Tafseer-e-Jalalain - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب (کو یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ مجھے ایذا ہو رہی ہے اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے ولا ہے
آیت نمبر 83 تا 93 ترجمہ : اور یاد کرو ایوب (علیہ السلام) کی حالت کو اذ نادیٰ ربہ ایوب سے بدل ہے، جبکہ ان کو ان کے تمام مال و اولاد کو ہلاک کرکے اور ان کے جسم کو پارہ پارہ کرکے اور ان کی بیوی کے علاوہ تمام لوگوں کے ان کو تین سالوں یا سات سالوں یا اٹھارہ سالوں تک چھوڑ دینے اور ان کو تنگ زندگی کے ذریعہ آزمایا گیا انی ہمزہ کے فتحہ اور با کی تقدیر کے ساتھ ہے، یعنی اس وقت کو یاد کرو جب ایوب (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھ کو تکلیف لاحق ہوگئی ہے اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کو جو تکلیف تھی وہ دور کردی اور ہم نے ان کو ان کے اہل یعنی اولاد ذکور اور اناث عطا کئے اس طریقہ سے کہ وہ زندہ کر دئیے دونوں جنسیں (مذکرو مؤنث) تین تین تھے یا سات سات اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی ان کی بیوی سے اور ان کی بیوی پر شباب لوٹا دیا گیا، اور ان کا ایک کھلیان گندم کا تھا اور ایک جو کا، تو اللہ تعالیٰ نے دو بدلیاں بھیجیں ایک بدلی نے گندم کے کھلیان پر سونا برسایا اور دوسری نے جو کے کھلیان پر چاندی برسائی یہاں تک کہ بہہ پڑے اپنی خصوصی رحمت کی وجہ سے رحمۃ آتینہ کا مفعول لہ ہے اور من عندنا (کائنۃً ) سے متعلق ہو کر رحمۃً کی صفت ہے اور بندگی کرنے والوں کی نصیحت کے لئے تاکہ صبر کریں پس ان کو ثواب عطا کیا جائے، اور اسماعیل و ادریس وذوالکفل (علیہ السلام) کا تذکرہ کیجئے یہ سب صابرین میں سے تھے اللہ کی اطاعت پر اور اس کی معصیت سے باز رہنے پر اور ہم نے ان سب حضرات کو اپنی رحمت یعنی نبوت میں داخل کرلیا تھا اور ان میں اس (نبوت) کی صلاحیت تھی اور ذوالکفل کا ذوالکفل اس وجہ سے نام رکھا گیا کہ انہوں نے دن میں روزہ رکھنے کو اور پوری رات نماز پڑھنے کو اور اس بات کو کہ لوگوں کے درمیان مقدمات کا فیصلہ کریں گے اور غصہ نہ کریں گے لازم کرلیا تھا چناچہ انہوں نے اس ذمہ داری کو خوب نبھایا، کہا گیا ہے کہ ذوالکفل نبی نہیں تھے اور ذوالنون یعنی مچھلی والے کا تذکرہ کیجئے اور وہ یونس بن متی ہیں اور اذ ذھب مغاضبا ذوالنون سے بدل ہے یعنی اس وقت کو یاد کرو کہ جب مچھلی والا اپنی قوم سے ان کی طرف سے تکلیف اٹھانے کی وجہ سے ناراض ہو کر چل دیا حالانکہ اس کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی تو اس نے یہ سمجھا کہ ہم بغیر اجازت چلے جانے پر کچھ داروگیر نہ کریں گے یعنی مچھلی کے پیٹ میں قید کرنے کا جو فیصلہ ہم نے کرلیا ہے وہ نہ کریں گے، یا اس کی وجہ سے ہم اس پر تنگی نہ کریں گے آخر کار وہ اندھیروں میں پکار اٹھا یعنی رات کی ظلمت اور دریا کی ظلمت اور مچھلی کے پیٹ کی ظلمت سے کہ اے الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے بیشک میں ظالموں میں سے ہوگیا بغیر اجازت قوم کے درمیان سے چلے جانے کی وجہ سے تو ہم نے اس کی دعا سن لی اور مذکورہ کلمات دعاء کی بدولت اس کو غم سے نجات دیدی اور جس طرح اس کو بچا لیا اسی طرح ہم ایمان والوں کو ان کے کرب سے بچا لیا کرتے ہیں جب وہ ہم سے دعا کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں اور زکریا کا تذکرہ کرو اذ نادیٰ ربہ زکریا سے بدل واقع ہے، جب اس نے اپنے رب کو رب لاتذرنی فردا کے الفاظ سے پکارا یعنی اے میرے پروردگار تو مجھے تنہا یعنی بلاولد کے جو میرا وارث ہو نہ چھوڑئیے اور تو سب سے بہتر وارث ہے یعنی تیری تمام مخلوق کے فنا ہونے کے بعد تو ہی باقی رہنے والا ہے تو ہم نے اس کی دعا کو قبول کرلیا اور ہم نے اس کو یحییٰ لڑکا عطا کیا اور ہم نے اس کے لئے اس کی بیوی کو درست کردیا اور نابجھ رہنے کے بعد اس نے بچہ جنا اور بیشک وہ لوگ یعنی وہ انبیاء جن کا ذکر ہوا نیک کاموں یعنی طاعتوں میں جلدی سبقت کرتے تھے اور وہ ہم کو امید و بیم یعنی ہماری رحمت کی امید اور ہمارے عذاب کے خوف کے ساتھ ہم کو پکارتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے یعنی اپنی عبادت میں خشوع و خضوع کرنے والے تھے اور بی بی مریم کا بھی تذکرہ کیجئے جس نے اپنی ناموس کی حفاظت کی یعنی اس تک رسائی دینے سے اس کی حفاظت کی اور ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی یعنی جبرائیل (علیہ السلام) نے اس طریقہ سے کہ اس کے گریبان میں پھونک ماردی چناچہ بی بی مریم عیسیٰ (علیہ السلام) سے حاملہ ہوگئیں اور ہم نے خود ان کو اور ان کے بیٹے کو عالم والوں یعنی انسانوں اور جناتوں اور فرشتوں کے لئے نشانی بنادیا اس لئے کہ انہوں نے مرد کے بغیر بچہ جنا بیشک یہ یعنی ملت اسلامیہ اے مخاطبو ! تمہاری ایک ہی ملت ہے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس پر قائم رہو امۃً واحدۃً حال لازمہ ہے اور میں تم سب کا رب ہوں لہٰذا میری ہی بندگی کرو یعنی میری توحید کے قائل ہوجاؤ مگر بعض مخاطبین آپس میں اپنے دین میں فرقہ بندیاں کرلیں یعنی اپنے دینی معاملہ میں اختلاف کرنے کی وجہ سے متفرق ہوگئے اور وہ یہود و نصاریٰ کے گروہ تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا سب کے سب ہماری طرف لوٹنے والے ہیں یعنی ہم ان میں سے ہر ایک کے عمل کا بدلہ دیں گے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد واذکر ایوب ویبدل منہ اذ نادی ربہ اذ نادیٰ ربہ ایوب یعنی اس کے مضاف محذوف سے بدل ہے ای خیر ایوب سے۔ قولہ : لما ابتلی نادیٰ کے متعلق ہے۔ قولہ : وضیق عیشہ اور ضیق مبنی للمفعول پڑھا جائے تو ابتلیٰ پر عطف ہوگا، اور ضیق مصدر پڑھا جائے تو فقد پر عطف ہوگا اور با کے تحت ہوگا ای ابتلی بضیق عیشہ۔ قولہ : سنین ثلاثاً یہ ابتلی کا ظرف ہے۔ قولہ : اندر بروزن بندر کھلیان (ج) انادرٌ اہل شام کی زبان بیدر بروزن خیبر کہتے ہیں موضع الذی ید اس فیہ الطعام۔ قولہ : رحمۃ یہ آتیناہ کا مفعول لہ ہے، اور فعل مقدر کا مفعول مطلق بھی ہوسکتا ہے ای رحمناہ رحمۃ (والاول اظہر) ۔ قولہ : من عندنا رحمۃً کی صفت ہے ای رحمۃً کائنۃً من عندنا اور ذکریٰ للعابدین میں عابدین کی تخصیص اس لئے ہے کہ اس قسم کے واقعات سے عابدین ہی منتفع ہوتے ہیں۔ قولہ : لیصبروا ای کما صبر ایوب فاثیب۔ قولہ : واذخلنھم کا عطف فعل مقدر پر ہے ای فاعطیناھم ثواب الصابرین وادخلنھم فی رحمتنا۔ قولہ : وذا الکفل ان کا نام بشر ابن ایوب (علیہ السلام) ہے اور ذوالکفل ان کا لقب ہے ذوالنون یہ لقب ذوالنون ہوگیا۔ قولہ : مغاضبًا یہ ذھب کی ضمیر سے حال اور باب مفاعلہ سے ہے جو اکثر مشارکت کے لئے آتا ہے مگر یہاں مشارکت کے لئے نہیں ہے بلکہ عاقبت اللص کے قبیل سے ہے یعنی وہ قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے مفسر علام نے ای غضبان کا اضافہ اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ مشارکت کے لئے ہو یعنی یہ اپنی قوم سے ناراض ہوئے اور قوم ان سے ناراض تھی اس لئے کہ ابتداء امر میں قوم ایمان نہیں لائی تھی۔ قولہ نقضی علیہ الخ کے اضافہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ لن نقدِرَ علیہ قَدْرٌ سے مشتق ہے نہ قدرۃ سے قدرٌ کے معنی فیصلہ کرنے یا تنگی کرنے کے ہیں، لہٰذا لن نقدر علیہ کے معنی یا تو لن نقضی علیہ کے ہوں گے یعنی جو ہم فیصلہ کرچکے ہیں اس کا نفاذ نہ کریں گے، یا معنی یہ ہوں گے کہ ان پر تنگی نہ کریں گے، اور قدرۃ سے مشتق مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس پر قدرت نہیں رکھتے یہ کفر یہ عقیدہ ہے ایک عام مسلمان بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتا چہ جائیکہ نبی، قولہ : أن لا الٰہ الا انت اس کی دو ترکیبین ہوسکتی ہیں (1) أن مخففہ عن المثقلہ ہو اور اس کا اسم محذوف ہو ای انہٗ اور اس کے بعد واقع ہونے والا جملہ منفیہ اس کی خبر ہو (2) أن تفسیر یہ ہو اس لئے کہ ان تفسیر یہ قول یا قول کے ہم معنی کے بعد واقع ہوتا ہے اور اس سے پہلے نادیٰ واقع ہے جو کہ قول کے ہم معنی ہے لہٰذا ان کا تفسیر یہ ہونا درست ہے۔ قولہ : یرثنی ای ارث نبوۃٍ وعلم وحکمۃٍ ۔ قولہ : وانت خیر الوارثین یہ مقدر پر معطوف ہے تقدیر عبارت یہ ہے فارزقنی وارثا وانت خیر الوارثین۔ قولہ : عقم ای انسداد الرحم عن الولادۃ بالضمۃ والفتحۃ عقیم بانجھ جس میں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔ قولہ : انھم کانوا یسارعون فی الخیرات یہ محذوف کی علت ہے ای نالوا ما نالوا لانھم کانوا یسارعون فی الخیرات یعنی ان حضرات کو جو فضائل و مراتب حاصل ہوئے اس کی علت تمام وجوہ خیرات کی طرف سبقت کرنا تھا اصل خیرات میں ثبات و استقرار کے ساتھ ساتھ، یسارعون کا صلہ الیٰ کے بجائے فی لانے میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ قولہ : رغبا ورھبا یدعون کے مفعول لہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہوسکتے ہیں اور مصدر موقع حال میں واقع ہونے کی وجہ سے بھی منصوب ہوسکتے ہیں ای یدعون راغبین وراھبین۔ قولہ : احصنت فرجھا یہ موصوف محذوف کی صفت ہے جو کہ فعل محذوف اذکر کا معمول ہے جیسا کہ مفسر علام نے وضاحت کردی ہے ای اذکر مریم التی الخ۔ قولہ : آیۃ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آیتین کہنا چاہیے تھا مگر چونکہ والدہ اور ولد دونوں مل کر آیت تھے اس لئے آیۃ کو واحد لایا گیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک پر قیاس کرکے دوسرے کو حذف کردیا ہو اصل میں وجعلنھا آیۃ وابنھا آیۃ تھا، پہلی آیۃ کو ثانی پر قیاس کرتے ہوئے حذف کردیا۔ قولہ : امتکم اگر رفع کے ساتھ ہو تو انّ کی خبر ہوگی اور اگر نصب کے ساتھ ہو تو بدل یا عطف بیان۔ قولہ : امۃ واحدۃ یہ امتکم سے حال لازمہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے اس لئے کہ امت کے اندر خود وحدت اور جمعیت کے معنی موجود ہیں اور امۃ واحدۃ سے بھی یہی سمجھ میں آرہا ہے گویا کہ امۃ واحدۃ امتکم کے لئے معنی کے اعتبار سے لازم ہے۔ قولہ : وھم طوائف الیھود والنصاریٰ اس کی تخصیص کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ مسلمانوں میں بھی تہتر فرقے ہوں گے۔ قولہ : وتقطعوا امرھم تقطعوا قطعوا کے معنی میں ہے اور امرھم اس کا مفعول بہ ہے اور امرھم کے معنی فی امرھم کے ہیں۔ تفسیر و تشریح حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قصہ : حضرت ایوب (علیہ السلام) کے قصہ میں اسرائیلی روایات بڑی طویل ہیں، ان میں سے جن کو محدثین نے تاریخی درجہ میں قابل اعتماد سمجھا ہے وہ نقل کی جاتی ہیں، قرآن مجید سے تو صرف اتنی بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کو کوئی شدید مرض لاحق ہوگیا تھا جس پر وہ صبر کرتے رہے بالآخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس مرض سے نجات ملی اور یہ کہ اس بیماری کے زمانہ میں ان کی اولاد و احباب سب غائب ہوگئے خواہ موت کی وجہ سے یا اور کسی دوسری وجہ سے پھر حق تعالیٰ نے ان کو صحت و عافیت عطا فرمائی اور جتنی اولاد تھی وہ سب ان کو دیدی بلکہ اتنی ہی اور بھی دیدی۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے قصہ کے بعض اجزاء تو مستند احادیث میں موجود ہیں، زیادہ تر تاریخی روایات ہیں، خازن نے کہا ہے کہ ایوب (علیہ السلام) روم کے باشندہ تھے اور ان کا نسب عیص بن اسحٰق (علیہ السلام) سے ملتا ہے ان کی والدہ لوط بن ہاران کی اولاد میں سے تھیں جو کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زادہ تھے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے ابتداء میں ہر قسم کے مال و دولت زمین جائداد مکانات اور سواریوں نیز اولاد و حشم و خدم سے نوازا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے یہ سب چیزیں ختم ہوگئیں اور جسم میں بھی کوئی شدید قسم کی بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے زبان اور قلب کے سوا کوئی حصہ صحیح سالم نہیں بچا اس حالت میں بھی زبان و قلب کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے تھے اور اس کا شکر ادا کرتے رہتے تھے، اس شدید بیماری کی وجہ سے عزیزوں اور دوستوں اور پڑوسیوں نے ان کو الگ کرکے آبادی سے باہر ڈالدیا ان کے پاس ان کی بیوی جن کا نام رحمت بنت افراثیم بن یوسف بن یعقوب تھا کہ سوا کوئی نہیں جاتا تھا، بعض حضرات نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیوی کا نام لیّا بنت منشا بن یوسف بتایا ہے، وہی ان کی خبر گیری کرتی تھی، حضرت ایوب (علیہ السلام) آبادی سے دور کوڑے کچرے کی جگہ سات سال اور چند ماہ پڑے رہے، بعض مفسرین نے اٹھارہ سال بیان کئے ہیں کبھی جزع فزع یا حرف شکایت زبان پر نہیں آیا، نیک بیوی نے عرض بھی کیا کہ آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ تکلیف دور ہوجائے تو فرمایا کہ میں نے ستر سال صحیح تندرست اللہ کی بیشمار نعمت و دولت میں گزارے ہیں کیا اس کے مقابلہ میں سات سال بھی مصیبت کے گزارنے مشکل ہیں، پیغمبرانہ عزم و ضبط اور صبر و ثبات کا یہ عالم تھا کہ دعا کرنے کی بھی ہمت نہیں کرتے تھے کہ کہیں صبر کے خلاف نہ ہوجائے، بالآخر کوئی سبب پیش آیا کہ جس نے ان کو دعا کرنے پر مجبور کردیا اور یہ دعا صرف دعا ہی تھی کوئی بےصبری نہیں تھی حق تعالیٰ نے ان کے کمال صبر پر اپنے کلام میں مہر ثبت فرما دی ہے، فرمایا انا وجدناہ صابرا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب ایوب (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ زمین پر ایڑھ لگائیے یہاں سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹے گا اس سے غسل کیجئے اور اس کا پانی پیجئے تو یہ تمام مرض ختم ہوجائے گا، حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اس کے مطابق کیا تو پورا بدن یکایک اپنی سابقہ اصلی حالت پر آگیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کا لباس بھیج دیا وہ زیب تن فرمایا، اور اس کوڑے کچرے سے الگ ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے زوجہ محترمہ حسب عادت ان کی خبر گیری کے لئے آئیں تو ان کو اپنی جگہ نہ پاکر رونے لگیں، ایوب (علیہ السلام) جو ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو نہیں پہچانا اس لئے کہ حالت بدل چکی تھی، انہیں سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ بیمار جو یہاں پڑا رہتا تھا کہاں چلا گیا ؟ کیا کتوں اور بھیڑیوں نے اسے کھالیا، یہ سب سنکر حضرت ایوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں ہی ایوب ہوں مگر زوجہ محترمہ نے اب بھی نہیں پہچانا اور کہا اللہ کے بندے کیا آپ مجھ سے تمسخر کرتے ہیں تو ایوب (علیہ السلام) نے پھر فرمایا غور سے دیکھو میں وہی ایوب ہوں اللہ نے میری دعا قبول فرمائی اور میرا بدن درست فرما دیا، ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا مال و دولت بھی ان کو واپس دیدیا اور اولاد بھی اور اولاد کی تعداد کے برابر مزید اولاد بھی دیدی۔ (ابن کثیر مع الحذف ) ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے ساتھ لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں اس ابتلا کے زمانہ میں یہ سب فوت ہوگئے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرما دی ان کو بھی دوبارہ زندہ کردیا اور ان کی اہلیہ سے اتنی ہی اور اولاد پیدا ہوگئی جس کو قرآن کریم نے ومثلہٗ معہٗ فرمایا ہے، ثعلبی نے کہا ہے یہ قول ظاہر آیت قرآن کے ساتھ اقرب ہے (قرطبی) واذکر اسمعیل وادریس حق سبحانہ و تعالیٰ نے صبر ایوب کا تذکرہ فرمایا اس کے ساتھ ان حضرات کے صبر کا بھی تذکرہ فرما دیا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا خود کو ذبح کے لئے بخوشی پیش کردینا ایک عظیم ابتلاء و آزمائش تھی جس میں آپ کامیاب رہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ایک سو تیس سال بقید حیات رہے جس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا انتقال ہوا اس وقت اسماعیل (علیہ السلام) کی عمر 83 سال تھی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے برادر خورد اسحٰق آپ سے چودہ سال چھوٹے تھے اور 180 سال کی عمر پائی۔ (جمل) ذا الکفل یہ لقب ہے اصل نام بشر ہے کہا گیا ہے کہ یہ حضرت ایوب (علیہ السلام) کے صاحبزادے ہیں، چونکہ انہوں نے دن میں روزہ رکھنا اور رات کو قیام کرنا اور کسی پر غصہ نہ کرنے کو اپنے ذمہ لازم کرلیا تھا اسی مناسبت سے ان کا لقب ذوالکفل ہوگیا، کہا گیا ہے کہ ذوالکفل نبی نہیں تھے بلکہ عبد صالح تھے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ نبی تھے اور قرآن کے اسلوب سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے انبیاء کو شمار کراتے ہوئے درمیان میں ان کا ذکر بھی کیا ہے اس کے علاوہ اس سورت کا نام ہی سورة الانبیاء ہے، مگر بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی نہیں تھے بلکہ مرد صالح تھے (امام تفسیر) ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد (رح) سے نقل کیا ہے کہ حضرت یسع کا بنی ہونا قرآن کریم سے ثابت ہے حضرت یسع جب بوڑھے اور ضعیف ہوگئے تو چاہا کہ کسی کو اپنا خلیفہ بنادیں جو دینی امور میں ان کی نیابت کا کام انجام دے۔ اس مقصد کے لئے حضرت یسع نے اپنے تمام اصحاب کو جمع کیا کہ اپنا خلیفہ بنانا چاہتا ہوں مگر اس کے لئے تین شرطین ہیں جو شخص ان شرائط کا جامع ہوگا اس کو خلیفہ بناؤں گا، وہ تین شرطیں یہ ہیں وہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہو رات کو عبادت کے لئے بیدار رہتا ہو اور کبھی غصہ نہ کرتا ہو، مجمع میں سے ایک ایسا غیر معروف شخص کھڑا ہوا جس کو لوگ حقیر سمجھتے تھے اور کہا کہ میں اس کام کے لئے حاضر ہوں حضرت یسع (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ تم یہ تینوں کام کرتے ہو جواب دیا میں ان تینوں کاموں کا عامل ہوں، غالباً حضرت یسع (علیہ السلام) کو اس کی بات کا یقین نہ آیا پھر دوسرے روز اسی طرح مجمع سے خطاب فرمایا مگر سب حاضرین خاموش رہے اور وہی شخص پھر کھڑا ہوگیا تو مجبوراً حضرت یسع (علیہ السلام) نے ان کو اپنا خلیفہ نام زد کردیا، جب شیطان نے دیکھا کہ ذوالکفل اس میں کامیاب ہوگئے تو اپنے اعوان شیطین سے کہا کہ جاؤ کسی طرح اس شخص پر اثر ڈالو کہ یہ کوئی ایسا کام کر بیٹھے کہ جس کی وجہ سے اس کا یہ منصب سلب ہوجائے، اعوان شیطان نے عذر کردیا کہ وہ ہمارے قابو میں آنے والا نہیں ہے، شیطان نے کہا اچھا تم اس کو میرے اوپر چھوڑ دو اس سے میں خود نمٹ لوں گا، ذوالکفل اپنی عادت کے مطابق دن کو روزہ رکھتے اور رات بھر بندگی خدا میں جاگتے رہتے تھے صرف دوپہر کو تھوڑی دیر آرام کرتے تھے، ایک روز شیطان دوپہر کو ان کے قیلولہ کے وقت آیا اور دروازہ پر دستک دی یہ بیدار ہوگئے اور فرمایا کون ہے ؟ شیطان نے کہا میں ایک بوڑھا مظلوم ہوں ذوالکفل نے دروازہ کھول دیا شیطان نے اندر پہنچ کر ایک طویل داستان بیان کرنی شروع کردی اور ایک شخص کے ساتھ اپنے نزاع کا تفصیل سے ذکر کیا، یہاں تک کہ آرام کا وقت ختم ہوگیا، حضرت ذوالکفل نے فرمایا جب میں کچہری میں بیٹھوں تو میرے پاس آنا میں تمہارا حق دلوا دوں گا، جب ذوالکفل باہر تشریف لائے تو عدالت میں اس کا انتظار کرتے رہے مگر اس کو نہیں پایا، جب دوپہر کو قیلولہ کے لئے گھر تشریف لے گئے اور آرام کے لئے ابھی لیٹے ہی تھے کہ یہ شخص آیا اور دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا، معلوم کیا کون ہے ؟ جواب دیا ایک مظلوم بوڑھا شخص ہے انہوں نے پھر دروازہ کھول دیا اور فرمایا کہ کیا میں نے کل تم سے نہیں کہا تھا کہ کچہری میں آنا، بوڑھے نے جواب دیا حضرت میرے مخالف بڑے خبیث لوگ ہیں جب انہوں نے دیکھا کہ آپ فیصلہ کے لئے اپنی مجلس میں بیٹھے ہیں اور میں حاضر ہوں تو آپ ان کو میرا حق دینے پر مجبور کردیں گے، تو اس وقت ان لوگوں نے اقرار کرلیا کہ ہم تیرا حق دیتے ہیں پھر جب آپ مجلس سے اٹھ گئے تو انکار کردیا، حضرت ذوالکفل نے پھر اس سے یہی فرمایا کہ اب جاؤ اور جب میں مجلس عدالت میں بیٹھوں تو آناآج بھی دوپہر کا سارا وقت ختم ہوگیا اور آرام کا موقعہ بہ ملا جب باہر مجلس عدالت میں تشریف لے گئے تو اس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے مگر بوڑھا شخص نہ آیا، اس طرح دوپہر کو آرام کئے بغیر دو روز گزر گئے جب تیسرا روز ہوا تو نیند کا بہت زیادہ غلبہ تھا اپنے اہل خانہ سے کہہ دیا کہ آج کسی کو اندر نہ آنے دینا، یہ بوڑھا پھر تیسرے روز اسی طرح آیا اور دروازہ پر دستک دینا چاہا تو لوگوں نے منع کردیا تو ایک روشندان کے ذریعہ اندر داخل ہوگیا اور اندر پہنچ کر دروازہ بجانا شروع کردیا، تیسرے روز بھی ذوالکفل کی نیند خراب ہوگئی اور دیکھا کہ ایک شخص گھر کے اندر ہے اور دروازہ بدستور بند ہے، اس سے معلوم کیا تو کس طرح اندر آگیا اس وقت ذوالکفل نے پہچان لیا کہ یہ شیطان ہے اور فرمایا کیا تو خدا کا دشمن ابلیس ہے ؟ اس نے اقرار کرلیا اور کہنے لگا کہ تو نے مجھے ہر تدبیر میں ناکام کردیا کبھی میرے جال میں نہیں آیا، اب میں نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح تجھے غصہ دلادوں تاکہ تو اپنے اقرار میں جھوٹا ہوجائے جو یسع نبی کے ساتھ کیا ہے اس لئے میں نے یہ سب حرکتیں کیں، اسی واقعہ کی وجہ سے ان کو ذوالکفل کا خطاب دیا گیا کیونکہ ذوالکفل کے معنی ہیں ایسا شخص جو اپنے عہد اور ذمہ داری کو پورا کرے۔ (ابن کثیر بحوالہ معارف القرآن) واذکر ذوالنون ذوالنون اور صاحب الحوت یہ دونوں حضرت یونس (علیہ السلام) کے لقب ہیں اس کے معنی ہیں مچھلی والا، حضرت یونس (علیہ السلام) کو چونکہ چند روز مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا تھا اس لئے ان کا لقب ذوالنون یا صاحب الحوت پڑگیا، اصل نام یونس ہے اور والد صاحب کا نام متّٰی بن شتّٰی ہے بعض حضرات نے متّٰی ان کی والدہ کا نام بتایا ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے فرمایا ہے اس صورت میں ان کی نسبت ماں کی طرف ہوگی جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نسبت ان کی والدہ مریم کی طرف ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو موصل کی ایک بستی نینوا کی طرف لوگوں کو ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا، حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایمان اور عمل صالح، کی دعوت دی مگر قوم تمرد اور سرکشی پر اتر آئی اور ایمان لانے سے صاف انکار کردیا حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور تین دن کے اندر اندر عذاب آنے کی دھمکی دیکر بستی سے نکل گئے اب قوم کو فکر ہوئی کہ اب عذاب آہی جائے گا، اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب کے بعض آثار نمایاں بھی ہوگئے تھے، تو قوم نے اپنے شرک و کفر سے توبہ کی اور تمام مرد اور عورت جانور اور بچے تو بہ استغفار کے لئے جنگل میں نکل گئے اور حق تعالیٰ کے حضور خوب گریہ وزاری کی اور عذاب سے پناہ بھی طلب کی اللہ تعالیٰ نے ان کی الحاح وزاری کو دیکھ کر ان کی توبہ کو قبول کرلیا اور عذاب بھی ٹال دیا۔ جب حضرت یونس (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ قوم صحیح سلامت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان سے عذاب ٹال دیا ہے تو ان کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ میں تین روز کے اندر اندر عذاب کی دھمکی دے کر آیا ہوں اور عذاب آیا نہیں ہے لہٰذا لوگ مجھے جھوٹا خیال کریں گے جس کی وجہ سے اب میری دعوت ان پر اثر نہ کرے گی بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم میں جھوٹے کی سزا قتل تھی لہٰذا حضرت یونس (علیہ السلام) کو اندیشہ ہوا کہ قوم مجھے قتل کر دے گی اسی اندیشہ کے پیش نظر حضرت یونس (علیہ السلام) نے اپنی قوم میں واپس جانے کے بجائے دوسری جگہ ہجرت کرنے کا ارادہ کرلیا راستہ میں ایک دریا پڑتا تھا دریا عبور کرنے کے لئے کشتی میں سوار ہوگئے اتفاق سے کشتی گرداب میں پھنس گئی، ملاحوں نے اپنے تجزبہ کی بنیادی پر کہا کہ کشتی میں کوئی ایسا شخص ہے جو اپنے مولیٰ سے فرار ہو کر آیا ہے، ملاحوں نے مفرور شخص کو متعین کرنے کے لئے قرعہ اندازی کی با ربار قرعہ اندازی کرنے کے باوجود قرعہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام ہی نکلا ملاحوں نے مجبور ہو کر حضرت یونس (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دیا، اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک مچھلی کو حکم دیا کہ یونس کو فوراً اپنے پیٹ میں رکھ لے اور فرمایا کہ وہ اس کی غذا نہیں ہے، بلکہ چند روز کے لئے قید خانہ ہے حضرت یونس (علیہ السلام) باختلاف روایات تین دن، سات دن، بیس دن، چالیس دن مچھلی کی پیٹ میں رہے، اسکے بعد مچھلی کو حکم ہوا کہ دریا کے کنارے پر ڈالدے، چناچہ مچھلی نے کنارے پر ڈالدیا ادھر اللہ تعالیٰ نے ان کی غذا کا یہ انتظام کیا کہ ایک پہاڑی بکری کو حکم دیا کہ دونوں وقت ان کو دودھ پلادیا کرے چناچہ بکری حکم کے مطابق دونوں وقت دودھ پلاتی رہی یہاں تک کہ آپ تندرست ہوگئے۔ (ملخصاً من الجلال فی سورة الصافات بحوالہ جمل) وکذلک ننجی المومنین یعنی جس طرح یونس (علیہ السلام) کو غم اور مصیبت سے نجات دی، اسی طرح ہم سب مومنین کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں جبکہ وہ صدق واخلاق کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہوں، ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ذوالنون کی وہ دعا جو انہوں نے بطن ماہی میں کی تھی یعنی لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین جو مسلمان اپنے کسی مقصد کیلئے ان کلمات کے ساتھ دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قبول فرمائیں گے۔ (رواہ احمد والترمذی والحاکم، مظہری واذکر زکریا حضرت زکریا (علیہ السلام) کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورة طٓہٰ میں گزر چکی ہے، یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی بیوی بانجھ تھیں ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ کرکے اسے ایک نیک بچہ عطا فرمایا، اور اس بات کی طرف اشارہ کردیا کہ قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے مثلاً الحاح وازری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، امید و بیم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع کا اظہار۔ یہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ امۃ سے یہاں دین یا ملت مراد ہے یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین دین توحید ہے جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی ہے اور ملت ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی ہے۔
Top