Al-Qurtubi - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی، نہ تو ان کی تجارت ہی نے کچھ نفع دیا اور نہ وہ ہدایت یاب ہی ہوئے
آیت نمبر 16 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اولئک الذین اشتروا الضللۃ بالھدی سیبویہ نے کہا : اشتروا میں واؤ کو ضمہ دیا گیا ہے تاکہ واؤ جمع اور واوصیلہ میں فرق ہوجائے جیسے وان لو استقاموا علی الطریقۃ (الجن : 16) ۔ ( اور اگر وہ ثابت قدم رہیں راہ حق پر) ۔ ابن کیسان نے کہا : واؤ میں ضمہ دوسری حرکات کی نسبت خفیف ہے کیونکہ ضمہ واو کی جنس سے ہے۔ الزجاج نے کہا : ضمہ کی حرکت دی گئی ہے جیسے نحن میں کہا گیا ہے۔ ابن ابی اسحاق، یحییٰ بن یعمر نے التقاء ساکنین کی اصل پر واو کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے (1) ۔ ابو زید انصاری نے قعنب ابی سمال عدوی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے واو کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ فتحہ خفیف ہے اگرچہ اس کا ما قبل مفتوح ہے۔ کسائی نے واؤ کے ہمزہ اور اس کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے جیسے ادؤر، اشتروا، شراء سے مشتق ہے اور الشراء یہاں مستعار ہے۔ معنی یہ ہے کہ انہوں نے ایمان پر کفر کو پسند کیا جیسا کہ ارشاد فرمایا : فاستحبوا العمی علی الھدی (فصلت :17) ۔ یہاں شراء سے تعبیر فرمایا کیونکہ شراء اس چیز میں ہوتا ہے جس کو مشتری پسند کرتا ہے لیکن اگر شراء کا معنی معاوضۃ ہو تو پھر یہ معنی نہیں ہوگا کیونکہ منافقین مومن تھے ہی نہیں کہ وہ ایمان بیچتے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : انہوں نے گمراہی کو لیا اور ہدایت کو چھوڑ دیا۔ اس کا معنی ہے : انہوں نے ایمان کو بدلا اور کفر کو ایمان پر پسند کیا۔ وسعت کی بنا پر لفظ شراء کے ساتھ ذکر فرمایا کیونکہ شرا اور تجارت، تبدیلی چاہنے کی طرف لوٹتے ہیں۔ عرب اس شخص کے لئے شرا کو استعمال کرتے ہیں جو کسی چیز کو دوسری چیز سے بدلے۔ ابو ذؤیب نے کہا : ان تذعمینی کنت اجھل فیکم فانی شریت الحلم بعدک بالجھل (اگر تو مجھے گمان کرتی ہے کہ میں تم سے ناواقف ہوں تو میں نے تیرے بعد جہالت کے بدلے حلم کو اختیار کیا۔ ) الضلالہ کا اصل معنی حیرت ہے، نسیان کو بھی ضلالت کہتے ہیں کیونکہ اس میں بھی کچھ حیرت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فعلتھا اذا وانا من الضالین۔ (الشعراء) اس آیت میں ضالین بمعنی ناسین (بھولنے والے) ہے۔ ہلاکت کو بھی ضلالت کہتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقالوا ءاذا ضللنا فی الارض (السجدہ :10) (اور کہنے لگے کیا جب (مرنے کے بعد) ہم گم ہوجائیں گے زمین میں ) ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فماربحت تجارتھم اللہ تعالیٰ نے عربوں کی عادت کے مطابق ربح کی نسبت تجارت کی طرف کی۔ (مثلاً ) عرب کہتے ہیں : ربح بیعک وخسرت مفقتک لیل ونھار صائم۔ (1) معنی یہ ہے کہ تو نے اپنی بیع میں نفع اٹھایا اور تو نے اپنی بیع میں خسارہ اٹھایا، تو نے رات کو قیام کیا اور دن کو روزہ رکھا یعنی انہوں نے تجارت میں نفع نہ اٹھایا۔ شاعر نے کہا : نھارک ھائم و لیلک نائم کذلک فی الدنیا تعیش البھائم تو دن بھر گھومتا رہتا ہے اور رات بھر سویا رہتا ہے، دنیا میں حیوان اسی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ابن کیسان نے کہا : تجارۃ وتجائز، ضلالہ وضلائل جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما کانوا مھتدین (وہ گمراہی کو خریدنے میں ہدایت پانے والے نہ تھے ) ۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کی بات ہے (2) ۔ الاھتداء گمراہی کی ضد ہے۔
Top