ اس سے بچ کر نہیں جاسکتے، برق کی حالت یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان کی بصارت ابھی اچک لے گی جہاں ذرا کچھ روشنی چمکی تو اس کی روشنی میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو ٹھہر جاتے ہیں یہ اس تحریک کی تمثیل ہے جو قرآنی دلائل کی وجہ سے ان کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور ان کی اس پسندیدہ چیز کی تصدیق کی تمثیل ہے جس کو وہ قرآن میں سنتے ہیں اور اس کی تمثیل ہے، جس کو وہ ناپسند کرتے ہیں اس سے رک جاتے ہیں اگر اللہ چاہتا تو ان کے کانوں کو اور ان کی ظاہری بصارت کو بالکلیہ سلب کرلیتا جیسا کہ ان کی باطنی بصیرت سلب کرلی یقیناً اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے اس پر قدرت رکھتا ہے اور اسی (قدرت) میں مذکور سلب کرنا بھی داخل ہے۔ تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد قولہ : اِشْتِرِوا، اِشتِرَاءٌ سے ماضی جمع مذکر غائب، انہوں نے خریدا، انہوں نے اختیار کیا، زجاج نے واؤ کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے واؤ جمع اور واؤ اصلیہ کے درمیان فرق کرنے کے لئے، اور یحییٰ بن یعمر نے واؤ کو کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے التقاء ساکنین کے قاعدہ کے مطابق اور ابو السماک عدوی نے واؤ کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اخف الحرکات ہونے کی وجہ سے اور کسائی نے واؤ کو ہمزہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ قولہ : اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ (الآیۃ) اُولٰئِکَ ، مبتداء، الَّذِیْن اسم موصول اِشْتَرَوا اپنے مفعول الضلالۃ اور متعلق سے مل کر جملہ ہو کر صلہ، موصول صلہ سے مل کر جملہ ہو کر اولٰئک مبتداء کی خبر ہے۔ قولہ : اِسْتِبدَلُوْھَا بہٖ : اس جملہ کے اضافہ کا فائدہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔ سوال : شِریٰ : ثمن کے عوض کسی چیز کے حاصل کرنے کو کہتے ہیں، اس لئے کہ باء ثمن پر داخل ہوتی ہے جیسے کہا جاتا ہے اِشْتَریتُ القلم بالدارھم یعنی درہم دے کر قلم خریدا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہدایت دے کر گمراہی لی حالانکہ ہدایت سرے سے ان کے پاس تھی ہی نہیں لہٰذا ہدایت دے کر ضلالت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جواب : شراء سے مراد استبدال ہے جو کہ شراء کے لئے لازم ہے گویا کہ ملزوم بول کر لازم مراد لیا گیا ہے اور استبدال سے مراد اختیار کرنا اور ترجیح دینا، یعنی ہدایت اور ضلالت کے دونوں راستے ان کے سامنے موجود تھے، مگر انہوں نے اپنی مرضی واختیار سے گمراہی کو اختیار کرلیا۔ قولہ : فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ ۔ سوال : فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ : میں ربح کی نسبت تجارت کی طرف کی گئی ہے، حالانکہ نفع و نقصان اٹھانا صاحب تجارت کی صفت ہے نہ کہ تجارت کی۔ جواب : یہ اسناد، مجاز عقلی کے طور ہے جیسے : ” اَنْبَتَ الربیعُ البَقْلَ “ میں ہے یہ اسنادِ فعل الی ملابس الفاعل کے قبیل سے ہے، عرب کہا کرتے ہیں : ” رَبِحَ بَیْعُلَ وَخَسِرَتْ صَفْقَتُکَ “۔ قولہ : لِمَصِیْرِھمْ الی النار : یہ عدم ربح کی علت ہے۔ قولہ : وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ : فَیَمَا فَعَلُوا یعنی تجارت کا جو طریقہ انہوں نے اختیار کیا اس میں سراسر نقصان و خسران ہی ہے، یعنی نفع اور اصلی سرمایہ دونوں ضائع ہوگئے۔ قولہ : صفتُھُمْ فی نفاقِھِمْ ۔ مَثَلُھُمْ کی تفسیر صفتھم سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہاں مثل سے مراد مثل سائر نہیں ہے بلکہ ان کی کیفیت اور حالت مراد ہے۔ قولہ : اَوْقَدَ ، استَوْقد کی تفسیر اَوْقَدَ سے کرکے اشارہ کردیا کہ مزید بمعنی مجرد ہے اِستَوْقَدَ میں سین و تاء طلب کے لئے نہیں ہے۔ قولہ : صُمٌّ: یہ مبتداء محذوف کی خبر اور جملہ مستانفہ ہے اور بکمٌ خبر ثانی ہے اور عمیٌ خبر ثالث ہے، مذکورہ تینوں خبریں اگرچہ لفظوں میں متبائن ہیں، مگر معنی اور مدلول میں متحد ہیں اور وہ عدم قبول حق ہے، بمعنی بہرا صُمٌّ۔ اَصَمٌ کی جمع ہے، بُکُمٌ، گونگا، یہ اَبْکَمُ ، کی جمع ہے عَمْیٌ، اندھا، اعمیٰ کی جمع ہے۔ قولہ : کصیب ای کا صحاب مطر اس میں حذف مضاف کی طرف اشارہ ہے اور صَیِّب بمعنی بارش، صَیِّبٌ اصل میں صَبْوِبٌ بروزن فَیعلٌ تھا واؤ اور یاء دونوں ایک کلمہ میں جمع ہوئے واؤ کو یا کردیا اور یا کو یا میں ادغام کردیا ااَوْ تردید کے لئے ہے شک کے لئے نہیں ہے یا اَوْ بمعنی واؤ ہے۔ قولہ : فیہ ای فی السحاب ظاہرنظم سے معلوم ہوتا ہے کہ : فیہ کی ضمیر صَیبٌ کی طرف راجع ہے جیسا کہ دیگر مفسرین نے صَیِّبٌ کی طرف ضمیر راجع کی ہے معالم التنزیل میں ہے فیہ ای فی الصیبِ اور مفسر علامہ سیوطی (رح) تعالیٰ نے السحاب کی طرف راجع کی ہے جو کہ السماء کا مدلول ہے، مگر یہ ظاہر نظم آیت کے خلاف ہے فیہ میں فی بمعنی مع ہے بعض مفسرین حضرات نے سماء کی طرف فیہ کی ضمیر کو راجع کیا ہے اور سماء سے مراد بادل لیا ہے یہی وجہ ہے کہ فیہ کی ضمیر کو مذکر لایا گیا ہے حالانکہ سماء کا استعمال مؤنث کے اعتبار سے اکثر ہے۔ قولہ : ای اَنامِلھَا : اصابع کی تفسیر انامل سے کرکے اشارہ کردیا کہ یہ مجاز معنوی کے قبیل سے ہے یعنی کل بول کر جز مراد لیا ہے، نکتہ اس میں عدم سماع میں مبالغہ کرنا ہے۔ قولہ : حَذَرَ الْمَوْتِ : یہ یجعلون کا مفعول لہٗ ہے۔ قولہ : وَاللہُ مَحِیْطٌ بِالْکَافِرِیْنَ : یہ قصہ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ قولہ : مُحِیْطٌ، اصل میں مُحْوِط تھا واؤ متحرک ماقبل حرف صحیح ساکن واؤ کا کسرہ ماقبل کو دے کر واؤ کو یاء سے بدل دیا، محیطٌ ہوگیا۔ قولہ : شاءَہٗ ، شئ کی تفسیر شاءہ سے کرکے ایک سوال مقدر کا جواب دینا مقصود ہے۔ سوال : شئ اس چیز کو کہتے ہیں جو موجود ہو اللہ تعالیٰ بھی مع اپنی ذات وصفات کے موجود ہے، لہٰذا سوال یہ ہے کہ : اللہ اشیاء میں داخل ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو اللہ کالا شئ ہونا لازم آتا ہے، جو ظاہر البطلان ہے اس لئے کہ وہ موجود ہے اور اگر داخل ہے تو پھر کل شئ ھَالِکٌ کی رو سے لازم آتا ہے کہ : وہ بھی ھالک ہو۔ جواب : شئ سے مراد وہ شئ ہے جو اللہ کی مشیت اور اراہ کے تحت داخل ہو اور اللہ تعالیٰ کی ذات مشیت کے تحت داخل نہیں ہے اس لئے کہ جو شئ مشیت اور ارادہ کے تحت داخل ہوگی وہ حادث ہوگی اور اللہ تعالیٰ قدیم ہے۔ اللغۃ والبلاغۃ التشبیہ التمثیلی : فی قولہ تعالیٰ : مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا (الآیۃ) حقیقۃ التشبیہ التمثیلی (ای التشبیہ المرکب) ان یکون وجہ الشبہ فیہ صورۃً منتزعۃً من متعدد ای : اَنّ حال المنافقین فی نفاقھم واظھارھم خلاف ما یسترونہ من الکفر کحال الذی استوقد ناراً یستضیئ بھا انطَفأت فلم یعد یبصر شیئاً یقال لتشبیہ التمثیلی، التشبیہ المرکب ایضاً ، ومن امثلتہ فی الشعر قول بشار۔ ؎ کاَنّ مثار النقع فوق رُؤوسنا وَاَسْیافِنا لیلٌ تَھاوی کواکبُہٗ فقد شبَّہ ثوران النقع المتعقد الرؤوس وا ؛ سیوف المتلاحمۃ فیہ اثناء الحرب باللیل الاسود البیھم تتھاوی فیہ الکواکب وتتساقط الشھب۔ صَیِّبٌ، ھو مطر الذی یصوب ، ای ینزل، واصلہ صَیْوِبٌ، اجتمعت الیاء والواؤ، وسبقت احداھما بالسکون فقلبتِ الواؤ یاء وادغمت الیاء فی الیاء۔ تفسیر و تشریح اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوْا الضَّلَالَۃَ بِالْھُدیٰ (الآیۃ) یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی یعنی بدبختی کی انتہاء ہے کہ انہوں نے ایمان اور ہدایت جیسی بیش بہا دولت دے کر خریدی بھی تو کیسی ناکارہ نکمی اور بےحقیقت شئ یعنی کفر و ضلالت۔ یہاں خریدنے سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کرنا ہے جو سراسر گھاٹے اور نقصان و خسران کا سودا ہے لیکن یہ نقصان و خسران آخرت کا ہے ضروری نہیں ہے کہ دنیا میں بھی انہیں اس نقصان کا علم ہوجائے، بلکہ دنیا میں تو انہیں اس نقصان سے فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش تھے، اس کی بنیاد پر خود کو بہت دانا اور ہوشمند اور مسلمانوں کو عقل و فہم سے عاری سمجھتے تھے۔
Top