Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں کہ انہوں نے گمراہی خرید کرلی ہدایت کے بدلے45 سو نہ ان کی تجارت ہی سود مند ہوئی اور نہ وہ راہ یاب ہوئے46 ۔
45 ۔ ان کی بدبختی کی انتہا ہے کہ انہوں نے ہدایت و ایمان جیسی جنس بےبہا قیمت میں دے کر خریدی بھی تو کیسی نکمی اور بےحقیقت چیز، گمراہی وکفر ! (آیت) ” اشتروا “ اشتروا یا خریداری کے معنی کسی چیز کا معاوضہ میں لینا۔ ایمان کا قبول کرلینا ان منافقین کے بالکل اختیار کے اندر تھا۔ لین اس کے بجائے انہوں نے روش کفر اختیار کرلی۔ اہل عرب ہر استبدال کے موقع پر اشتراء بولتے ہیں۔ اختاروا الکفر علی الایمان (ابن عباس ؓ اے استبدلوا الکفر بالایمان (معالم) والعرب تستعمل ذلک کل من استبدل شیئا بشیء (قرطبی) ویجوز الشراء والاشتراء فی کل ما یحصل بہ شئی (راغب) (آیت) ” بالھدی “ میں ب کے معنی ہیں بعوض۔ اے بدلا منہ (ابوسعود) عرب کے باشندوں کا تجارتی کاروبار خوب پھیلا ہوا تھا، اور تجارت کی اصطلاحیں ان کی زبان وادب کا ایک جزو بن گئی تھیں، جیسا کہ آج کل انگریزوں کا کاروبار خوب پھیلا ہوا ہے۔ اور کاروباری اصطلاحیں انگریزی زبان وادب کا جزو بن چکی ہیں۔ 46 ۔ (اور ہوتے بھی کیسے، جب کہ اپنی قوت ارادہ و فیصلہ سے صحیح کام نہ لے کر خود گمرا ہی خرید رہے تھے) تجارت سے مقصود ہوتا ہے کہ اصل سرمایہ محفوظ رہے اور نفع اس پر بڑھتا رہے۔ یہاں منافق کافروں نے نفع کا کیا ذکر عقل سیلم کے اصل سرمایہ ہی کو الٹا برباد کرڈالا (کبیر) ربح بھی تجارتی اصطلاح ہے، اردو کے لفظ منافع کے معنی ہیں۔
Top