Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 4
یَسْئَلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ١ؕ قُلْ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّیِّبٰتُ١ۙ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللّٰهُ١٘ فَكُلُوْا مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَیْكُمْ وَ اذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
يَسْئَلُوْنَكَ
: آپ سے پوچھتے ہیں
مَاذَآ
: کیا
اُحِلَّ
: حلال کیا گیا
لَهُمْ
: ان کے لیے
قُلْ
: کہ دیں
اُحِلَّ
: حلال کی گئیں
لَكُمُ
: تمہارے لیے
الطَّيِّبٰتُ
: پاک چیزیں
وَمَا
: اور جو
عَلَّمْتُمْ
: تم سدھاؤ
مِّنَ
: سے
الْجَوَارِحِ
: شکاری جانور
مُكَلِّبِيْنَ
: شکار پر دوڑائے ہوئے
تُعَلِّمُوْنَهُنَّ
: تم انہیں سکھاتے ہو
مِمَّا
: اس سے جو
عَلَّمَكُمُ
: تمہیں سکھایا
اللّٰهُ
: اللہ
فَكُلُوْا
: پس تم کھاؤ
مِمَّآ
: اس سے جو
اَمْسَكْنَ
: وہ پکڑ رکھیں
عَلَيْكُمْ
: تمہارے لیے
وَاذْكُرُوا
: اور یاد کرو (لو)
اسْمَ
: نام
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
سَرِيْعُ
: جلد لینے والا
الْحِسَابِ
: حساب
تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔
آیت نمبر :
4
۔ اس آیت میں اٹھارہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یسئلونک “۔ یہ آیت حضرت عدی بن حاتم اور حضرت زید بن مہلہل کے سبب نازل ہوئی اور یہ زید الخیل ہے جس کا نام رسول اللہ ﷺ نے زید الخیر رکھا تھا ان دونوں صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم کتوں اور بازوں کے ساتھ شکار کرتے ہیں، کتے گائیوں، جنگلی گدھوں اور ہر نوں کو پکڑتے ہیں پھر کچھ تو ذبح کرلیے جاتے ہیں اور بعض کو کتے مار ڈالتے ہیں ہم ان کو ذبح نہیں کرسکتے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے مردار کو حرام کیا ہے پس ہمارے لیے کیا حلال ہوگا ؟ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (
1
) (الجامع لا سباب النزول جلد
1
، صفحہ
124
۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ماذا احل لھم قل احل لکم الطیبت “۔ ما محل رفع میں مبتدا ہے اور اس کی خبر (آیت) ” احل لکم “ ہے اور ذا زائدہ ہے اگر تو چاہے تو ذا کو بمعنی الذی بنا دے اور پھر (آیت) ” قل احل لکم الطیبت “۔ ہوگی (آیت) ” الطیبت “۔ سے مراد حلال ہے ہر حرام چیز طیب نہیں ہے، بعض علماء نے فرمایا : (آیت) ” الطیبت “۔ سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا کھانا، پینا اچھا لگے اور دنیا میں اور آخرت میں اس کے استعمال میں ضرر نہ ہو۔ بعض علماء نے فرمایا (آیت) ” الطیبت “۔ سے مراد ذبائح ہیں، کیونکہ وہ ذبح کرنے کے ساتھ پاک ہوجاتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (
3
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وما علمتم “۔ یعنی ان چیزوں کا شکار جن کو تم نے سکھایا، اس کلام میں اضمار ضروری ہے اگر اضمار نہ ہو تو معنی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حلت جس کے متعلق پوچھا گیا ہے وہ معلم درندوں کو شامل ہے اور یہ کسی کا بھی مذہب نہیں ہے، کیونکہ وہ جو کتے کے گوشت کو حلال کرتا ہے تو وہ معلم کی اباحت کی تخصیص نہیں کرتا، مزید کتے کے کھانے کے بارے میں علماء کا جو اختلاف ہے وہ انشاء اللہ سورة الانعام میں آئے گا۔ بعض علماء جنہوں نے قرآن کے احکام میں کتب تصنیف کی ہیں انہوں نے کہا ہے کہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اباحت ان چیزوں کو شامل ہے جن کو ہم نے سکھایا شکاری جانوروں میں سے اس میں کتا اور چیرنے پھاڑنے والے پرندوں میں سے کھانا ہے، حضرت عدی (رح) کے پانچ کتے تھے جن کے اس نے نام رکھے ہوئے تھے ان کے کتوں کے نام یہ تھے سلبب، غلاب، المختلس، المتناعس، سہیلی نے کہا : پانچویں میں مجھے شک ہے فرمایا : اخطب تھا یا فرمایا وثاب تھا۔ مسئلہ نمبر : (
4
) امت کا اجماع ہے کہ کتا جب کالا ہو اور مسلمان نے اسے سکھایا ہو اور جب اسے شکار پر ابھارا جائے تو وہ بھاگے اور جب اسے بلایا جائے تو وہ آجائے، شکار کو پکڑنے کے بعد اسے جھڑکا جائے تو وہ شکار چھوڑ دے اور اس شکار میں سے کچھ نہ کھائے جس کو شکار کرے اور اپنے ناخنوں اور دانتوں سے شکار میں نشان ڈالا ہے اور اس کے ساتھ مسلمان شکار کرے اور اسے چھوڑتے وقت مسلمان اللہ کا نام ذکر کرے تو اس کا شکار صحیح ہے اور بلا اختلاف اسے کھایا جائے گا، اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو اختلاف داخل ہوجائے گا اگر کتے کے علاوہ مثلا چیتا اور اس جیسا جانور اور باز، شکرا وغیرہ پرندے سے شکار کیا گیا ہو تو جمہور امت کا خیال یہ ہے کہ تعلیم کے بعد جو شکار کرے وہ جارح کا سبب ہے۔ کہا جاتا ہے : جرح فلان واجترح جب وہ کوئی چیز حاصل کرے، اسی سے الجارحۃ ہے، کیونکہ اس کے ذریعے کمایا جاتا ہے، اسی سے اجتراح السیات ہے گناہوں کا ارتکاب کرنا، اعشی نے کہا : ذا جبار منضجا میسمہ یذکر الجارح ماکان اجترح : اور قرآن حکیم میں ہے : (آیت) ” ویعلم ما جرحتم بالنھار، (انعام :
60
) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ام حسب الذین اجترحوالسیات۔ (الجاثیہ :
21
) مسئلہ نمبر : (
5
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” مکلبین “۔ اس سے مراد کتوں کے مالک ہیں وہ مودب کی طرح ہوتے ہیں جو تادیب کرتے ہیں، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے کہ وہ شکار پر اس طرح جھپٹتے ہیں جیسے کتے جھپٹتے ہیں، رمانی نے کہا : اس میں ہر قول کا احتمال ہے (آیت) ” مکلبین “ میں اس بات پر دلیل نہیں کہ صرف کتے کا شکار مباح کیا گیا ہے، کیونکہ یہ ” مومنین “ کے قول کے طرح ہے اگرچہ جنہوں نے کتے پر اباحت کو خاص کیا ہے انہوں نے اس آیت سے دلیل پکڑی ہے، حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے جس کو ابن المنذر نے حکایت کیا ہے فرمایا : جو باز اور دوسرے پرندوں سے شکار کیا جاتا ہے، جس کو تو ذبح کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے ذبح کردے وہ تیرے لیے حلال ہے ورنہ تو اسے نہ کھا (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
156
دارالکتب العلمیہ) ابن المنذر نے کہا : ابو جعفر سے باز کے متعلق پوچھا گیا کہ اس کا شکار حلال ہے ؟ تو انہوں نے کہا : نہیں مگر یہ کہ تم اسے ذبح کرلو (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
156
دارالکتب العلمیہ) ضحاک ؓ اور سدی ؓ نے کہا (آیت) ” وما علمتم من الجوارح مکلبین “ سے مراد کتے ہیں اگر کتا کالا سیاہ ہو تو حسن، قتادہ، اور نخعی رحمۃ اللہ علیہم نے اس کا شکار مکروہ قرار دیا ہے۔ امام احمد نے کہا : میں کوئی ایسا شخص نہیں جانتا جس نے رخصت دی ہو جب کہ کتا کالا سیا ہو، اسحاق بن راہویہ (رح) نے بھی یہی کہا ہے رہے مدینہ طیبہ کے عوام اور کوفہ کے عوام یہ سکھائے گئے کتے کے شکار کو جائز قرار دیتے ہیں (
3
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
156
دارالکتب العلمیہ) اور جنہوں نے کالے کتے کے شکار سے منع فرمایا اس کی وجہ یہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : الکلب الاسود شیطان (
4
) (صحیح مسلم، کتاب الصلوۃ، جلد
1
، صفحہ
197
) کالا کتاب شیطان ہے، اس کو مسلم نے نقل کیا ہے، جمہور علماء آیت کے عموم سے استدلال کیا ہے اور باز کے شکار کے جواز پر سبب نزول سے استدلال کیا ہے اور جو ترمذی نے حضرت عدی بن حاتم ؓ سے حدیث روایت کی ہے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ سے باز کے شکار کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” جو وہ تیرے لیے روک لے وہ کھا “ (
5
) (جامع ترمذی کتاب الصید، جلد
1
، صفحہ
177
، ایضا، حدیث نمبر
1387
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس کی سند میں مجالد ہے جو غیر معروف ہے، سوائے اس ایک سند کے معروف نہیں اور یہ راوی ضعیف ہے، مطلب یہ ہے کہ جو کتے کا حکم ہے وہ چیتے کا حکم ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے مگر ایسی صورت میں جس کا تاثیر میں کوئی دخل نہیں یہ اصل معنی میں قیاس ہے تلوار کو چھری پر قیاس کرنے کی طرح ہے اور لونڈی کو غلام پر قیاس کرنے کی طرح ہے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) جب یہ ثابت ہوگیا تو جان لو کہ شکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتے کو چھوڑے وقت ذبح اور اباحت کی نیت کرے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اس پر اللہ کا نام لے تو تو کھا “ (
6
) (جامع الترمذی کتاب الصید، جلد
1
، صفحہ
177
، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر
5054
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ ارشاد نیت اور بسم اللہ کا تقاضا کرتا ہے، اگر کتا چھوڑتے وقت لہو ولعب کا قصد کیا ہوگا تو امام مالک (رح) کے نزدیک مکروہ ہوگا، ابن عبدالحکم نے اس کو جائز قرار دیا ہے، یہ لیث کے قول کا ظاہر ہے، لیث نے کہا : میں نے کوئی شکار ایسا نہیں دیکھا جو باطل کے زیادہ مشابہ ہے یعنی شکار، اگر کوئی تذکیہ (ذبح) کی نیت کے بغیر کتا چھوڑے تو وہ شکار حرام ہوگا کیونہ وہ فساد اور بغیر منفعت کے حیوان کے اتلاف کے باب سے ہوگا، رسول اللہ ﷺ نے حیوان کے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے مگر کھانے کے لیے، جمہور علماء کا نظریہ یہ ہے کہ کتاب یا باز چھوڑتے وقت زبان سے بسم اللہ کہنا ضروری ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اللہ نام ذکر کرے “۔ اللہ تعالیٰ کا نام اگر کسی اعتبار سے ذکر نہ کیا تو شکار نہیں کھایا جائے گا یہ اہل ظاہر اور اہل حدیث کی جماعت کا مذہب ہے، ہمارے اصحاب اور دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ مسلمان جس چیز کا شکار کرے اور اسے ذبح کرے تو اگرچہ بسم اللہ عمدا بھی ترک کردے تو اس کا کھانا جائز ہے، ان علماء نے بسم اللہ کے امر کو ندب پر محمول کیا ہے، امام مالک کا مشہور مذہب عمدا یا سہوا بسم اللہ ترک کرنے کے درمیان فرق ہے فرمایا : عمدا بسم اللہ ترک کرنے کی وجہ سے نہیں کھایا جائے گا اور سہوا ترک کرنے کی وجہ سے کھایا جائے گا، یہ فقہاء الامصار کا قول ہے اور امام شافعی (رح) کا ایک قول ہے یہ مسئلہ سورة الانعام میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ پھر شکاری کے ہاتھ سے کتا چھوڑتے وقت اس کا بھاگنا ضروری ہے جب کہ اس کی زمان اس کے ہاتھ میں ہو، وہ اس کو چھوڑ دے اور اسے ابھارے اور وہ بھاگے یا کتا شکار کو دیکھنے کے وقت ساکن کھڑا ہو اور اس کے لیے حرکت نہ ہو مگر شکاری کے ابھارنے کے ساتھ یہ اسی صورت کے قائم مقام ہے جب اس کی زمام اس کے ہاتھ میں ہو پھر اس نے اسے ابھارتے ہوئے چھوڑا ہو، یہ ایک قول کے مطابق ہے اگر کتا بغیر چھوڑے اور بغیر ابھارے خود ہی شکار کے پیچھے لگ جائے تو اس کا شکار جائز نہیں اور نہ اس کا کھانا حلال ہے، یہ جمہور امام مالک، امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے کا نظریہ ہے کیونکہ اس نے بغیر چھوڑے اپنے لیے شکار کیا ہے اور اپنے لیے پکڑا ہے، اس میں شکاری کا کوئی دخل نہیں ہے، اس کا چھوڑنا شکار کی طرف منسوب نہیں ہے کیونکہ اس پر نبی مکرم ﷺ کا ارشاد : اذا ارسلت کلبک المعلم (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح جلد
2
صفحہ
145
) جب تو اپنے سکھائے ہوئے کتے کو چھوڑے “ ، صادق نہیں آتا، عطا بن ابی رباح، اور اوزاع نے کہا : اس کا شکار کھایا جائے گا جب اسے شکار کے لیے نکالا ہو۔ مسئلہ نمبر : (
7
) جمہور علماء نے (آیت) ” علمتم “ عین اور لام کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت محمد بن حنیفہ (رح) نے عین کے ضمہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی جوارح کے عمل اور ان کے ساتھ شکار کرنے سے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
157
دارالکتب العلمیہ) جو تم نے کھایا الجوارح سے مراد، الکواسب “۔ (کمانے والے) ہے، انسانی اعضاء کو بھی جوارح کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کو جوارح اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ ان کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جاتا ہے اور تصرف کیا جاتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : ان کو جوارح اس لیے کہتے ہیں، کیونکہ یہ زخمی کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں، یہ ضعیف ہے اہل لغت کا قول اس کے خلاف ہے۔ ابن المنذر نے ایک قول یہ حکایت کیا ہے مکلبین “ ، جمہور کی قرات کاف کے فتحہ اور لام کے شد کے ساتھ ہے۔ المکلب کتوں کو سکھانے والا اور انہیں شکار پر برانگیختہ کرنے والا جو کتے کے علاوہ کو سکھاتا ہے، اسے مکلب کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ حیوان کو روکتا ہے جیسے کتا۔ بعض علماء نے حکایت کیا ہے کہ شکار کو مکلب کہا جاتا ہے، اس بنا پر مکلبین کا معنی شکاری لوگ ہوں گے، بعض علماء نے فرمایا : الکلب کتوں کے مالک کو کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے : کلب فھو مکلب وکلاب حسن نے مکلبین کاف کے سکون اور لام کی تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، اسکا معنی ہے اصحاب کلاب کہا جاتا ہے ،: امشی الرجل، جب کسی کے جانور زیادہ ہوں : اکلب، جس کے کتے زیادہ ہوں، اصمعی نے کہا : کل فتی وان امشی فاثری ستخلجہ عن الدنیا ممنون : مسئلہ نمبر : (
8
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” تعلمونھن مما علمکم اللہ “۔ مونث ضمیر لفظ جوارح کی رعایت کرتے ہوئے ذکر کی گئی ہے، کیونکہ جوارح، جارحۃ کی جمع ہے۔ اور علماء کے درمیان تعلیم میں دو شرطوں میں کوئی اختلاف نہیں وہ دونوں شرطیں یہ ہیں کہ جب اسے شکار پر حملہ کا حکم دیا جائے تو وہ بھاگ پڑے اور جب اسے منع کیا جائے تو وہ رک جائے، کتوں میں ان دو شرطوں میں کوئی اختلاف نہیں اور اسی طرح کتے جیسے دوسرے کا حکم ہے، پرندے جو شکار کرتے ہیں ان میں اختلاف ہے، مشہور یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک، ان کی تعلیم میں بھی یہ دونوں شرطیں ہیں، ابن حبیب نے ذکر کیا ہے کہ جھڑکنے سے رک جائے، پرندوں میں یہ شرط نہیں، کیونکہ پرندہ غالبا ایسا نہیں کرتا، اس میں یہ کافی ہے کہ تو اسے حکم دے تو وہ اطاعت کرے، ربیعہ نے کہا : جب اسے بلایا جائے تو وہ آجائے تو وہ معلم ضاری ہے، اکثرحیوان طبعا جب انہیں ابھارا جائے تو وہ بھاگ پڑتے ہیں، امام شافعی اور جمہور علماء نے تعلیم میں یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اپنے مالک کے لیے چیز کو پکڑے۔ امام مالک (رح) کے مشہور مذہب میں یہ شرط نہیں۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : المعلم وہ ہے جب اس کا مالک اسے ابھارے تو وہ بھاگ پڑھے اور جب اسے واپس بلائے تو وہ واپس آجائے اور شکار کو مالک کے لیے پکر لے لیے پکڑلے اس میں سے خود کچھ نہ کھائے جب وہ کئی مرتبہ اس طرح کرے اہل عرف نے کہا : ہو معلم شمار ہوگا، امام شافعی (رح) اور کو فیوں سے مروی ہے جب وہ اسے شکار پر ابھارے تو وہ بھاگ پڑے، جب شکار کو پکڑے تو رک جائے اور جب وہ دو مرتبہ اسی طرح کرے تو تیسری مرتبہ اس کا شکار کھایا جائے گا، بعض علماء نے فرمایا : تین مرتبہ ایسا کرے اور چوتھی مرتبہ اس کا شکار کھایا جائے گا، بعض نے فرمایا : ایک مرتبہ ایسا کرے تو وہ معلم ہے دوسری مرتبہ اس کا شکار کھایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
9
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فکلوا مما امسکن علیکم “ وہ تمہارے لیے شکار کو پکڑیں، اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابوہریرہ ؓ نخعی، قتادہ، ؓ ابن جبیر، عطا بن ابی رباح، عکرمہ، امام شافعی (رح)، امام احمد، اسحاق، ابو ثور، نعمان (رح) اور اس کے صحاب نے کہا : وہ نہ کھائے، اگر شکاری جانور خود کھالے تو بقیہ جانور نہیں کھایا جائے گا۔ کیونکہ اس نے وہ اپنے لیے پکڑا ہے اپنے مالک کے لیے نہیں پکڑا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے اصحاب کے نزدیک چیتا کتے کی طرح ہے اور پرندوں میں یہ شرط نہیں لگائی بلکہ وہ جب شکار سے کھا بھی لے تو پھر بھی جانور کھایا جائے گا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت سلمان فارسی اور حضرت ابوہریرہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا : اس کا معنی ہے اگر وہ کھالے، جب شکاری جانور شکار سے کھالے خواہ کتا ہو یا چیتا ہو یا پرندہ ہو اس کا مابقی شکار کھایا جائے گا اگرچہ صرف ایک ٹکڑا بھی بچا ہو، یہ امام مالک اور ان کے ساتھیوں کا قول ہے اور امام شافعی کا دوسرا قول یہی ہے اور یہ قیاس ہے، اس باب میں دو احادیث ہیں، جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے اس مفہوم پر دلالت کرتی ہیں، ایک حدیث حضرت عدی بن حاتم کی جو کلب معلم میں ہے ” جب وہ کھالے تو تو نہ کھا، کیونکہ یہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہے۔ (
1
) اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے، دوسری حدیث ابو ثعلبہ خشنی کی ہے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے کتے کے شکار کے بارے میں فرمایا : ” جب تو اپنے کتے کو چھوڑے اور اس پر اللہ کا نام لے تو کھا اگرچہ اس سے کتے نے کھایا ہو اور تیرا ہاتھ تجھ پر لوٹا دے اسے کھا “ (
1
) (سنن ابی داؤد کتاب الضحایا، جلد
2
، صفحہ
38
) اس حدیث کو ابو داؤد نے روایت کیا ہے اور حضرت عدی سے جو روایت کیا گیا وہ صحیح نہیں، ان سے صحیح مسلم کی حدیث ہے، جب دونوں روایتیں متعارض ہیں تو ہمارے اصحاب نے ان کو جمع کرنے کا ارادہ کیا انہوں نے نہی والی حدیث کو تنزیہ اور تقوی پر محمول کیا اور اباحت کی حدیث کو جواز پر محمول کیا، انہوں نے فرمایا : حضرت عدی ؓ چونکہ خوشحال تھا اس لیے نبی مکرم ﷺ نے انہیں رکنے کا اور ورع فتوی دیا اور حضرت ابو ثعلبہ ؓ محتاج تھے تو انہیں جواز کا فتوی دیا، واللہ اعلم۔ اس تاویل کی صحت پر دلیل آپ ﷺ کا ارشاد ہے جو حضرت عدی کی حدیث میں ہے۔ ” مجھے خوف ہے کہ اس نے اپنے لیے پکڑا ہو “ یہ ہمارے علماء کی تاویل ہے، ابوعمرنے الاستذکار کتاب میں فرمایا : حضرت عدی کی حدیث، حضرت ابو ثعلبہ ؓ کی حدیث کے معارض ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ حضرت ابو ثعلبہ ؓ کی حدیث اس کی ناسخ ہے پس ان کا یہ کہنا : اگرچہ وہ کھا بھی لے یا رسول اللہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگرچہ کھا بھی لے “۔ میں کہتا ہوں : اس میں نظر ہے، کیونکہ تاریخ مجہول ہے اور جب تاریخ معلوم نہ وہ تو دونوں احادیث کو جمع کرنا اولی ہے۔ واللہ اعلم اور اصحاب شافعی نے کہا : اگر کتا انتہائی بھوک کی وجہ سے کھا گیا تو جانور کھایا جائے گا ورنہ نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ یہ سوء تعلیم سے ہے، ایک قوم سے مروی ہے، جس شکار سے کتا اور چیتا کھالے اس کے درمیان اور باز کے کھانے کے درمیان فرق کیا ہے، کتے اور چیتے کے کھانے کے بعد انہوں نے منع کیا ہے اور باز کے کھانے کے بعد اس کی اجازت دی ہے، یہ نخعی ثوری، اصحاب الرائے اور حماد بن ابی سلیمان کا قول ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے حکایت ہے انہوں نے کہا : کتے اور چیتے کو مارنا اور جھڑکنا ممکن ہے اور پرندے میں یہ ممکن نہیں اور پرندے کی تعلیم کی حد یہ ہے کہ اسے بلایا جائے تو وہ آجائے اور اسے شکار پر ابھارا جائے تو وہ اڑ جائین، اس میں اس سے زیادہ ممکن نہیں، مارنا اسے اذیت دے گا۔ مسئلہ نمبر : (
10
) جمہور علماء نے نظریہ یہ ہے کہ درندہ یا کتا جب شکار کا خون پی لے تو شکار کھایا جائے، عطا نے کہا : خون کا پینا، کھانا نہیں ہے، شعبی اور سفیان ثوری (رح) نے اس کا کھانا مکروہ قرار دیا ہے، علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ شکار کی اباحت کا سبب کتے یا درندے کا شکار کو کا ٹنا ہے اور اس کا ٹنے کا یقینی ہونا ضروری ہے اس میں کسی قسم کا شک نہ ہو اور شک کی صورت میں اس کا کھانا جائز نہیں۔ مسئلہ نمبر : (
11
) اگر شکاری اپنے کتے کے ساتھ دوسرا کتا پائے تو وہ اس پر محمول ہوگا کہ وہ کسی دوسرے شکاری کی طرف سے نہیں چھوڑا گیا، یہ شکار کی طلب میں خود طبعی طور پر بھاگا ہے۔ اس مسئلہ میں بھی اختلاف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اگر دوسرے کتے اس کے ساتھ مل جائیں تو پھر نہ کھا “ (
2
) (صحیح مسلم کتاب الصید الذبائح، جلد
2
، صفحہ
145
) ایک روایت میں ہے ” تو نے اپنے کتے پر بسم اللہ پڑھی اور دوسرے کتے پر نہیں پڑھی “ (
3
) (صحیح مسلم کتاب الصید الذبائح، جلد
2
، صفحہ
148
) اگر دوسرے شکاری نے کتا چھوڑا ہو پھر دونوں کتے اس شکار میں شریک ہوگئے ہوں تو وہ شکار دونوں شکاریوں کے لیے ہوگا دونوں اس میں شریک ہوں گے، اگر ایک کتے نے اپنے شکار کو چیر پھاڑ دیا ہو پھر دوسرا کتا آجائے تو شکار اس کا ہوگا جس کے کتے نے اسے پکڑ کر چیر دیا تھا، اسی طرح وہ شکار نہیں کھائے جائے گا جس کو تیر مارا گیا پھر وہ پہاڑ سے نیچے گرایا پانی میں غرق ہوا تو اسے بھی نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ آپ ﷺ نے حضرت عدی ؓ کو کہا تھا ” اگر تو اپنا تیر پھینکے اور اللہ کا نام ذکر کرے اگر وہ تجھ سے پورا دن غائب ہوجائے اور تو اس میں اور کچھ نہ پائے مگر اپنے تیر کا اثر تو کھا اگر تو اسے پانی میں غرق پائے تو اسے نہ کھا تجھے معلوم نہیں پانی نے اسے قتل کیا یا تیرے تیر نے “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الصید والذبائح، جلد
2
، صفحہ
146
) یہ نص ہے۔ مسئلہ نمبر : (
12
) اگر شکار کتوں کے منہ میں مر جائے جب کہ انہوں نے اسے زخمی نہ کیا ہو تو اسے نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ ہو دبانے سے مراد ہے یہ کند چھری سے ذبح کرنے کے مشابہ ہے جس میں جانور ذبح میں مر جاتا ہے ہے رگوں کے کاٹنے سے پہلے، اگر جوارح سے اس کو لے لینا اور سے ذبح کرنا ممکن تھا پھر اس نے ذبح نہ کیا حتی کہ شکار مرگیا تو وہ شکار نہیں کھایا جائے گا، وہ ذبح میں کوتاہی کرنے والا تھا، وہ ذبح پر قدرت رکھتا تھا اور جو قادر ہو اس کی ذبح، غیر مقدور کی ذبح کے مخالف ہے اگر اس نے شکار کو پکڑا اور چھری نکالنے سے پہلے فوت ہوگیا یا اس نے اسے پکڑا جب کہ چھری اس کے ہاتھ میں تھی پھر بھی اس کا کھانا جائز ہے اگر اس کے ساتھ چھری نہ ہو اور وہ اس کی تلاش میں مشغول ہوا تو اسے نہیں کھایا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : شکار کرنے والے جانوروں نے شکار کو پکڑا اور اسے زخمی نہیں کیا تو اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ اسے نہیں کھایا جائے گا حتی کہ اسے زخمی کردیا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” من الجوارح “ یہ ابن القاسم کا قول ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حلال ہے۔ یہ اشہب کا قول ہے۔ اشہب نے کہا : اگر کتے کے ٹکرانے سے مرگیا تو بھی کھایا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (
13
) حضور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” اگر پورا دن شکار غائب رہے، پھر تو اس میں کوئی اثر نہ پائے سوائے اپنے تیر کے اثر کے تو تو کھا “۔ اسی طرح ابو ثعلبہ کی حدیث میں ہے جس کو ابو داؤد نے نکالا ہے۔ مگر اس میں زائد ہے، ” تین دن کے بعد کھا جب کہ اس میں بدبو پیدا نہ ہوئی ہو “۔ (
2
) (ایضا، سنن ابی داؤد حدیث نمبر
2474
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نبی مکرم ﷺ کا ارشاد اس کے مخالف ہے ” کل ما اضمیت ودع ما انمیت “ (
3
) (المعجم الکبیر للطبرانی جلد
12
، صفحہ
27
) تو کھا جو جلدی سے قتل ہوجائے جب کہ تو اس کو دیکھ رہا ہو اور تو اسے چھوڑ دے جو تجھ سے غائب ہوجائے اور مر جائے جب تو اسے نہ دیکھ رہا ہو کہا جاتا ہے : قد انمیت الرمیۃ فنمت، تنمی۔ جب جانور غائب ہو کر مر جائے۔ امراء القیس نے کہا : فھو لا تنمی رمیتہ مالہ لاعد من نفرہ : علماء کا اختلاف ہے غائب شکار کے کھانے میں اس کے متعلق تین اقوال ہیں۔ (
1
) اسے کھایا جائے گا خواہ اسے تیر نے قتل کیا ہو یا کتے نے قتل کیا ہو۔ (
2
) اس سے کچھ نہیں کھایا جائے گا جب وہ غائب ہوجائے کیونکہ آپ کا ارشاد ہے : کل ما اصمیت ودع انمیت “۔ اس کو نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ اندیشہ ہے کہ اس کے قتل پر تیر کے علاوہ حشرات الارض نے مدد کی ہو۔ (
3
) تیر اور کتے کے شکار میں فرق ہے تیر لگا ہوا گم ہوجائے اور پھر مل جائے تو اسے کھایا جائے گا اور کتے کا شکار ایسی صورت میں نہیں کھایا جائے گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ تیر ایک جہت سے قتل کرتا ہے پس اس میں کوئی اشکال نہیں ہے اور درندہ یا کتا کئی جہات سے قتل کرتا ہے اس میں اشکال ہوتا ہے ہمارے علماء کے تین اقوال ہیں۔ امام مالک (رح) نے مؤطا کے علاوہ میں کہا : جب شکار رات گزارے پھر وہ مردہ پائے تو باز یا کتا یا تیر نے شکار کو چیر پھاڑ نہ دیا ہو تو اسے نہ کھایا جائے گا، ابو عمر نے کہا : یہ تیری راہنمائی کرتا ہے کہ جب شکار کو پہنچ جائے تو ان کے نزدیک حلال ہے وہ اسے کھائے اگرچہ رات بھی گزر جائے مگر وہ مکروہ فرماتے تھے جب رات گزار لے، کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ اگر تجھ سے شکار ایک رات غائب ہوجائے تو تو نہ کھا، اسی طرح ثوری (رح) سے مروی ہے فرمایا : جب تجھ سے ایک دن غائب ہوجائے تو اس کا کھانا مکروہ ہے۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : قیاس یہ ہے کہ وہ اسے نہ کھائے جب اس سے اس کا گرنا غائب ہوجائے، اوزاعی نے کہا : اگر دوسرے دن وہ اسے مردہ پائے اور اس میں اپنے تیر یا کتے کا اثر پائے تو اسے کھائے اسی طرح اشہب، عبدالملک اور اصبغ نے کہا : علماء نے فرمایا : شکار کا کھانا جائز ہے اگرچہ رات گزر جائے جب کہ وہ اپنے شکار کو قتل کر دے، حدیث شریف میں ہے ” جب تک کہ وہ بدبو دار ہوجائے تو اسے مستقذ رات لاحق ہومتغیر کھانا کھایا (
1
) بعض علماء نے فرمایا : یہ معلل ہے جس سے اس کے کھانے پر ضرر کا خوف ہوتا ہے اس تعلیل پر اس کا کھانا حرام ہوتا ہے اگر خوف محقق ہو۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (
14
) یہودی اور نصرانی کے کتے کے ساتھ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے۔ حسن بصری (رح) نے اس کو مکروہ کہا ہے مجوسی کا کتا، باز اور شکر اس کے ساتھ شکار کو حضرت جابر بن عبداللہ حسن، عطا، مجاہد، نخعی ثوری اور اسحاق نے مکروہ کہا ہے اور ان کے کتوں کے ساتھ کو امام مالک، امام شافعی اور امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہم نے جائز قرار دیا ہے جب کہ شکار کرنے والا مسلمان ہو، ان علماء نے فرمایا : یہ اس کی چھری کی مثل ہے، اور اگر اہل کتاب میں سے شکاری ہو تو امام مالک کے علاوہ جمہور امت اس کے شکار کے جواز کے قائل ہیں اس کے اور اس کے ذبیحہ کے درمیان فرق کیا ہے اور یہ تلاوت کی (آیت) ” یایھا الذین امنوا لیبلونکم اللہ بشیء من الصید تنالہ ایدیکم ورماحکم “۔ (المائدہ :
94
) فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس میں یہودی اور نصرانی کا ذکر نہیں کیا۔ ابن وہب اور اشہب نے کہا : یہودی اور نصرانی کا شکار اس کے ذبیحہ کی طرح حلال ہے اور امام محمد کی کتاب میں صابی کا نہ شکار جائز ہے اور نہ اس کی ذبح جائز ہے، یہ یہود ونصاری کے درمیان قوم ہے اور ان کا دین نہیں ہے۔ اور اگر شکاری مجوسی ہو تو اس کے کھانے سے امام مالک، امام شافعی، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم ان کے اصحاب اور جمہور علماء نے منع کیا ہے، ابو ثور کے اس میں دو قول ہیں۔ (
1
) ان علماء کے قول کی طرح۔ (
2
) مجوسی اہل کتاب سے ہے اور ان کا شکار جائز ہے۔ اگر نشہ والا شخص شکار کرے یا ذبح کرے تو اس کا شکار نہیں کھایا جائے گا اور نہ اس کا ذبیحہ کھایا جائے گا ذبح میں قصد کی ضرورت ہوتی ہے اور نشہ والے کا کوئی قصد نہیں ہے۔ مسئلہ نمبر : (
15
) (آیت) مما امسکن علیکم “۔ کے ارشاد من کے بارے میں نحویوں کا اختلاف ہے۔ اخفش نے کہا : یہ زائدہ ہے جیسے (آیت) ” کلوا من ثمرہ “۔ (الانعام :
141
) میں ہے بصریوں نے اس کو خطا کہا ہے، انہوں نے کہا : من اثبات میں زائد نہیں ہوتا ہوتا نفی اور استفہام میں زائد کیا جاتا ہے۔ (آیت) ” من ثمرہ یکفر عنکم من سیاتکم یغفرلکم من ذنوبکم “۔ میں تبعیض کے لیے ہے، اس کا جواب دیا اور کہا : (آیت) ” یغفرلکم ذنوبکم “۔ (الصف :
12
) (من) کے اسقاط) کے ساتھ ہے۔ یہ ایجاب میں اس کی زیادتی پر دلالت کرتا ہے اس کا جواب دیا گیا ہے کہ من یہاں تبعیض کے لیے ہے، کیونکہ شکار میں سے گوشت حلال ہے نہ گوبر اور خون۔ میں کہتا ہوں : یہ مراد نہیں ہے اور کھانے میں معہود نہیں ہے اور جو انہوں نے کہا ہے اس پر اعتراض کیا گیا ہے اور (آیت) ” مما امسکن “ سے مراد یہ کہ تمہارے لیے جوارح جو باقی چھوڑیں، یہ اس کے قول پر ہے جس نے کہا : اگر کتا شکار کھالے تو کوئی نقصان نہیں، اس احتمال کے سبب شکار کے کھانے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے جب شکار سے شکار جانور کھا بھی لے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
16
) یہ آیت کریمہ کتوں کے رکھنے اور شکار کے لیے کتا پالنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے صحیح سنت میں یہ ثابت ہے اور کھیتی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتوں کے رکھنے کا سنت نے اضافہ کیا ہے، ابتدائے اسلام میں کتوں کے قتل کرنے کا حکم دیا حتی کہ اس عورت کے پیچھے آنے والے کتے کو قتل کیا جاتا تھا جو عورت دیہات سے آتی تھی، مسلم نے حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے فرمایا : ” جس نے شکاری کتے یا جانروں کی حفاظت کرنے والے کتے کے علاوہ کتا رکھا ہر روز اس کے اجر سے دو قیراط کم ہوتے ہیں “۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب المساقات۔۔۔۔۔۔ جلد
2
، صفحہ
21
) اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے جانوروں کی حفاظت والے، شکار والے یا کھیتی کی حفاظت کرنے والے کتے کے علاوہ کتا رکھا اس کے اجر سے روزانہ ایک قیراط کم ہوگا “۔ (
2
) (صحیح مسلم، کتاب المساقات۔۔۔۔۔۔ جلد
2
، صفحہ
21
) الزہری نے کہا : حضرت ابن عمر ؓ کے لیے حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ذکر کیا گیا ہے، انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ حضرت ابوہریرہ ؓ پر رحم فرمائے، وہ کھیتی والے تھے، جو ہم نے ذکر کیا اس پر سنت دلالت کرتی ہے، جس نے ان منافع کے علاوہ کے لیے کتا رکھا اس کے اجر سے کمی ہوگی، خواہ مسلمانوں کو کتے کا ڈرانے، بھونکنے کے ساتھ انہیں تشویش میں ڈالنے کی وجہ سے ہو جس طرح بصرہ کے بعض شعراء نے کہا جب کہ وہ عمار میں اترے اور اس کے کتے کی آواز سنی تو کہا : نزکنا بمعمار فاشلی کلابہ علینا فکدنا بین بیتیہ نؤکل : فقلت لاصحابی اسر الیھم اذا الیوم ام یوم القیامہ اطول : یا جس گھر میں کتے ہوتے ہیں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور یا اس کی نجاست کی وجہ سے جیسا کہ امام شافعی کا خیال ہے یا ایسی چیز کے متعلق نہی ہے جس میں منفعت نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ دونوں روایتوں میں سے ایک روایت میں فرمایا : قیراطان “ (دو قیراط) اور دوسری روایت میں ہے ” قیراط “ (ایک قیراط) اس میں احتمال ہے کہ کتوں کی دو قسمیں ہوں ایک دوسری سے زیادہ سخت قسم ہو جیسے وہ کالا کتا جس کے قتل کرنے کا نبی مکرم ﷺ نے حکم فرمایا اور استثنا میں اسے داخل نہیں کیا جب اس کے قتل سے منع فرمایا : آپ ﷺ نے فرمایا : ” تم پر کالے کتے دو نقطوں والے کو قتل کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ شیطان ہے “ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب المساقات والمزارعۃ۔ جلد
2
، صفحہ
22
) اس حدیث کو مسلم نے نقل کیا ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ جگہ کے اختلاف کی بنا پر ہو مثلا مدینہ طیبہ یا مکہ مکرمہ میں کتا رکھنا دو قراط کی کمی کا باعث ہو اور دوسری جگہوں پر ایک قیراط کمی کا باعث ہو۔ واللہ اعلم۔ اور جو کتا رکھنا مباح ہے اس کے رکھنے سے اجر کم نہیں ہوتا جیسے گھوڑا، بلی، اس کا بیچنا اور خریدنا جائز ہے حتی کہ سحنون نے کہا : اس کی ثمن کے ساتھ حج کرسکتا ہے، اور جانوروں کی حفاظت والا کتا جس کا رکھنا جائز ہے امام مالک (رح) کے نزدیک وہ کتا ہے جو جانوروں کے ساتھ چلتا ہے وہ کتا مراد نہیں ہے جو گھر میں چوروں سے حفاظت کرتا ہے اور کھیتی کا کتا اس سے مراد وہ ہے جو رات اور دن میں وحوش سے حفاظت کرتا ہے نہ چوروں سے حفاظت کے لیے کتا رکھنا جائز قرار دیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
17
) اس آیت میں دلیل ہے کہ عالم کے لیے وہ فضیلت ہے جو جاہل کے لیے نہیں ہے کیونکہ کتا جب سکھایا جاتا ہے تو اسے تمام کتوں پر فضیلت ہوتی ہے پس انسان کو جب علم ہو تو اس کو تمام لوگوں پر فضیلت کا ہونا بدرجہ اولی ہوگا خصوصا جب وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے، یہ اس طرح ہے جیسا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے مروی ہے فرمایا : ہر چیز کی قیمت ہے اور انسان کی قیمت وہ ہے جو اسے خوبصورت بنائے۔ مسئلہ نمبر : (
18
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذکرواسم اللہ علیہ “۔ پڑھنے کا حکم ہے، بعض علماء نے فرمایا : شکار پر کتا چھوڑنے کا آگاہ کرنے اور ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا ایک ہے اس بیان سورة انعام میں آئے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہاں کھانے کے وقت بسم اللہ پڑھنا مراد ہے اور یہ قول اظہر ہے صحیح مسلم میں ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے حضرت عمر بن ابی سلمہ ؓ سے کہا : ” اے غلام ! بسم اللہ پڑھ اور دائیں ہاتھ سے کھا اور اپنے سامنے سے کھا۔ “ (
2
) (صحیح بخاری، کتاب الاطعمۃ جلد
2
، صفحہ
809
) حضرت حذیفہ (رح) کی حدیث سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” شیطان کھانے کو حلال سمجھتا ہے مگر یہ کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے “ (
3
) (صحیح مسلم، کتاب الاشربیہ جلد
2
، صفحہ
172
) اگر کھانے کی ابتدا میں بسم اللہ بھول جائے تو آخر میں بسم اللہ پڑھے، نسائی نے حضرت امیہ بن مخشی سے روایت کیا ہے یہ رسول اللہ کے صحابہ کر امرضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کھانا کھاتے دیکھا جب کہ اس نے بسم اللہ نہیں پڑھی تھی جب وہ آخری لقمہ میں تھا تو اس نے کہا : بسم اللہ اولہ وآخرہ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” شیطان اس کے ساتھ کھانا کھاتا رہا پھر جب اس نے بسم اللہ پڑھی تو جو اس نے کھایا تھا اسے قئی کردیا “۔ (
4
) (سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، حدیث
3276
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر : (
19
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واتقوا اللہ “ تقوی کا حکم دیا اور قریبی اشارہ ان اوامر کی طرف ہے جن کی یہ آیات اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہیں اور حساب کی سرعت اس حیثیت سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے از روئے علم ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور ہر چیز کو شمار کر رکھا ہے، اسے شمار کرنے اور عقد کی ضرورت نہیں ہے جیسے حساب کرنے والے کرتے ہیں اسی وجہ سے فرمایا : (آیت) ” وکفی بنا حسبین “۔ (الانبیائ) اللہ تعالیٰ ایک دفعہ ہی خلائق کا حساب کرلے گا، یہ بھی احتمال ہے کہ یہ قیامت کے دن کی وعید ہو گویا فرمایا : تمہارے لیے اللہ کا حساب جلدی ہونے والا ہے، کیونکہ قیامت قریب ہے، یہ بھی احتمال ہے کہ حساب سے مراد جزا دینا ہو گویا دنیا میں جلد قریب جزا دینے کی دھمکی دی اگر انہوں نے اللہ کا خوف نہ کیا۔
Top