بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
ط۔ س۔ م
طٰسٓمّٓ۔ تِلْکَ اٰیٰتُ الْـکِتٰبِ الْمُبِیْنِ ۔ (الشعرآء : 1، 2) (ط۔ س۔ م) یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ ) یہ کتاب خود اپنی حقانیت کی دلیل ہے بعد میں آنے والی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار آنحضرت ﷺ کے تبلیغی مشن کو ناکام کرنے کے لیے کبھی آپ کو شاعر یا کاہن قرار دیتے اور اس سے یہ تصور دینا چاہتے کہ جس طرح کاہنوں کی باتیں الجھی ہوئی اور ناقابلِ فہم ہوتی ہیں اسی طرح تمہاری باتیں بھی ہماری سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اور کبھی آپ سے نئی نئی نشانیوں کا مطالبہ کرتے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے رسول ہو تو ہمیں یہ یہ حیرت انگیز کارنامے دکھائو جس کی تفصیل متعدد، مواقع پر گزر چکی ہے۔ چناچہ ان دونوں باتوں کے رد کے لیے اس سورة کی پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں۔ مبین کا معنی ہے خود روشن یا دوسری چیزوں کو روشن کرنے والی۔ یعنی اس کتاب کی بنیادی صفت یہ ہے کہ یہ اپنی ذات میں ایک روشن کتاب ہے جس کی کوئی بات الجھی ہوئی نہیں۔ اس کی زبان فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہے۔ اس نے اپنی دعوت کے ہر پہلو کو گوناگوں اسلوبوں سے مدلل و مبرہن کردیا ہے۔ کون سی ایسی گرہ ہے جسے اس کتاب نے نہیں کھولا، کون سا ایسا عقدہ ہے جس کا حل قرآن نے پیش نہیں کیا۔ ایسی کتاب پیش کرنے والے کو شاعر قرار دینا یا کاہن کہنا حقیقت کا خون کرنے کے مترادف ہے۔ اگر نشانی ہی کی طلب ہو تو اس کتاب سے بڑھ کر اور نشانی کیا ہوسکتی ہے۔ اس کتاب کو پیش کرنے والا امی قوم کا فرد، امی ماحول میں پروان چڑھنے والا اور خود اپنی ذات میں امی ہے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا، جس نے زندگی بھر کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیے، جو کبھی کسی لائبریری میں نہیں گیا اور جائے بھی تو امی ہونے کی وجہ سے علمی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے وہ کتاب پیش کی ہے جس کا ایک ایک لفظ اپنے اندر اعجازی شان رکھتا ہے۔ اس نے ان علمی اسرارورموز کی گرہیں کھولی ہیں جن کے سامنے دنیا کی عقل و خرد سپرانداز ہوچکی تھی۔ اس نے وہ علمی محاکمے کیے ہیں جو آج تک کوئی نہ کرسکا۔ اس نے تاریخی صداقتوں کو مبرہن کیا ہے اور تاریخی خیانتوں کو پکڑا ہے۔ اس نے ایک ایسا مربوط نظام زندگی دیا ہے جس میں کہیں تضاد نہیں پایا جاتا۔ اور جس کی کوئی بات علمی مسلمات سے متصادم نہیں۔ یہ وہ نشانی ہے جو ہدایت حاصل کرنے والے کے لیے اپنے اندر ہدایت کا بیش بہا سامان رکھتی ہے۔ ایسی نشانی کی موجودگی میں کسی اور نشانی کی کیا ضرورت ہے۔
Top