Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 23
قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَ١ۚ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ١ۚ۬ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
قَالَ : کہا رَجُلٰنِ : دو آدمی مِنَ الَّذِيْنَ : ان لوگوں سے جو يَخَافُوْنَ : ڈرنے والے اَنْعَمَ اللّٰهُ : اللہ نے انعام کیا تھا عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر ادْخُلُوْاعَلَيْهِمُ : تم داخل ہو ان پر (حملہ کردو) الْبَابَ : دروازہ فَاِذَا : پس جب دَخَلْتُمُوْهُ : تم داخل ہوگے اس میں فَاِنَّكُمْ : تو تم غٰلِبُوْنَ : غالب اؤ گے وَعَلَي اللّٰهِ : اور اللہ پر فَتَوَكَّلُوْٓا : بھروسہ رکھو اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اس پر جو لوگ خدا سے ڈرنے والے تھے ان میں سے ان دو شخصوں نے جن پر خدا نے انعام کیا تھا بنی اسرائیل سے یوں کہا ہم ان لوگوں پر چڑھائی کر کے شہر کے دروازے میں گھس جائو، پھر جب تم دروازے میں داخل ہو جائو گے تو یقین مانو کہ تم ان پر غالب آ جائو گے اور اگر تم مومن ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھو ۔1
1 بنی اسرائیل کے اس خشک جواب پر ان دو شخصوں نے جو اللہ کا خوف رکھتے تھے اور متقیوں میں سے تھے اور جن پر اللہ تعالیٰ نے نوازش فرمائی تھی ان دونوں نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم ان پر چڑھائی کر کے شہر کے دروازے سے گھس جائو پھر جب تم شہر کے دروازے میں داخل ہو جائو گے۔ اور دروازے کا محاصرہ کرلو گے تو یقین جانو ! کہ تم ان پر غالب آ جائو گے اور اگر تم ایمان رکھتے ہو تو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھو۔ (تیسیر) ان دو شخصوں سے مراد بظاہر کالب اور یوشع ہیں جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ ان بارہ سرداروں میں سے دوسردار اپنے عہد پر قائم رہے اور انہوں نے جبابرہ کی قوت و شوکت کا اظہار نہیں کیا انہی کو فرمایا ہے کہ وہ دونوں متقی اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ نے نوازش فرمائی تھی اور ان کو ثابت قدم رکھا تھا ان دونوں نے حضرت موسیٰ کی تائید کرتے ہوئے بنی اسرائیل کو سمجھایا کہ تم ایک دفعہ ہمت کر کے شہر پناہ کے دروازے تک پہنچ جائو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے اور تم کس طرح ان پر غالب آجاتے ہو اور ان دونوں نے یہ یقین اس لئے دلایا کہ یا تو ان کو دشمن کی حالت معلوم ہوگی کہ ان کے جسم تو بڑے موٹے تازے ہیں لیکن دل کمزور ہیں اور یا تدبیر کے طور پر یہ رائے دی ہوگی کہ جب تم دروازے پر قبضہ کرلو گے اور وہ محصور ہوجائیں گے تو بہت جلدی ہتھیار ڈال دیں گے اور یا اس توقع پر کہا کہ دروازے پر قبضہ ہوتے ہی پھر معمولی سی لڑائی ہوگی اور تم غالب آ جائو گے یا اس امید پر کہا ہو کہ حضرت موسیٰ ہمارے ساتھ ہیں اور یہ امید دلا رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے یہ ملک لکھ چکا ہے تو پیغمبر کا فرمایا ٹل نہیں سکتا۔ یہ لوگ ضرور غالب ہوجائیں گے بس صرف اتنی بات ہے کہ پیغمبر کے حکم کی تعمیل کے لئے آمادہ ہوجائیں اور بڑھ چلیں اور حملہ کرنے کی نیت سے دروازے تک پہنچ جائیں پھر ضرور ان کی مدد ہوگی۔ اگر تم ایمان رکھتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے وعدے پر ایمان رکھتے ہو اور موسیٰ اور ہارون کی تصدیق کرتے ہو تو دشمن کی جانب نہ دیکھو بلکہ اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دو شخصوں سے مراد کوئی اور دو آدمی ہوں اور یخافون کا یہ مطلب ہو کہ جو لوگ دشمنوں سے ڈر رہے تھے اور خوف کھا رہے تھے انہی میں سے دو آدمی جن کو اللہ نے اپنی توفیق سے نوازا تھا وہ بول اٹھے کہ تم گھبرائو نہیں بلکہ تم پیغمبر کے ارشاد کی تعمیل میں نکل کھڑے ہو اور دروازے تک پہنچ جائو پھر تم ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور تمہاری فتح ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دو شخصوں سے مراد عمالقہ کی قوم کے دو آدمی ہوں جو مسلمان ہوگئے ہو اور انہوں نے یہ امید دلائی ہو کہ ہم اپنی قوم کی حالت سے خوف واقف ہیں اگر تم نے ایک دفعہ بڑھ کر شہر کے دروازے پر قبضہ کرلیا اور شہر کو گھیر لیا تو یقین مانو ! کہ وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور شکست قبول کرلیں گے۔ (واللہ اعلم) بہر حال بنی اسرائیل نے ان دونوں متقی اور پرہیز گار آدمیوں کے کہنے کی بھی کچھ پروا نہیں کی بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں آدمیوں کو سنگسار کرنے اور پتھر مارنے پر آمادہ ہوگئے اور حضرت موسیٰ کو نہایت بےاعتنائی کے ساتھ گستاخانہ جواب دیا جو آگے بیان ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top