Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ : آپ سے پوچھتے ہیں مَاذَآ : کیا اُحِلَّ : حلال کیا گیا لَهُمْ : ان کے لیے قُلْ : کہ دیں اُحِلَّ : حلال کی گئیں لَكُمُ : تمہارے لیے الطَّيِّبٰتُ : پاک چیزیں وَمَا : اور جو عَلَّمْتُمْ : تم سدھاؤ مِّنَ : سے الْجَوَارِحِ : شکاری جانور مُكَلِّبِيْنَ : شکار پر دوڑائے ہوئے تُعَلِّمُوْنَهُنَّ : تم انہیں سکھاتے ہو مِمَّا : اس سے جو عَلَّمَكُمُ : تمہیں سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّآ : اس سے جو اَمْسَكْنَ : وہ پکڑ رکھیں عَلَيْكُمْ : تمہارے لیے وَاذْكُرُوا : اور یاد کرو (لو) اسْمَ : نام اللّٰهِ : اللہ عَلَيْهِ : اس پر وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ سَرِيْعُ : جلد لینے والا الْحِسَابِ : حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
(4) اے محمد ﷺ زید بن مہلل طائی اور عدی بن حاتم طائی یہ دونوں شکاری تھے، شکار کے بارے میں آپ سے دریافت کرتے ہیں، آپ فرما دیجیے کہ کل حلال جانور ذبح شدہ اور جن شکاری جانوروں کی تم اس طرح سکھلائی کرو جیسا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے کہ جب کتا شکار کو پکڑے تو اس کو نہ کھائے۔ تو ایسے سکھلائے ہوئے کتے جو تمہارے لیے شکار پکڑ لائیں تو ان کو کھالو اور شکار کے ذبح کرنے یا کتے کے چھوڑنے پر اللہ کا نام بھی لیا کرو اور مردار کے کھانے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیوں کہ وہ سخت عذاب دینے والے ہیں، یا یہ کہ جس وقت وہ حساب لیتے ہیں تو پھر بہت جلدی کرلیتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”یسئلونک ماذا احل لہم“۔ (الخ) طبرانی ؒ ، حاکم ؒ اور بیہقی ؒ نے ابورافع سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین ؑ رسول اکرم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ سے آنے کی اجازت طلب کی، آپ ﷺ نے اجازت دے دی مگر انہوں نے آنے میں کچھ تاخیر کی، اس کے بعد جبرائیل امین ؑ نے آپ کی چادر مبارک پکڑی، آپ ﷺ باہر تشریف لائے، جبریل ؑ دروازے پر کھڑے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا ہم نے تو تمہیں اجازت دے دی تھی، انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے، مگر ہم ایسے مکان میں داخل نہیں ہوتے، جس میں تصویر یا کتا ہو، آپ نے نظر دوڑائی تو حجرہ کے کونے میں کتے کا پلا تھا، آپ نے ابورافع کو حکم دیا کہ مدینہ منورہ میں کوئی کتا نہ چھوڑو، سب کو مار ڈالو۔ تو کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس امت میں سے جس کے مارڈالنے کا آپ نے حکم دیا ہے کون سے کتے رکھنا ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر آیت نازل ہوئی کہ لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کون سے جانور ان کے لیے حلال ہیں۔ اور ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؒ سے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو رافع کو کتوں کے مار ڈالنے کے لیے بھیجا، وہ مارتے مارتے مدینہ کے نواح میں پہنچے تو آپ کے پاس عاصم بن عدی اور سعد بن حشمہ اور عویمر بن ساعدہ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ان جانوروں میں سے کون سے ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ، نیز محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے کتوں کے مار ڈالنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ اس امت میں سے کون سی قسم کے جانور ہمارے لیے حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ نیز شعبی کے طریق سے عدی بن حاتم سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص رسول اکرم ﷺ سے شکاری کتوں کا حکم دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا، ؤُ نے اس کو کچھ جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم ؒ نے سعید بن جیہ سے روایت کیا ہے کہ عدی ابن حاتم طائی ؒ اور زید بن مہلل طائی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یارسول اللہ ﷺ ہم کتوں اور باز کے ذریعے سے شکار کرتے ہیں اور آل ذریح کے کتے، نیل گائے، جنگلی گدھے اور ہر نیوں کا شکار کرلیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام کردیا ہے، اب ہمارے لیے ان میں سے کون سی چیزیں حلال ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top