بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Jalalain - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت نمبر 1 تا 9 ترجمہ : شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ طٰسٓمٓ اس کی مراد اللہ ہی بہتر جانتا ہے یہ یعنی یہ آیات کتاب مبین (یعنی) قرآن کی آیتیں ہیں جو حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی ہیں، اور اٰیٰتُ الکِتابِ میں اضافت بمعنی مِنْ ہے شاید اے محمد آپ تو اس غم کے سبب سے کہ اہل مکہ ایمان نہیں لاتے اپنی جان کھو دیں گے، اور لَعَلَّ کے یہاں اشفاق کے معنی ہے یعنی اس غم میں تخفیف کرکے اپنے اوپر رحم کیجئے، اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں جھک جائیں ظَلَّتْ بمعنی مضارع ہے ای تَدُوْمُ پھر وہ ایمان لے آئیں، جبکہ (وصف) خضوع کی نسبت اعناق کی طرف کی گئی جو کہ (درحقیقت) ارباب اعناق کا وصف ہے، تو وصف خضوع کو ذوالعقول کی جمع کے طور پر لایا گیا اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے کوئی تازہ نصیحت ایسی نہیں آئی جس سے یہ بےرخی نہ کرتے ہوں، مُحدثٍ ذِکرٍ کی صفت کاشفہ ہے تو ان لوگوں نے اس نصیحت کو جھٹلا دیا سو عنقریب ان کے پاس اس بات کا انجام آجائے گا جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے کیا یہ لوگ زمین کو نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس میں کس کثرت سے ہر قسم کے عمدہ گل بوٹے اگائے ؟ بلاشبہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت کی نشانی ہے اور ان میں کے اکثر لوگ مومن نہیں ہیں اللہ کے علم میں اور سیبویہ نے کہا ہے کہ کان زائدہ ہے بلاشبہ آپ کا رب غالب ہے یعنی ایسے غلبہ والا ہے جو کافروں سے انتقام لے گا، رحیم ہے یعنی مومنین پر رحم کرنے والا ہے۔ تحقیق، ترکیب و تفسیری فوائد طٰسٓمٓ عبداللہ بن مسعود کی قرأۃ میں ط، س، م، الگ الگ ہیں۔ قولہ : بَاخِعٌ اسم فاعل (ف) غم یا غصہ کی وجہ سے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا، بَخْعًا حرام مغز تک کاٹ ڈالنا بَخْعٌ حرام مغز لَعَلَّکَ لَعَلَّ حرف ترجی ہے مگر چونکہ یہاں ترجی کے معنی یہ درست ہیں اور نہ مراد لہٰذا لَعَلَّ کو اشفاق کے معنی میں لیا جس کے معنی خوف کے ہیں، اور اللہ تعالیٰ چونکہ خوف سے منزہ ہے اس لئے مخاطب کا خوف مراد ہے، ترجی امر یعنی اَشفِقْ ای ارحم کے معنی میں ہے اس لئے کہ یہاں خوف کی کوئی بات ہی نہیں ہے، اِشفاق (افعال) جب متعدی بمن ہوتا ہے تو خوف کے معنی ہوتے ہیں اور جب متعدی بعلیٰ ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ قولہ : نُنَزِّل، اِنْ حرف شرط ہے اور نشأ فعل شرط ہے اور نُنَزِّلْ جواب شرط ہے۔ قولہ : فَظَلَّتْ فا کے ذریعہ جواب شرط ننزل پر عطف ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے، جبکہ بذریعہ فا ماضی (یعنی ظلت) کا ترتب مضارع یعنی نُنَزَّلْ پر درست نہیں ہے اس لئے ماضی کو مضارع کی تاویل میں کرلیا گیا تاکہ عطف درست ہوجائے۔ قولہ : وَلَمَّا وُصِفَتْ الاعناقُ الخ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال یہ ہے کہ اعناق غیر ذوالعقول کی جمع ہے جو کہ واحد مؤنث کے حکم میں ہے لہٰذا اس کی صفت خاضعۃ آنی چاہیے نہ کہ خاضعین جو کہ جمع مذکر کی صفت ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ خضوع ذوالعقول کی صفت ہے جب اس کی نسبت غیر ذوالعقول کی طرف کردی گئی تو غیر ذوالعقول کو ذوالعقول کا درجہ دیتے ہوئے اس کی صفت جمع مذکر کے صیغہ یعنی واؤ نون کے ساتھ لانا درست ہوگیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول رَأیتُھم لی ساجدین، ایک جواب یہ بھی دیا ہے کہ ظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ معنی میں ظَلَّتْ اَصْحَابُ اَعْناقھم کے ہے، یعنی مضاف محذوف ہے پھر مضاف کو حذف کرکے خبر کو اس کے قائم مقام کردیا۔ قولہ : مِن ذِکرٍ میں من زائدہ ہے اور من الرحمٰن میں من ابتدائیہ ہے۔ قولہ : محدثٍ یہ ذکرٍ کی صفت کا شفہ ہے اس لئے کہ مایاتیھم میں ذکر سے جو معنی حدثی سمجھ میں آتے ہیں اسی معنی کی محدثٍ سے تاکید کی ہے قولہ : اِنّ فی ذٰلک لآیۃ لآیۃ اِنّ کا اسم مؤخر ہے، اور اس پر لام زائدہ ہے، یہ آیت اس سورت میں آٹھ مرتبہ ذکر کی گئی ہے مَا کَانَ اکثرُھُمْ مومنِیْنَ کی تفسیر فی علم اللہ سے کرکے ایک شبہ کا جواب دیا ہے، شبہ یہ ہے کہ آیت کا مقصد کافروں کے آئندہ ایمان نہ لانے کی خبر دیتا ہے تو کان ماضی سے تعبیر کرنا کیسے درست ہے اس کا ایک جواب فی علم اللہ سے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم ازلی میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے اسی کو ماضی سے تعبیر کردیا ہے یہ جواب کان کو اصلی مان کر ہے دوسرا جواب قال سیبویہ سے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کان زائدہ ہے لہٰذا اب آیت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ تنبیہ : وکَانَ قَالَ سیبویہ زائدۃٌ میں ابہام ہے، صحیح تعبیر اس طرح ہونی چاہیے، قال، سیبویہ، کان زائدۃ۔ تفسیر و تشریح سورة شعراء میں بھی دیگر مکی سورتوں کے مانند اصول دین اور عقائد یعنی توحید، رسالت، بعث بعد الموت وغیرہ کو اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور عبادت اصنام کے سلسلہ میں ان کا موقف بیان کرتے ہوئے حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ کے ذریعہ بت پرستی کو خلاف فطرت اور خلاق عقل ثابت کیا ہے، اس سورت میں چونکہ شعراء کے کچھ اوصاف کا ذکر ہے اس لئے اس سورت کا نام سورة شعراء رکھا گیا ہے، مشرکین مکہ چونکہ آپ ﷺ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ یہ شاعر ہے اور جو کچھ بیان کرتا ہے وہ شعر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس پر رد کرتے ہوئے شعراء کی مذمت بایں الفاظ فرمائی ” والشعراء یتبعھم الغاؤون الم تَرَ انَّھُمْ فی کل وادٍ یھیمون وأنھم یقولون مالا یفعلون “۔ طٰسٓمٓ تلک ایت الکتاب المبین یعنی اس کا اعجاز کھلا ہوا ہے اور احکام واضح ہیں اور یہ کتاب حق و باطل میں واضح طور پر امتیاز کرنے والی ہے، اور ان بدبختوں کے غم میں خود کو اس قدر گھلانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی فکر میں آپ اپنی جان ہلاک کر ڈالیں، دلسوزی اور شفقت کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے لَعَلَّکَ باخِعٌ الخ اگرچہ صورۃً جملہ خبر یہ ہے مگر حقیقت میں نہی کے معنی میں ہے، علامہ عسکری نے فرمایا کہ اس جیسے مقامات میں اگرچہ صورت جملہ خبریہ کی ہے مگر حقیقت میں مراد اس سے نہی ہے، مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر، اپنی قوم کے کفر اور اسلام سے انحراف کے سبب اتنارنج و غم نہ کیجئے کہ جان ہی گھلنے لگے۔ وان نشا۔۔۔۔۔ خاضعین علامہ زمخشری نے فرمایا کہ اصل کلام فَظَلُّوْا لَھَا خَاضِعِیْنَ ہے یعنی کفار اس بڑی نشانی کو دیکھ کر تابع ہوجائیں اور جھک جائیں، لیکن یہاں اعناق کا لفظ یہ ظاہر کرنے کے لئے لایا گیا ہے کہ موضع تواضع ظاہر ہوجائے، اس لئے کہ عاجزی اور تواضع کا اثر پہلے گردن پر ظاہر ہوتا ہے، شیخ سعدی (رح) نے بھی اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : تواضع زگردن فرازاں نکوست گداگر تواضع کند خوئے اوست خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا ابتلا اور آزمائش کا گھر ہے جہاں بندوں کو اختیار تمیزی دیکر بندوں کے انقیاد اور تسلیم کو آزمایا جاتا ہے، اسی لئے حکمت الٰہی متقاضی نہیں کہ ان کا اختیار بالکل سلب کرلیا جائے، ورنہ اگر خدا چاہتا تو کوئی ایسا آسمانی نشان ظاہر فرماتا کہ اس کے آگے زبردستی سب کی گردنیں جھک جاتیں، جیسا کہ بنی اسرائیل کے سروں پر پہاڑ کو معلق و مسلط کردیا تھا، مگر ایسا اس لئے نہیں کیا کہ حکمت خداوندی اس بات کی متقاضی تھی کہ یہ احکام اور معارف بدیہی نہ ہوں بلکہ نظری رہیں تاکہ انسان ان میں غور و فکر کریں اور یہی غور و فکر انسان کی آزمائش ہے اور اسی پر ثواب و عقاب مرتب ہوتا ہے، بدیہی چیزوں کا اقرار تو ایک طبعی اور ضروری امر ہے، اس میں تعبد اور اطاعت کی شان نہیں۔ (معارف ملخصاً )
Top