بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 1
طٰسٓمّٓ
طٰسٓمّٓ : طا۔ سین۔ میم
طسم
ذکر حقانیت کتاب مبین و تہدید معاندین و مستہزئین قال اللہ تعالیٰ طسم تلک ایت الکتب المبین .... الیٰ .... وان ربک لھو العزیز الرحیم۔ (ربط) گزشتہ سورت کا آغاز حقانیت قرآن سے ہوا اور اختتام مکذبین کی وعید پر ہوا اسی طرح اس سورت کا آغاز حقانیت قرآن اور مکذبین کی وعید اور تہدید سے فرماتے ہیں طسم واللہ اعلم بمرادہ۔ یہ آیتیں ہیں روشن کتاب کی جس کا اعجزا اور سرچشمہ ہدایت ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اے نبی اگر یہ بدنصیب ایمان نہیں لاتے تو آپ ﷺ ان کے غم میں کیوں گھٹے جاتے ہیں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید آپ اپنی جان کو اس گھٹن میں ہلاک کردیں کہ یہ لوگ ایمان لانے والے کیوں نہیں بنتے جو شخص اپنے خویش و اقارب کو آگ میں گرتا ہوا دیکھے تو لامحالہ اس کا دل بےچین ہوجائیگا۔ اسی طرح اللہ کا نبی جب یہ دیکھتا کہ یہ لوگ کفر کرکے جہنم میں گر رہے ہیں تو بےاختیار دل پر صدمہ ہوتا تو آپ ﷺ کو تسلی کے لیے یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ آپ ﷺ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ نہ ہوں۔ اللہ کا ارادہ اور اس کی مشیت یہ نہیں کہ سب ایمان لے آئیں۔ ولو شاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا۔ لہٰذا آپ ﷺ اس حسرت میں اپنے آپ ﷺ کو ہلاک نہ کریں۔ فلا تذھب نفسکم علیہم حسرات۔ فلعلک باخع نفسک علی اثارھم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفاہ بیشک بمقتضائے شفقت و رحمت دل ثاہتا ہے لیکن ایمان لانے پر مجبور کردینا وہ آپ ﷺ کے اختیار میں نہیں وہ ہمارے اختیار میں ہے اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے اپنے جلال اور قہر کی کوئی نشانی اتار دیں پھر ان کشوں کی گردنیں اس نشانی کے سامنے جکھی ہی رہیں۔ یعنی ان کو مان لیں اور اس سے گردنین نہ پھیر سکیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ایسی نشانی نازل کردیں کہ اس کو دیکھ کر ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں لیکن قضائے الٰہی جاری ہوچکی ہے کہ ایسی نشانی نازل نہیں کہ جائے گی جو ایمان کے ساتھ متعلق نہیں ہوئی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ کا ان کے ایمان کی حرص اور طمع میں پڑنا بےسود ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے عناد کا حال یہ ہے کہ ان کے پاس خدائے رحمن کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آتی ہے تو یہ لوگ قرآن کو اور رسول کو جھٹلاچکے ہیں اور اس کو کھیل اور تمسخر بنا چکے ہیں اور اپنی تکذیب پر مصر ہیں پس عنقریب ان کے پاس اس چیز کی حقیقت ان کے سامنے آجائے گی جس کی یہ ہنسی اڑایا کرتے تھے یعنی ان کو اپنے استہزاء اور تمسخر کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اور اگر ان لوگوں کو خدا کی وحدانیت اور کمال عظمت وقدرت میں کوئی تردد ہے تو کیا ان ہنسی اڑانے والوں نے زمین کی طرف نظر نہیں کی کہ ہم نے محض اپنی قدرت سے ہر قسم کے عمدہ اور قابل قدر گھاس اگائے ہیں۔ کسی مادہ یا ایتھر میں یہ قوت نہیں کہ وہ زمین سے مختلف قسم کے گھاس اگا سکے یہ سب خداوند کریم کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے ان انواع و اقسام کو پیدا کیا۔ بیشک زمین سے اس طرح اگانے میں اللہ کے کمال قدرت و حکمت کی بڑی عظیم الشان نشانی ہے جو ہر وقت ان کی نظروں کے سامنے ہے۔ اسی طرح کہ خدا تعالیٰ کو قدرت ہے کہ تمہاری زمین قلب میں جو استہزاء کا تخم موجود ہے، اللہ تعالیٰ اس خبیث تخم سے تمہارے لئے ذلت اور مصیبت کا کوئی درخت پیدا کر دے جیسے تخم کے مطابق زمین سے قسم قسم کی چیزیں ظاہر ہوتی ہیں اسی طرح ان کی زمین قلب سے ان کے عقائد اور اعمال کے مناسب نتائج ظاہر ہوتے ہیں اور خدا کی قدرت کی یہ نشانی نظروں سے مخفی نہیں و لیکن ان معاندین میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں اللہ کے علم میں وہ قطعی کافر ٹھہر چکے ہیں اور بیسک تیرا پروردگار بڑا غالب اور قاہر ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ کافروں پر کوئی بلا نازل کرے اور اپنے پیغمبروں کے دشمنوں سے انتقام لے اور وہ اپنے دوستوں پر بڑا مہربان ہے کہ باوجود بےسروسامانی کے ان کو عزت اور غلبہ دے لہٰذا جب حقیقت حال یہ ہے تو آپ ﷺ اللہ پر بھروسہ رکھیں اور کافروں کے کفر کو اللہ کی حکمت اور اس کی مشیت کے حوالہ کریں اور ان پر کچھ غم اور حسرت نہ کریں۔ اس کے بعد آپ کی تسلی کے لیے سات پیغمبروں کے قصے بیان کرتے ہیں کہ ان معاندین کا حال پہلی قوموں کے معاندین جیسا ہے ان کو کیسی ہی نشانیاں دکھلاؤ یہ لوگ ہرگز ایمان لانے والے نہیں لہٰذا آپ ﷺ ان کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ اور غمگین نہ ہوں۔ (1) حضرت نوح (علیہ السلام) نہایت درجہ کے صاحب صبر و تحمل تھے۔ (2) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صاحب جود و کرم تھے اور اللہ کے عشق اور محبت میں فنا تھے۔ (3) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) اصحاب شکر میں سے تھے کہ اللہ کی ظاہری اور باطنی اور دینی اور دنیاوی نعمتیں ان پر مبذول ہوئیں مگر باوجود اس کے وہ شکر خداوندی میں غرق رہے اور منعم حقیقی سے غافل نہ ہوئے۔ اور حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام اصحاب زہد میں سے تھے اور نفس اور شہوت پر غالب اور قاہر تھے اور دنیائے حلال سے بھی کنارہ کش تھے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) شکر اور صبر دونوں کے جامع تھے۔ ضراء میں صبر کیا اور سراء میں شکر کیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) صاحب تفرع و تخشع تھے۔ بارگاہ خداوندی میں گریہ وزاری اور توجہ اور مراقبہ اور ذکر و تسبیح ان کی خاص شان تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) صاحب جاہ و جلال اور صاحب ہمت و شجاعت تھے بارگاہ خداوندی میں ان کو خاص وجاہت اور قرب خاص اور اختصاص حاصل تھا۔ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) فصاحت و بلاغت کے ساتھ صاحب رفق ولین بھی تھے مزاج میں غایت درجہ نرمی تھی اور ہمارے نبی اکرم سرور عالم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ تمام فضائل و کمالات کے جامع تھے۔ فبلغ العلم فیہ انہ بشر وانہ خیر خلق اللہ کلہم اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو معجزات عطاء فرمائے جو ان کی نبوت کی دلیل بنے اور ان کی صداقت اور امانت کے شاہد اور گواہ بنے مگر انبیاء سابقین کے معجزات ان کی نفس نبوت کے علاوہ تھے جو ان کی نبوت کی دلیل اور برہان تھے اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نیجو معجزات عطاء کیے وہ بھی اکثر و پیشتر اسی قبیل سے تھے کہ آپ ﷺ کے دعوائے نبوت کی دلیل اور برہان تھے مگر معجزہ قرآن (جس کا ذکر سے اس سورت کا آغاز ہوا) جو آپ ﷺ کو عطاء ہوا اور عین نبوت بھی تھا اور دلیل نبوت بھی تھا دیگر معجزات گزر گئے مگر معجزہ قرآن اور علیٰ ہذا معجزہ شریعت وہ تاہنوز اسی طرح باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
Top