بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
(طسم۔ تلک ایت الکتب۔۔۔۔ ) طسم۔ اعمش، یحییٰ ، ابو بکر، مفصل، حمزہ، کسائی اور خلف نے اس سورت اور اس جیسی سورتوں میں طاء کو امالہ اور اشباع کے ساتھ پڑھا ہے۔ نافع، ابو جعفر، شیبہ اور زہری نے دو لفظوں کے درمیان پڑھا ہے : ابو عبیدہ اور حاتم نے اسے پسند کیا ہے۔ باقی قراء نے فتحہ کے ساتھ اشباع کی صورت میں پڑھا ہے۔ ثعلبی نے کہا : یہ تمام فصیح لغتیں ہیں۔ سورة طہٰ میں نحاس کا قول اس بارے میں گزر چکی ہے، نحاس نے کہا : مدینہ طیبہ کے قاریوں، ابو عمرو، عاصم اور کسائی نے طسم نون کو میم میں ادغام کرتے ہوئے پڑھا ہے۔ فراء نے نون کے اخفاء کے ساتھ کہا اعمش اور حمزہ نے طسین میم، نون کے اظہار کے ساتھ قرأت کی۔ نحاس نے کہا : سیبویہ کے نزدیک نون ساکنہ اور تنوین کی چار قسمیں ہیں حروف حلقیہ کے وقت ان کو واضح کیا جاتا ہے۔ راء، لام، میم، وائو اور یاء کے وقت ادغام کیا جاتا ہے، یاء کے وقت میم سے قلب کیا جاتا ہے یہ دونوں خیاشیم سے ہیں یعنی دونوں کو واضح نہیں کیا جاتا۔ یہ چار اقسام جن کی وضاحت سیبویہ نے کی ہے یہ قرأت جائز نہیں کیونکہ یہاں حروف حلقیہ نہیں کہ اس کے ساتھ نون کو واضح کیا جائے لیکن اس میں ایک چھوٹی سی توجیہ ہے وہ یہ ہے کہ حروف معجم کا حکم یہ ہے کہ ان پر وقف کیا جائے۔ جب ان پر وقف کیا جائے گا تو نون واضح ہوجائے گی۔ ثعلبی نے کہا : ادغام ابو عبیدہ اور ابو حاتم کا اختیار ہے وہ تمام قرآن پر قیاس کرتے ہیں۔ ان قراء نے تبیین اور تمکین کے لیے اس میں اظہار کیا ہے اور ان علماء نے حروف ضم کی مجاورت کی وجہ سے ادغام کیا ہے۔ نحاس نے کہا : ابو اسحاق نے اپنی کتاب فیما یجری و فیما لا یجری، میں حکایت بیان کی یہ کہنا جائز ہے : طسین میم نون کو فتحہ اور میم کو ضمہ دیا جائے جس طرح یہ کہا جاتا ہے۔ ھذا معدی کرب۔ ابو حاتم نے کہا : خالد نے طسین میم قرأت کی۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : طسم یہ قسم ہے یہ اللہ تعالیٰ کے آسماء میں سے ایک اسم ہے، مقسم علیہ ان نشاء تنزیل علیھم من السما آیۃ ہے۔ قتادہ نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے قرآن کے اسماء میں سے ایک اسم ہے۔ مجاہد نے کہا : یہ سورت کا نام ہے سورت کا آغاز اچھا ہے۔ ربیع نے کہا : قوم کی مدت کا حساب ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عذاب ہے جو ایک قوم پر واقع ہوگا۔ طسم اور طس ایک ہے۔ کہا : وفائو کما کا لریح اشجاہ طاسمہ بان تسعدا والذمع اشفاہ ساجمعہ تم دونوں کی وفا کہ تم رونے کے ساتھ مدد کرو گھر کے ماحول کی طرح ہے اس کے آثار کا مٹانا عاشق کے لیے زیادہ غم دینے والا ہے بہنے والے آنسو اسے زیادہ شفاء دینے والے ہیں۔ قرظی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و رفعت اور ملک کی قسم اٹھائی۔ عبد اللہ بن محمد بن عقیل نے کہا : طاء سے مراد طور سینا، سین سے مراد اسکندیہ اور میم سے مراد مکہ ہے۔ جعفر بن محمد بن علی نے کہا : طاء سے مراد طوبی کا درخت ہے، سین سے مراد سدرۃ المنتہیٰ ہے اور میم سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں۔ ایک قول یہ کہا گیا ہے : طاء، طاہر سے اور سین قدوس سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سین سمیع سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : سلام سے ہے اور میم مجید سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ رحیم سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ملک سے ہے۔ سورة بقرہ کے آغاز میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ طواسیم اور طواسین قران میں سورتیں ہیں جن کی جمع غیر قاسی ہے۔ ابو عبیدہ نے شعر پڑھا۔ وبا الظواسیم التی قد ثلثت وباالحوامیم التی قد سبعت طواسیم تین سورتیں ہیں اور جوا امیم جو سات ہیں۔ جوہری نے کہا : صحیح یہ ہے، وات کے ساتھ جمع بنائی جائے اور واحد کی طرف مضاف کیا جائے، پس کہا جاتا ہے : ذوات غسم، ذوات حم۔ تلک آیت الکتب المبین مبتداء کے مضمر ہونے کے ساتھ اس کو رفع دیا جائے وہ ھذہ ہے، یہ کتاب مبین کی وہ آیات ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا گیا کیونکہ تورات اور انجیل میں ان سے قرآن کے نزول کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تلک، ھذہ کے معنی میں ہے۔ لعنک باخع نفسک اپنے نفس کو قتل کرنے والا اور اسے ہلاک کرنے والا ہے۔ سورة کہف میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ الا یکونوا مومنین کیونکہ انہوں نے ایمان کو ترک کردیا۔ فراء نے کہا : ان محل نصب میں ہے کیونکہ یہ جزاء ہے۔ نحاس نے کہا : یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ہمزہ کے نیچے کسرہ ہے کیونکہ یہ جزا ہے متعارف یہی ہے اس میں قول وہی ہے جو ابو اسحاق نے اپنی کتاب جو قرآن کی تفسیر کے متعلق ہے میں کیا ہے : ان محل نصب میں ہے مفعول لا جلہ ہونے کی وجہ سے منصوب ہے یعنی ہے ممکن ہے آپ اپنے نفس کو ہلاک کر ڈالیں کیونکہ انہوں نے ایمان کو ترک کیا ہے۔ ان شاننزل علیھم من السماء ایتۃ ایۃ سے مراد ظاہر معجزہ اور غالب قدرت ہے۔ تو ان کی معلومات بدیہی ہوجاتیں، لیکن پہلے فیصلہ ہوچکا تھا کہ معارف نظر یہ ہوں گے۔ ابو حمزہ ثمالی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اس آیت کی آواز ہے جو رمضان شریف کی نصف کو آسمان سے سنی جاتی ہے، کنواری عورتیں گھروں سے نکل آتی ہیں اور زمین اسکے لیے چیختی ہے۔ یہ قول حقیقت سے بعید ہے، کیونکہ مراد قریش ہیں ان کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ فظلت اعنا قھم لھا خضعین ان کی گردنیں ان کے آگے جھکی ہوتی ہیں۔ مجاہد نے کہا : اعناقھم سے مراد ان کے بڑے لوگ ہیں۔ نحاس نے کہا : اور لغت میں معروف ہے، یوں کہا جاتا ہے : جاءنی عنق من الناس میرے پاس لوگوں میں سے رئوسا آئے۔ ابو زید اور خفش نے کہا : اعناقھم سے مراد ان کی جماعتیں ہیں : یہ جملہ بولا جاتا ہے جاعن نق من الناس میرے پاس لوگوں کی جماعت آئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اصحاب اعناق کا ارادہ کیا مضاف کو حذف کیا اور مضاف الیہ کو اس کے قائم مقام کھا۔ قتادہ نے کہا : معنی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ایک آیت نازل کرتا جس کے سامنے وہ عاجزی کا اظہار کرتے تو ان میں سے کوئی بھی اپنی گردن معصیت کی طرف نہ پھیرتا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ آیت ہمارے اور بنی امیہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان پر ہماری حکومت ہوگی اور حضرت معاویہ کے بعد ان کی گردنیں ہماری سامنے جھکی ہوں گی : اسے ثعلبی اور غزنوی نے ذکر کیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ خاضعین اور خاضعۃ یہاں برابر ہیں، یہ عیسیٰ بن عمر نے کہا : اور مبرد نے اسے پسند کیا معنی ہے جب ان کی گردنیں ہوگئیں تو وہ بھی ذلیل ہوگئے، گردنوں کے بارے میں خبر ہے۔ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ پہلے کی خبر کو ترک کردیا جائے اور دوسرے کی خبر دی جائے۔ راجز نے کہا : طول اللیالی اسرعت فی نقض طوین طولی و طوین عزضی لسرعت یہ اللیالی کی خبر ہے اور طول کی خبر کو ترک کردیا گیا ہے۔ جریر نے کہا : اری مر السنین اخذن منی کما اخذ السرار من الھلال میں دیکھتا ہوں سالوں کے گزرنے نے مجھ حصہ لیا جس طرح سرار ہلال سے حصہ لیتا ہے۔ محل استدلال اخذن ہے۔ یہ جائز ہے کیونکہ مر اور طول کا لفظ کلام سے حذف ہوتا ہے تو اس کا معنی فاسد نہ ہوتا، اسی طرح فعل کو غیر کی طرف لوٹانا ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں :” فظلت اعناقھم “ کیونکہ اگر اعناق کا لفظ ساقط کردیا جاتا تو کلام فاسد نہ ہوتی اور باقی ماندہ کلام اس معنی کو ادا کردیتی یہاں تک کہ ارشاد ہوتا : فظلوالھا خاضعین۔ فراء اور ابو عبیدہ نے اسی پر اعتماد کیا۔ کسائی اس طرف گئے ہیں کہ معنی یہ ہے کہ خاضعیھا ھم بصریوں اور فراء کے نزدیک یہ خطا ہے اس قسم کا حذف کلام میں واقع نہیں ہوتا، یہ نحاس نے کہا۔ وما یاتیھم من ذکر من الرحمن محدث الا کانو عنہ معرضین سورة الانبیاء میں بحث گزر چکی ہے۔ فقد کذبوا یعنی انہوں نے اعراض کیا اور جو کسی چیز سے اعراض کرتا ہے اور اسے قبول نہیں کرتا تو وہ اس کی تکذیب میں ہوتا ہے۔ فسیایتھم انبوا ما کانوا بہ یستھزون یہ ان کے لیے وعید ہے جو انہوں نے جھٹلایا اور جو انہوں نے استہزاء کی اس کی سزا نہیں ضرور پہنچے گی۔ اولم یروا الی الارض کم انبتنا فیھا من کل زوج کریم اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور قدرت پر متنبہ کیا اگر وہ اپنے دلوں سے غور و فکر کرتے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو انہیں علم ہوجاتا تاکہ وہ ہی عبادت کا مستحق ہے کیونکہ وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ زوج سے مراد قسم ہے، یہ فراء نے کہا : کریم سے مراد حسن شریف ہے : لغت میں کرم سے مراد شرف و فضل ہے۔ نخلۃ کریمۃ سے مراد ہے ایسا کھجور کا درخت جو اعلیٰ نسل کی ہو اور زیادہ پھل والی ہو۔ رجل کریم سے مراد شریف، فاضل اور در گزر کرنے والا۔ نبتت الارض اور انبتت الارض دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ سورة بقرہ میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہ نکالنے والا اور اگلانے والا ہے۔ امام شعبی سے مروی ہے فرمایا : لوگ زمین کی نباتات ہیں ان میں سے جو جنت میں چلا گیا وہ کریم ہے اور جو جہنم کی طرف چلا گیا تو وہ الئیم ہے۔ ان فی ذلک لایۃ زمین میں انبات کا جو ذکر فرمایا اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کوئی چیز اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ وما کان اکثر ھم مومنین ان میں سے اکثر تصدیق کرنے والے نہیں کیونکہ ان کے بارے میں مجھے پہلے سے علم ہے سیویہ کا قول ہے کان زائدہ ہے اس کی تقدیر کلام یہ ہے : وما اکثرھم مومنین۔ وان ربک لھو العزیز الرحیم عزیز سے مراد ہے وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے والا ہے اور اپنے اولیاء پر رحم فرمانے والا ہے۔
Top