Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
فِیْ
: میں
رَيْبٍ
: شک
مِمَّا
: سے جو
نَزَّلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَىٰ عَبْدِنَا
: اپنے بندہ پر
فَأْتُوْا
: تولے آؤ
بِسُوْرَةٍ
: ایک سورة
مِنْ ۔ مِثْلِهِ
: سے ۔ اس جیسی
وَادْعُوْا
: اور بلالو
شُهَدَآءَكُمْ
: اپنے مدد گار
مِنْ دُوْنِ اللہِ
: اللہ کے سوا
اِنْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی اور بلاؤ ان کو جو تمہارا مددگار ہو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو
رسالت محمدی کا اثبات
بذریعہ اعجاز قرآن
وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ 23 فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ
خلاصہ تفسیر
اگر تم لوگ کچھ خلجان میں ہو اس کتاب کی نسبت جو ہم نے نازل فرمائی ہے اپنے بندے خاص پر تو پھر تم بنا لاؤ ایک محدود ٹکڑا جو اور اس کا ہم پلہ ہو (کیونکہ تم بھی عربی زبان جانتے ہو اور اس کی نظم ونثر کے مشاق ہو پیغمبر ﷺ نے اس کی کوئی مشق بھی نہیں کی، اور جب اس کے باوجود تم قرآن کے ایک ٹکڑے کی بھی مثل نہ بنا سکو تو بشرط انصاف بےتامل ثابت ہوجاوے گا کہ یہ معجزہ منجانب اللہ ہے اور آپ اللہ کے پیغمبر ہیں) اور بلالو اپنے حمائیتیوں کو (جو) خدا سے الگ (الگ تجویز کر رکھے ہیں) اگر تم سچے ہو پھر اگر تم یہ کام نہ کرسکو اور قیامت تک بھی نہ کرسکو گے تو پھر ذرا بچتے ہوئے دوزخ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں تیار رکھی ہوئی ہے کافروں کے واسطے،
معارف و مسائل
؛
ربط آیات
و خلاصہ مضمون
یہ سورة بقرہ کی تیئیسویں اور چوبیسویں آیتیں ہیں اس سے پہلی دوآیتوں میں توحید کا ثبوت تھا ان دونوں آیتوں میں رسالت محمدی کا اثبات ہے (علیہ الصلوٰم والسلام) وہ ہدایت جو قرآن لے کر آیا ہے اس کے دو عمود ہیں، توحید اور رسالت، پہلی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے چند مخصوص کام ذکر کے توحید ثابت فرمائی گئی ہے اور طریق اثبات دونوں کا ایک ہی ہے کہ پہلی دو آیتوں میں چند ایسے کام مذکور تھے جو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی نہیں کرسکتا مثلا زمین اور آسمان کا پیدا کرنا، آسمان سے پانی اتارنا، پانی سے پھل پھول پیدا کرنا،
اور خلاصہ استدلال یہ تھا کہ جب یہ کام اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا نہیں کرسکتا تو مستحق عبادت بھی اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا اور ان دونوں آیتوں میں ایک ایسا کلام پیش کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نہیں ہوسکتا، اور نہ کوئی انسانی فرد یا جماعت اس کی مثال ونظیر لاسکتی ہے جس طرح زمین و آسمان کی بناوٹ، پانی برسانے اور اس سے پھل پھول نکالنے سے انسانی طاقت پیش کانے سے پوری مخلوق کا عاجز رہنا اس کی دلیل ہے کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہے کسی مخلوق کا نہیں اس آیت میں قرآن نے پوری دنیا کے انسانوں کو خطاب کرکے چیلنج دیا ہے کہ اگر تم اس کلام کو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی انسان کا کلام سمجھتے ہو تو تم بھی انسان ہو تمہیں بھی ایسا کلام پیش کرنے پر قدرت ہونا چاہئے پورا کلام تو کیا تم اس کلام کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کی نظیر و مثال بنا کر دکھلا دو اور اس پر تمہارے لئے یہ مزید آسانی دی جاتی ہے کہ تنہا کوئی آدمی نہ بنا سکے تو تمہیں اختیار ہے سارے جہان سے اپنے حمایتی اور مددگار جمع کرلو اور ایک بین العالمی کانفرنس کر کے اس قرآن کی چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لاؤ،
پھر اسی پر بس نہیں کیا دوسری آیت میں ان کو غیرت دلائی کہ تمہاری مجال نہیں کہ اس جیسی ایک سورت بناسکو، پھر عذاب سے ڈرایا کہ جب تم اس کلام کی مثال بنانے سے اپنا عجز محسوس کرتے ہو، اور یہ صاف اس کی دلیل ہے کہ انسان کا کلام نہیں بلکہ ایسی ہستی کا کلام ہے جو تمام مخلوق سے مافوق اور بلند وبالا ہے جس کی قدرت کاملہ سب پر حاوی ہے تو پھر اس پر ایمان نہ لانا اپنے ہاتھوں جہنم میں اپنا ٹھکانہ کرنا ہے اس سے بچو۔
حاصل یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں قرآن کریم کو رسول اللہ ﷺ کا اعلیٰ معجزہ بتلا کر آپ کی رسالت اور سچائی کا ثبوت پیش کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ کے معجزات تو ہزاروں ہیں اور بڑے بڑے حیرت انگیز ہیں لیکن ان سب میں سے اس جگہ آپ کے علمی معجزے یعنی قرآن کریم کے ذکر پر اکتفاء کر کے یہ بتلا دیا گیا کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ قرآن ہے اور اس معجزہ انبیاء (علیہم السلام) عام معجزات میں بھی ایک خاص امتیاز یہ حاصل ہے کہ عام دستور یہ ہے کہ ہر نبی و رسول کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے کچھ معجزات ظاہر فرماتے ہیں مگر یہ معجزات ان رسولوں کے ہاتھوں ظاہر ہوتے ہیں انھیں کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں مگر قرآن کریم ایک ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے،
وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ لفظ ریب کا ترجمہ اردو میں شک کا کیا جاتا ہے مگر امام راغب اصفہانی نے فرمایا کہ درحقیقت ریب ایسے تردد اور وہم کو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد کوئی نہ ہو، ذرا غور کرنے سے رفع ہوجائے اسی لئے قرآن کریم میں اہل علم سے ریب کی نفی کی گئی ہے اگرچہ مسلمان نہ ہوں جیسے ارشاد ہے
وَلَا يَرْتَابَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْمُؤ ْمِنُوْنَ (74: 31) یہی وجہ ہے کہ شروع سورة بقرہ میں قرآن کریم کے متعلق فرمایا لَا رَيْبَ فِيْهِ کہ اس میں کوئی گنجائش نہیں اور اس میں آیت میں فرمایا وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ یعنی اگر ہو تم کسی تردد میں جس کا حاصل یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کریم اپنے واضح اور معجزانہ دلائل کی بناء پر کسی شک وتردد کا محل نہیں ہے لیکن اپنی ناواقفیت سے پھر بھی تمہیں کوئی تردد ہے تو سن لو فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ لفظ سورة کے معنی محدود قطعہ کے ہیں اور سورت قرآن اس خاص حصہ قرآن کو کہا جاتا ہے جو بذریعہ وحی ممتاز اور علیحدہ کردیا گیا ہے،
پورے قرآن میں اس طرح ایک سو چودہ سورتیں چھوٹی بڑی ہیں اور اس جگہ لفظ سورت بغیر الف لام کے لانے سے اس طرف اشارہ پایا گیا کہ چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اس حکم میں شامل ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں اس قرآن کے کلام الہی ہونے میں کوئی ہونے میں کوئی تردد ہے، اور یہ سمجھتے ہو کہ یہ نبی کریم ﷺ یا کسی دوسرے انسان نے خود بنا لیا ہے تو اس کا فیصلہ بڑی آسانی سے اس طرح ہوسکتا ہے کہ تم بھی اس قرآن کی کسی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنا لاؤ اگر تم اس کی مثال بنانے میں کامیاب ہوگئے تو بیشک تمہیں حق ہوگا کہ اس کو بھی کسی انسان کا کلام قرار دو اور اگر تم عاجز ہوگئے تو سمجھ لو کہ یہ انسان کی طاقت سے بالاتر خالص اللہ جل شانہ کا کلام ہے،
یہاں کوئی کہہ سکتا تھا کہ ہمارا عاجز ہوجانا تو اس کی دلیل نہیں ہوسکتی کہ سبھی انسان عاجز ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی یا جماعت یہ کام کرلے اس لئے ارشاد فرمایا، وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰھِ شہداء شاہد کی جمع ہے جس کے معنی حاضر کے آتے ہیں گواہ کو بھی شاہد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا حاضر عدالت ہونا ضروری ہے اس جگہ شہداء سے مراد یا تو عام حاضرین ہیں کہ سارے جہان میں جس جس سے تم اس کام میں مدد لینا چاہو لے سکتے ہو اور یا اس سے مراد ان کے بت ہیں جن کے بارے میں ان کا یہ خیال تھا کہ قیامت کے روز یہ ہمارے لئے گواہی دیں گے،
دوسری آیت میں ان کو ڈرایا گیا کہ اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو پھر جہنم کی ایسی سخت آگ سے بچنے کا سامان کرو جس کے انگارے آدمی اور پتھر ہوں گے اور وہ تم ہی جیسے انکار کرنے والوں کے لئے تیار کی گئی ہے اور اسی جملہ کے بیچ میں جو واقعہ ہونے والا تھا اس کی خبر بھی دے دی، وَلَنْ تَفْعَلُوْا یعنی خواہ تم کتنا ہی انفرادی اور اجتماعی زور لگاؤ تمہاری مجال نہیں کہ اس کی مثال بناسکو،
اس پر غور کیا جائے کہ جو قوم اسلام اور قرآن کی مخالفت اور اس کو گرانے مٹانے کے لئے اپنی جان، مال، آبرو، اولاد سب کچھ قربان کرنے کے لئے تلی ہوئی تھی، اس کو یہ آسان موقع دیا جاتا ہے کہ قرآن کی چھوٹی سے چھوٹی سورت کی مثال بنا لاؤ تو تم ہرگز یہ کام نہ کرسکو گے مگر پوری قوم میں کوئی بھی اس کام کے لئے آگے نہ بڑھا اس سے بڑھ کر کونسا اعتراف اپنے عجز کا اور قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا ہوسکتا ہے جس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ کا ایسا ہوا معجزہ ہے جس نے تمام سرکشوں کی گردنیں جھکادیں،
قرآن ایک زندہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ ہے
تمام انبیاء (علیہم السلام) کے معجزات صرف ان کی حیات تک معجزہ ہوتے لیکن قرآن کا معجزہ بعد وفات رسول کریم ﷺ بھی اسی طرح معجزہ کی حیثیت میں باقی ہے آج بھی ایک ادنٰی مسلمان ساری دنیا کے اہل علم و دانش کو للکار کر دعوٰی کرسکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لایا اور اس کا نہ آج لا سکتا ہے اور جس کو ہمت ہو پیش کرکے دکھلائے،
شیخ جلال الدین سیوطی مفسر جلالین نے اپنی کتاب خصائص کبرٰی میں رسول اللہ ﷺ کے دو معجزوں کے متعلق بحوالہ حدیث لکھا ہے کہ قیامت تک باقی ہیں ایک قرآن کا معجزہ دوسرے یہ کہ رسول اللہ ﷺ سے حضرت ابوسعید خدری نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایام حج میں تینوں جمرات پر لاکھوں آدمی تین روز تک مسلسل کنکریاں پھینکتے ہیں پھر کوئی ان کنکریوں کے ڈھیر کو یہاں سے اٹھاتا بھی نظر نہیں آتا اور ایک مرتبہ پھینکی ہوئی کنکر کو دوبارہ استعمال کرنا بھی ممنوع ہے اس لئے ہر حاجی اپنے لئے مزدلفہ سے کنکریاں نئی لے کر آتا ہے اس کا مقتضیٰ تو یہ تھا کہ جمرات کے گرد ایک ہی سال میں ٹیلہ لگ جاتا جس میں جمرات چھپ جاتے اور چند سال میں تو پہاڑ ہوجاتا آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہاں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے کہ جس جس کا حج قبول ہو اس کنکریاں اٹھالی جائیں تو اب اس جگہ صرف ان کم نصیبوں کی کنکریاں باقی رہ جاتی جن کا حج قبول نہیں ہوا اس لئے اس جگہ پڑی ہوئی کنکریاں بہت کم نظر آتی ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پہاڑ کھڑا ہوگیا ہوتا یہ روایت سنن بہیقی میں موجود ہے،
یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کی سچائی کی تصدیق ہر سال اور ہر زمانے میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ حج میں لاکھوں آدمی جمع ہوتے ہیں اور ہر شخص ہر جمرہ پر ہر روز سات سات کنکریاں پھینکتا ہے اور بعض جاہل تو بڑے بڑے پتھر پھینکتے ہیں اور یہ بھی یقینی طور پر معلوم ہے کہ ان کنکریوں کو یہاں سے اٹھانے اور صاف کرنے کا حکومت یا کوئی جماعت بھی روزانہ انتظام نہیں کرتی نہ اٹھائی جاتی ہیں اور جیسا قدیم سے دستور چلا آتا ہے کہ اس جگہ سے کنکریاں اٹھائی ہی نہیں جاتیں تو اگلے سال اس کا دو گنا اور تیسرے سال تگنا ہوجائے گا پھر کیا شبہ ہے کہ چند سال میں یہ حصہ زمین مع جمرات کے ان کنکریوں میں چھپ جائے گا اور بجائے جمرات کے ایک پہاڑ کھڑا نظر آئے گا مگر مشاہد اس کے خلاف ہے اور یہ مشاہدہ ہر زمانے میں رسول اللہ ﷺ کی تصدیق اور آپ پر لانے کے لئے کافی ہے سنا ہے کہ اب یہاں سے کنکریاں اٹھانے کا کچھ انتطام ہونے لگا ہے مگر تیرہ سو برس تک کا عمل بھی اس مضمون کی تصدیق کے لئے کافی ہے ؛
اسی طرح معجزہ قرآن ایک زندہ اور ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ ہے جیسے آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں اس کی نظیر یا مثال پیش نہیں کی جاسکی آج بھی نہیں کی جاسکتی،
اعجاز قرآنی کی تشریح
اس اجمالی بیان کے بعد آپ کو یہ معلوم کرنا ہے کہ قرآن کریم کو کس بنا پر آنحضرت ﷺ کا معجزہ قرار دیا گیا اور اس کا اعجاز کن کن وجوہ سے ہے اور کیوں ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہوگئی دوسرے یہ کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں قرآن کی زبردست تحدّدی (چیلنج) کے باوجود کوئی اس کی یا اس کے کسی ٹکڑے کی مثال پیش نہیں کرسکا، یہ تاریخی حیثیت سے کیا وزن رکھتا ہے یہ دونوں باتیں طویل الذکر اور تفصیل کی طالب ہیں،
وجوہ اعجاز قرآنی
پہلی بات کہ قرآن کو معجزہ کیوں کہا گیا ؟ اور وہ کیا وجوہ ہیں جن کے سبب ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اس پر قدیم وجدید علماء نے مستقل کتابیں لکھی ہیں اور ہر مفسر نے اپنے اپنے طرز میں اس مضمون کو بیان کیا ہے میں اختصار کے ساتھ چند ضروری چیزیں عرض کرتا ہوں،
اس جگہ سب سے پہلے غور کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب کل علوم کی جامع کتاب، کس جگہ، کس ماحول میں، اور کس پر نازل ہوئی اور کیا وہاں کچھ ایسے علمی سامان موجود تھے جن کے ذریعہ دائرہ اسباب میں ایسی جامع بےنظیر کتاب تیار ہوسکے، جو علوم اوّلین و آخرین کی جامع اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کے متعلق بہترین ہدایت پیش کرسکے جس میں انسان کی جسمانی اور روحانی تربیت کا مکمل نظام ہو اور تدبیر منزل سے لے کر سیاست ممالک تک ہر نظام کے بہترین اصول ہوں،
جس سرزمین اور جس ذات پر یہ کتاب مقدس نازل ہوئی اس کی جغرافیائی کیفیت اور تاریخی حالت معلوم کرنے کے لئے آپ کو ایک ریگستانی خشک اور گرم علاقہ سے سابقہ پڑے گا جس کو بطحاء مکہ کہتے ہیں اور جو نہ زرعی ملک ہے نہ صنعتی نہ اس ملک کی آب وہوا ہی کچھ خوشگوار ہے جس کے لئے باہر کے آدمی وہاں پہنچنے کی رغبت کریں نہ راستے ہی کچھ ہموار ہیں جن سے وہاں تک پہنچنا آسان ہو اکثر دنیا سے کٹا ہوا ایک جزیرہ نما ہے جہاں خشک پہاڑوں اور گرم ریگ کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور دور تک نہ کہیں بستی نظر آتی ہے نہ کوئی کھیت نہ درخت، اس پورے خطہ ملک میں کچھ بڑے شہر بھی نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں اور ان میں اونٹ بکریاں پال کر اپنی زندگی گذارنے والے انسان بستے ہیں اس کے چھوٹے دیہات کا تو دیکھنا کیا جو برائے نام چند شہر کہلاتے ہیں ان میں بھی کسی قسم کے علم وتعلیم کا کوئی چرچا نہیں نہ وہاں کوئی اسکول اور کالج ہے نہ کوئی بڑی یونیورسٹی یا دارالعلوم، وہاں کے باشندوں کو اللہ تعالیٰ نے محض قدرتی اور پیدائشی طور پر فصاحت و بلاغت کا ایک فن ضرور دے دیا ہے جس میں وہ ساری دنیا سے فائق اور ممتاز ہیں وہ نثر اور نظم میں ایسے قادر الکلام ہیں کہ جب بولتے ہیں تو رعد کی طرح کڑکتے اور بادل کی طرح برستے ہیں ان کی ادنٰی ادنٰی چھوکریاں ایسے فصیح وبلیغ شعر کہتی ہیں کہ دنیا کے ادیب حیران رہ جائیں،
لیکن یہ سب کچھ ان کا فطری فن ہے جو کسی مکتب یا مدرسہ میں حاصل نہیں کیا جاتا، غرض نہ وہاں تعلیم و تعلم کا کوئی سامان ہے نہ وہاں کے رہنے والوں کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ یا دل بستگی ہے ان میں کچھ لوگ شہری زندگی بسر کرنے والے ہیں تو وہ تجارت پیشہ ہیں مختلف اجناس مال کی درآمد برآمد ان کا مشغلہ ہے،
اس ملک کے قدیم شہر مکہ کے ایک شریف گھرانہ میں وہ ذات مقدّس پیدا ہوتی ہے جو مہبط وحی ہے جس پر قرآن اترا ہے اب اس ذات مقدّس کا حال سنئے
ولادت سے پہلے ہی والد ماجد کا سایہ سر سے اٹھ گیا پیدا ہونے سے پہلے یتیم ہوگئے ابھی سات سال کی عمر بھی نہ تھی کہ والدہ کی بھی وفات ہوگئی آغوش مادر کا گہوارہ بھی نصیب نہ رہا شریف آباء و اجداد کی فیاضی اور بےمثل سخاوت نے اپنے گھر میں کوئی اندوختہ نہ چھوڑا تھا جس سے یتیم کی پرورش اور آئندہ زندگی کا سامان ہوسکے نہایت عسرت کی زندگی پھر ماں باپ کا سایہ سر پر نہیں، ان حالات میں آپ نے پرورش پائی اور عمر کا ابتدائی حصہ گذارا جو تعلیم و تعلم کا اصلی وقت ہے، اس وقت اگر مکہ میں کوئی دارالعلوم یا اسکول وکالج بھی ہوتا تو بھی آپ کے لئے اس سے استفادہ مشکل تھا مگر معلوم ہوچکا کہ وہاں سرے سے یہ علمی مشغلہ اور اس سے دلچسپی ہی کسی کو نہ تھی اسی لئے یہ پوری قوم عرب امیین کہلاتے تھے قرآن کریم نے بھی ان کے متعلق یہ لفظ استعمال کیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ آپ ہر قسم کی تعلیم و تعلم سے بیخبر رہے وہاں کوئی بڑا عالم بھی ایسا نہ تھا جس کی صحبت میں رہ کر یہ علوم حاصل کئے جاسکیں جن کا قرآن حامل ہے پھر قدرت کو تو ایک فوق العادۃ معجزہ دکھلانا تھا، آپ کے لئے خصوصی طور پر ایسے سامان ہوئے معمولی نوشت وخواند جو ہر جگہ کے لوگ کسی نہ کسی طرح سیکھ ہی لیتے ہیں آپ نے وہ بھی نہ سیکھی بالکل امی محض رہے کہ اپنا نام تک بھی نہ لکھ سکتے تھے عرب کا مخصوص فن شعر و سخن تھا جس کے لئے خاص خاص اجتماعات کئے جاتے اور مشاعرے منعقد ہوتے اور اس میں ہر شخص مسابقت کی کوشش کرتا تھا آپ کو حق تعالیٰ نے ایسی فطرت عطا فرمائی تھی کہ ان چیزوں سے بھی دلچسپی نہ لی نہ کبھی کوئی شعر یا قصیدہ لکھا نہ کسی ایسی مجلس میں شریک ہوئے،
ہاں امی محض ہونے کہ ساتھ بچپن سے ہی آپ کی شرافت نفس، اخلاق فاضلہ، فہم، و فراست کے غیر معمولی آثار، دیانت و امانت کے اعلیٰ ترین شاہکار آپ کی ذات مقدس میں ہر وقت مشاہدہ کئے جاتے تھے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب کے بڑے بڑے مغرور ومتکبّر سردار آپ کی تعظیم کرتے تھے اور سارے مکہ میں آپ کو امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا،
یہ امی محض چالیس سال تک مکہ میں اپنی برادری کے سامنے رہتے ہیں کسی دوسرے ملک کا سفر بھی نہیں کرتے جس سے یہ خیال پیدا ہوسکے کہ وہاں جاکر علوم حاصل کئے ہوں گے صرف ملک شام کے دو تجارتی سفر ہوئے وہ بھی گنے چنے چند کے لئے جس میں اس کا امکان نہیں،
اس امی محض ذات مقدس کی زندگی کے چالیس سال مکہ میں اپنی برادری میں اس طرح گذرے کہ نہ کبھی کسی کتاب یا قلم کو ہاتھ لگایا نہ کسی مکتب میں گئے نہ کسی مجلس میں کوئی نظم وقصیدہ ہی پڑھا ٹھیک چالیس سال کے بعد ان کی زبان مبارک پر وہ کلام آنے لگا جس کا نام قرآن ہے جو اپنی لفظی فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اور معنوی علوم وفنون کے لحاظ سے محیّر العقول کلام ہے اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو بھی اس کے معجزہ ہونے میں کسی انصاف پسند کو کیا شبہ رہ سکتا ہے مگر یہاں یہی نہیں بلکہ اس نے ساری دنیا کو تحدد کی (چیلنج) دیا کہ کسی کو اس کے کلام الہی ہونے میں شبہ ہو تو اس کا مثل بنا لائے،
اب ایک طرف قرآن کی یہ تحدی اور چیلنج اور دوسری طرف ساری دنیا کی مخالف طاقتیں جو اسلام اور پیغمبر اسلام کو شکست دینے کے لئے اپنی مال، جان، اولاد، آبرو، سب گنوانے کو تیار ہیں مگر اتنا کام کرنے کے لئے کوئی جرأت نہیں کرتا کہ قرآن کی ایک چھوٹی سی سورت کی مثال بنا لائے فرض کرلیجئے کہ یہ کتاب بےمثال و بےنظیر بھی نہ ہوتی جب بھی ایک امیّ محض کی زبان سے اس کا ظہور اعجاز قرآن اور وجوہ اعجاز کی تفصیل میں جائے بغیر بھی قرآن کریم کے معجزہ ہونے کے لئے کم نہیں جس کو ہر عالم و جاہل سمجھ سکتا ہے،
اعجاز قرآن کی دوسری وجہ
اب اعجاز قرآن کی دوسری وجہ دیکھئے یہ آپ کو معلوم ہے کہ قرآن اور اس کے احکام دنیا کے لئے آئے لیکن اس کے بلا واسطہ اور پہلے مخاطب عرب تھے جن کو اور کوئی علم وفن آتا تھا یا نہیں مگر فصاحت و بلاغت ان کا فطری ہنر اور پیدائشی وصف تھا جس میں وہ اقوام دنیا سے ممتاز سمجھے جاتے تھے قرآن ان کو مخاطب کرکے چیلنج کرتا ہے کہ اگر تمہیں میرے کلام الہی ہونے میں کوئی شبہ ہے تو میرے ایک سورت کی مثال بنا کر دکھلا دو اگر قرآن کی یہ تحدی (چیلنج) صرف اپنے حسن معنوی یعنی حکیمانہ اصول اور علمی معارف و اسرار ہی کی حد تک ہوتی جو قوم امیین کے لئے اس کی نظیر پیش کرنے سے عذر معقول ہوتا لیکن قرآن نے صرف حسن معنوی ہی کے متعلق تحدی نہیں کی بلکہ لفظی فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی پوری دنیا کو چیلنج دیا ہے اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے اقوام عالم میں سب سے زیادہ مستحق عرب ہی تھے اگر فی الواقع یہ کلام قدرت بشر سے باہر کسی مافوق قدرت کا کلام نہیں تھا تو بلغاء عرب کے لئے کیا مشکل تھا کہ ایک امی شخص کے کلام کی مثال بلکہ اس سے بہتر کلام فوراً پیش کردیتے اور ایک دو آدمی یہ کام نہ کرسکتے تو قرآن نے ان کو یہ سہولت بھی دی تھی کہ ساری قوم مل کر بنا لائے مگر قرآن کے اس بلند بانگ دعوے اور پھر طرح طرح سے غیرت دلانے پر بھی عرب کی غیّور قوم پوری کی پوری خاموش ہے چند سطریں بھی مقابلہ پر نہیں پیش کرتی،
عرب کے سرداروں نے قرآن اور اسلام کے مٹانے اور پیغمبر اسلام ﷺ کو مغلوب کرنے میں جس طرح اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ کسی لکھے پڑھے آدمی سے مخفی نہیں شروع میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے گنے چنے رفقاء کو طرح طرح کی ایذائیں دے کر چاہا کہ وہ کلمہ اسلام کو چھوڑ دیں مگر جب دیکھا کہ یہاں وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے تو خوشامد کا پہلو اختیار کیا عرب کا سردار عتبہ ابن ربیعہ قوم کا نمائندہ بن کر آپ کے پاس حاضر ہوا اور عرب کی پوری دولت و حکومت اور بہت حسن و جمال کی لڑکیوں کی پیشکش اس کام کے لئے کی کہ آپ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں آپ نے اس کے جواب میں قرآن کی چند آیتیں سنا دینے پر اکتفا فرمایا جب یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو جنگ و مقابلہ کے لئے تیار ہو کر قبل از ہجرت اور بعد از ہجرت جو قریش عرب نے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کے مقابلہ میں سر دھڑ کی بازی لگائی جان مال اولاد سب کچھ اس مقابلہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار ہوئے یہ سب کچھ کیا مگر یہ کسی سے نہ ہوسکا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کرتا اور چند سطریں مقابلہ پر پیش کردیتا کیا ان حالات میں سارے عرب کے مقابلہ سے سکوت اور عجز اس کی کھلی ہوئی شہادت نہیں کہ یہ انسان کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس کے کام یا کلام کی نظیر انسان کیا ساری مخلوق کی قدرت سے باہر ہے،
پھر صرف اتنا ہی نہیں کہ عرب نے اس کے مقابلہ سے سکوت کیا بلکہ اپنی خاص مجلسوں میں سب نے اس کے بےمثال ہونے کا اعتراف کیا اور جو ان میں سے منصف مزاج تھے انہوں نے اس بنی عبد مناف کی ضد کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے باوجود اعتراف کے محروم رہے قریش عرب کی تاریخ ان واقعات پر شاہد ہے میں اس میں سے چند واقعات اس جگہ بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوسکے کہ پورے عرب نے اس کلام کے بےمثل، بےنظیر ہونے کو تسلیم کیا اور اس کی مثال پیش کرنے کو اپنی رسوائی کے خیال سے چھوڑ دیا جس رسول اللہ ﷺ اور قرآن کا چرچا مکہ سے باہر حجاز کے دوسرے مقامات میں ہونے لگا اور حج کا موسم آیا تو قریش مکہ کو اس کی فکر ہوئی کہ اب اطراف عرب سے حجاج آئیں گے اور رسول اللہ ﷺ کا یہ کلام سنیں گے تو فریفتہ ہوجائیں گے اور غالب خیال یہ ہے کہ مسلمان ہوجائیں گے اس کے انسداد کی تدبیر سوچنے کے لئے قریش نے ایک اجلاس منعقد کیا اس اجلاس میں عرب کے بڑے بڑے سردار موجود تھے ان میں ولید بن مغیرہ عمر میں سب سے بڑے اور عقل میں ممتاز سمجھے جاتے تھے سب نے ولید بن مغیرہ کو یہ مشکل پیش کی کہ اب اطراف ملک سے لوگ آئیں گے اور ہم سے محمد ﷺ کے متعلق پوچھیں گے تو ہم کیا کہیں ؟ ہمیں آپ کوئی ایسی بات بتلائیے کہ ہم سب وہ بات کہہ دیں ایسا نہ ہو کہ خود ہمارے بیانات میں اختلاف ہوجائے ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ہی کہو کیا کہنا چاہئے ؟
لوگوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں ہم سب یہ کہیں کہ محمد ﷺ معاذ اللہ مجنون ہیں، ان کا کلام مجونانہ بڑ ہے، ولید بن مغیرہ نے کہا کہ تم ایسا ہرگز نہ کہنا کیونکہ یہ لوگ جب ان کے پاس جائیں گے اور ان سے ملاقات و گفتگو کریں گے، اور ان کو فصیح وبلیغ عاقل انسان پائیں گے تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ تم نے جھوٹ بولا ہے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ اچھا ہم ان کو یہ کہیں کہ وہ شاعر ہیں ولید نے اس سے بھی منع کیا اور کہا کہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے وہ تو شعر و شاعری کے ماہر ہیں انھیں پتا چل جائے گا کہ یہ شعر نہیں اور نہ آپ شاعر ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب لوگ تمہیں جھوٹا سمجھیں گے پھر کچھ لوگوں نے کہا کہ تو پھر ہم ان کو کاہن قرار دیں، جو شیاطین وجنات سے سن کر غیب کی خبریں دیا کرتے ہیں ولید نے کہا یہ بھی غلط ہے کیونکہ جب لوگ ان کا کلام سنیں گے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ کلام کسی کاہن کا نہیں ہے وہ پھر بھی تمہیں جھوٹا سمجھیں گے اس کے بعد قرآن کے بارے میں جو ولید بن مغیرہ کا اثرات تھے ان کو ان الفاظ میں بیان کیا،
خدا کی قسم ! تم میں کوئی آدمی شعر و شاعری اور اشعار عرب سے میرے برابر واقف نہیں، خدا کی قسم ! اس کلام میں خاص حلاوت ہے، اور ایک خاص رونق ہے جو میں نے کسی شاعر یا فصیح وبلیغ کے کلام میں نہیں پاتا،
پھر ان کی قوم نے دریافت کیا کہ آپ ہی بتلائیے پھر ہم کیا کریں ؟ اور ان کے بارے میں لوگوں سے کیا کہیں ؟ ولید نے کہا میں غور کرنے کے بعد کچھ جواب دوں گا پھر بہت سوچنے کے بعد کہا کہ اگر کچھ کہنا ہی ہے تو تم ان کو ساحر کہو کہ اپنے جادو سے باپ بیٹے اور میاں بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے ہیں،
قوم اس پر مطمئن اور متفق ہوگئی اور سب سے یہی کہنا شروع کیا مگر خدا کا چراغ کہیں پھونکوں سے بجُھنے والا تھا ؟ اطراف عرب کے لوگ آئے قرآن سنا اور بہت سے مسلمان ہوگئے اور اطراف عرب میں اسلام پھیل گیا، (خصائص کبٰری)
اسی طرح ایک قرشی سردار نضر بن حارث نے ایک مرتبہ اپنی قوم کو خطاب کرکے کہا،
اے قوم قریش، آج تم ایک مصیبت میں گرفتار ہو کہ اس سے پہلے کبھی ایسی مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا تھا کہ محمد ﷺ تمہاری قوم کے ایک نوجوان تھے اور تم سب ان کے عادات و اخلاق کے گرویدہ اور اپنی قوم میں ان کو سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ امانت دار جانتے اور کہتے تھے اب جب کہ ان کے سر میں سفید بال آنے لگے اور انہوں نے ایک بےمثال کلام اللہ کی طرف سے پیش کیا تو تم ان کو جادوگر کہنے لگے خدا کی قسم وہ جادوگر نہیں ہم نے جادوگروں کو دیکھا اور برتا ہے ان کے کلام سنے ہیں اور طریقوں کو سمجھا ہے وہ بالکل اس سے مختلف ہیں،
اور کبھی تم ان کو کاہن کہنے لگے، خدا کی قسم ! وہ کاہن بھی نہیں ہم نے بہت سے کاہنوں کو دیکھا اور ان کے کلام سنے ہیں ان کو ان کے کلام سے کوئی مناسبت نہیں،
اور کبھی تم ان کو شاعر کہنے لگے خدا کی قسم ! وہ شاعر بھی نہیں ہم نے خود شعر شاعری کے تمام فنون کو سیکھا سمجھا ہے اور بڑے بڑے شعراء کے کلام ہمیں یاد ہیں ان کے کلام سے اس کو کوئی مناسبت نہیں پھر کبھی تم ان کو مجنون بتاتے ہو خدا کی قسم ! وہ مجنون بھی نہیں، ہم نے بہت سے مجنونوں کو دیکھا بھالا ان کی بکواس سنی ہے ان کے مختلف اور مختلط کلام سنے ہیں یہاں یہ کچھ نہیں اے میری قوم تم انصاف کے ساتھ ان کے معاملہ میں غور کرو یہ سرسری ٹلا دینے کی چیز نہیں، (خصائص کبرٰی ص 114: ج 1)
حضرت ابوذر صحابی فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کا رسول ہے، میں نے پوچھا کہ وہاں کے لوگ اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ بھائی نے کہا کہ کوئی ان کو شاعر کہتا ہے کوئی کاہن بتلاتا ہے کوئی جادوگر کہتا ہے، میرا بھائی انیس خود بڑا شاعر اور کہانت وغیرہ سے واقف آدمی تھا اس نے مجھ سے کہا کہ جہاں تک میں نے غور کیا لوگوں کی یہ سب باتیں غلط ہیں ان کا کلام نہ شعر ہے نہ کہانت ہے نہ مجنونانہ کلمات ہیں بلکہ مجھے وہ کلام صادق نظر آتا ہے،
ابوذر فرماتے ہیں کہ بھائی سے یہ کلمات سن کر میں نے مکہ کا سفر کیا اور مسجد حرام میں آکر پڑگیا تیس روز میں نے اس طرح گذارے کہ سوائے زمزم کے پانی کے میرے پیٹ میں کچھ نہیں گیا اس تمام عرصہ میں نہ مجھے بھوک کی تکلیف معلوم ہوئی نہ کوئی ضعف محسوس کیا (خصائص کبرٰی ص 116: ج 1)
واپس گئے تو لوگوں سے کہا کہ میں نے روم اور فارس کے فصحاء وبلغاء کے کلام بہت سنے ہیں، اور کاہنوں کے کلمات اور حمیر کے مقالات بہت سنے ہیں محمد ﷺ کے کلام کی مثال میں نے آج تک نہیں سنی تم سب میری بات مانو۔ اور آپ کا اتباع کرو، چناچہ فتح مکہ کے سال میں ان کی پوری قوم کے تقریباً ایک ہزار آدمی مکہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے (خصائص کبرٰی ص 116: ج 1)
اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل اور اخنس بن شریق وغیرہ بھی لوگوں سے چھپ کر قرآن سنا کرتے اور اس کے عجیب و غریب بےمثل وبے نظیر اثرات سے متاثر ہوتے تھے مگر جب قوم کے کچھ لوگوں نے ان کو کہا کہ جب تم اس کلام کو ایسا بےنظیر پاتے ہو تو اس کو قبول کیوں نہیں کرتے ؟ تو ابوجہل کا جواب یہ تھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ بنی عبد مناف میں اور ہمارے قبیلہ میں ہمیشہ سے رقابت اور معاصرانہ مقابہ چلتا رہتا ہے وہ جس کام میں آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم بھی اس کا جواب دیتے ہیں اب جبکہ ہم اور وہ دونوں برابر حیثیت کے مالک ہیں تو اب وہ یہ کہنے لگے کہ ہم میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ہم اس میں کیسے ان کا مقابلہ کریں میں تو کبھی اس کا اقرار نہ کروں گا (خصائص)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن کے اس دعوے اور چیلنج پر صرف یہی نہیں کہ پورے عرب نے ہار مان لی اور سکوت کیا بلکہ اس کی مثل وبے نظیر ہونے اور اپنے عجز کا کھلے طور پر اعتراف بھی کیا ہے اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کی کوئی وجہ نہ تھی کہ سارا عرب بلکہ ساری دنیا اس کا مثل لانے سے عاجز ہوجاتی،
قرآن اور پیغمبر قرآن کے مقابلہ میں جان، ومال، اولاد وآبرو سب کچھ قربان کرنے کے لئے تو وہ تیار ہوگئے مگر اس کے لئے کوئی آگے نہ بڑھا کہ قرآن کے چیلنج کو قبول کر کے دو سطریں اس کے مقابلہ میں پیش کردیتا،
اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے جاہلانہ اعمال و افعال کے باوجود منصف مزاج تھے جھوٹ کے پاس نہ جاتے تھے جب انہوں نے قرآن کو سن کر یہ سمجھ لیا کہ جب در حقیقت اس کلام کی مثل ہم نہیں لا سکتے تو محض دھاندلی اور کٹھ حجتی کے طور پر کوئی کلام پیش کرنا اپنے لئے عار سمجھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ہم نے کوئی چیز پیش بھی کردی تو پورے عرب کے فصحاء وبلغاء اس امتحانی مقابلہ میں ہمیں فیل کردیں گے اور خواہ مخواہ رسوائی ہوگی اسی لئے پوری قوم نے سکونت اختیار کیا اور جو زیادہ منصف مزاج تھے انہوں نے صاف طور پر اقرار و تسلیم بھی کیا جاسکے کچھ وقائع پہلے بیان ہوچکے ہیں، اسی سلسلہ کا ایک واقعہ یہ ہے کہ عرب کے سردار اسعد بن زراہ نے آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس کے سامنے اقرار کیا کہ
ہم نے خواہ مخواہ محمد ﷺ کی مخالفت کرکے اپنے رشتے ناتے توڑے اور تعلقات خراب کئے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ وہ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ہرگز جھوٹے نہیں اور جو کلام وہ لائے ہیں بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔ (خصائص ص 116 ج 1)
قبیلہ بنی سلیم کا ایک شخص مسمّٰی بن نسیبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سے قرآن سنا اور چند سوالات کئے جن کا جواب آنحضرت ﷺ نے عطا فرمایا تو یہ اسی وقت مسلمان ہوگئے اور پھر اپنی قوم میں واپس گئے تو لوگوں سے کہا
میں نے روم وفارس فصحاء وبلغاء کے کلام سنے ہیں بہت سے کاہنوں کے کلمات سننے کا تجربہ ہوا ہے حمیر کے مقالات سنتا رہا ہوں مگر محمد ﷺ کے کلام کی مثل میں نے آج تک کہیں نہیں سنا تم سب میری بات مانو اور ان کا اتباع کرو، انھیں کی تحریک و تلقین پر ان کی قوم کے ایک ہزار آدمی فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوگئے، (خصائص ص 116 ج 1)
یہ اقرار و تسلیم صرف ایسے ہی لوگوں سے منقول نہیں جو آپ کے معاملات سے یکسو اور غیرجانبدار تھے بلکہ وہ لوگ جو ہر وقت ہر طرح رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں لگے ہوئے تھے قرآن کے متعلق ان کا بھی یہی حال تھا مگر اپنی ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا اظہار لوگوں پر نہ کرتے تھے،
علامہ سیوطی نے خصائص کبرٰی میں بحوالہ بیہقی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ابوجہل اور ابوسفیان اور اخنس بن شریق رات کو اپنے اپنے گھروں سے نکلے کہ چھپ کر رسول اللہ ﷺ سے قرآن سنیں ان میں ہر ایک علیحدہ علیحدہ نکلا ایک کی دوسرے کو خبر نہ تھی اور علیحدہ علیحدہ گوشوں میں چھپ کر قرآن سننے لگے تو اس میں ایسے محو ہوئے کہ ساری رات گذر گئی جب صبح ہوئی تو سب واپس ہوئے اتفاقا راستہ میں مل گئے اور ہر ایک نے دوسرے کا قصّہ سنا تو سب آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ تم نے یہ بری حرکت کی اور کسی نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے کیونکہ اگر عرب کے عوام کو اس کی خبر ہوگی تو وہ سب مسلمان ہوجائیں گے،
یہ کہہ سن کر سب اپنے اپنے گھر چلے گئے اگلی رات آئی تو پھر ان میں سے ہر ایک کے دل میں یہی ٹیس اٹھی کہ قرآن سنیں اور پھر اسی طرح چھپ چھپ کر ہر ایک نے قرآن سنا یہاں تک کہ رات گذر گئی اور صبح ہوتے ہی یہ لوگ واپس ہوئے تو پھر آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور اس کے ترک پر سب نے اتفاق کیا مگر تیسری رات آئی تو پھر قرآن کی لذت وحلاوت نے انھیں چلنے اور سننے پر مجبور کردیا پھر پہنچنے اور رات بھر قرآن سن کر لوٹنے لگے تو پھر راستہ میں اجتماع ہوگیا تو اب سب نے کہا کہ آؤ آپس میں معاہدہ کرلیں کہ آئندہ ہم ہرگز ایسا نہ کریں گے، چناچہ اس معاہدہ کی تکمیل کی گئی اور سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صبح کو اخنس بن شریق نے اپنی لاٹھی اٹھائی اور پہلے ابوسفیان کے پاس پہنچا کہ بتلاؤ اس کلام کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے ؟ اس نے دبے دبے لفظوں میں قرآن کی حقانیت کا اعتراف کیا تو اخنس نے کہا کہ بخدا میری بھی یہی رائے ہے اس کے بعد وہ ابوجہل کے پاس پہنچا اور اس سے بھی یہی سوال کیا کہ تم نے محمد کے کلام کو کیسا پایا ؟
ابوجہل نے کہا کہ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان اور بنو عبد مناف کے خاندان میں ہمیشہ سے چشمک چلی آتی ہے قوم کی سیادت و قیادت میں وہ جس محاذ پر آگے بڑہنا چاہتے ہیں ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں انہوں نے سخاوت و بخشش کے ذریعہ قوم پر اپنا اثر جمانا چاہا تو ہم نے ان سے بڑھ کر یہ کام کر دکھایا انہوں نے لوگوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے لیں تو ہم اس میدان میں بھی ان سے پیچھے نہیں رہے یہاں تک کہ پورا عرب جانتا ہے کہ ہم دونوں خاندان برابر حیثیت کے مالک ہیں،
ان حالات میں ان کے خاندان سے یہ آواز اٹھی کہ ہمارے میں ایک نبی پیدا ہوا ہے جس پر آسمان سے وحی آتی ہے اب ظاہر ہے کہ اس کا مقابلہ ہم کیسے کریں اس لئے ہم نے تو یہ طے کرلیا ہے کہ ہم زور اور طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے اور ہرگز ان پر ایمان نہ لائیں گے (خصائص ص 115 ج 1)
یہ ہے قرآن کا وہ کھلا ہوا معجزہ جس کا دشمنوں کو بھی اعتراف کرنا پڑا ہے یہ تمام واقعات علامہ جلال الدین سیوطی نے (خصائص کبرٰی) میں نقل کئے ہیں،
تیسری وجہ
تیسری وجہ اعجاز قرآنی کی یہ کہ اس میں غیب کی اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کی بہت سی خبریں ہیں جو قرآن نے دیں اور ہوبہو اسی طرح واقعات پیش آئے جس طرح قرآن نے خبر دی تھی مثلا قرآن نے خبر دی کہ روم وفارس کے مقابلہ میں ابتداءً اہل فارس غالب آئیں گے اور رومی مغلوب ہوں گے لیکن ساتھ ہی یہ خبر دی کہ دس سال گذرنے نہ پائیں گے کہ پھر رومی اہل فارس پر غالب آجائیں گے مکہ کے سرداروں نے قرآن کی اس خبر پر حضرت صدیق اکبر سے ہار جیت کی شرط کرلی اور پھر ٹھیک قرآن کی خبر کے مطابق رومی غالب آگئے تو سب کو اپنی ہار ماننا پڑی اور ہارنے والے پر جو مال دینے کی شرط کی تھی وہ مال ان کو دینا پڑا رسول اللہ ﷺ نے اس مال کو قبول نہیں فرمایا کیونکہ وہ ایک قسم کا جوا تھا اسی طرح اور بہت سے واقعات اور خبریں ہیں جو امور غیبیہ کے متعلق قرآن میں دی گئیں اور ان کی سچائی بالکل روز روشن کی طرح واضح ہوگئی،
چوتھی وجہ
چوتھی وجہ اعجاز قرآنی کی یہ ہے کہ اس میں پچھلی امتوں اور ان کی شرائع اور تاریخی حالات کا ایسا صاف تذکرہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے علماء یہود ونصارٰی جو پچھلی کتابوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے ان میں بھی اتنی معلومات نہ تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے تو کبھی نہ کسی مکتب میں قدم رکھا نہ کسی عالم کی صحبت اٹھائی نہ کسی کتاب کو ہاتھی لگایا پھر یہ ابتداء دنیا سے آپ کے زمانہ تک تمام اقوام عالم کے تاریخی حالات اور نہایت صحیح اور سچے سوانح اور ان کی شریعتوں کی تفصیلات کا بیان ظاہر ہے کہ بجز اس کے نہیں ہوسکتا کہ یہ کلام اللہ تعالیٰ ہی کا ہو اور اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کو یہ خبریں دی ہوں۔
پانچویں وجہ
یہ ہے کہ اس کی متعدد آیات میں لوگوں کے دل کی چھپی ہوئی باتوں کی اطلاع دی گئی اور پھر ان کے اقرار سے ثابت ہوگیا کہ وہ بات صحیح اور سچی تھی یہ کام بھی عالم الغیب والشہادۃ ہی کرسکتا ہے کسی بشر سے عادۃ ممکن نہیں مثلا ارشاد قرآنی ہے
اِذْ ھَمَّتْ طَّاۗىِٕفَتٰنِ مِنْكُمْ اَنْ تَفْشَلَا (122: 3) جب تمہاری دو جماعتوں نے دل میں ارادہ کیا کہ پسپا ہوجائیں،
اور یہ ارشاد کہ
يَقُوْلُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ (58: 8) وہ لوگ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ ہمارے انکار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا،
یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کو انہوں نے کسی سے ظاہر نہیں کیا قرآن کریم نے ہی ان کا انکشاف کیا ہے،
چھٹی وجہ
چھٹی وجہ اعجاز قرانی کی وہ آیات ہیں جن میں قرآن نے کسی قوم یا فرد کے متعلق یہ پیشنگوئی کی کہ وہ فلاں کام نہ کرسکیں گے اور پھر وہ لوگ باوجود ظاہری قدرت کے اس کام کو نہ کرسکے جیسے یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیا کہ اگر وہ فی الواقع اپنے آپ کو اللہ کے دوست اور ولی سمجھتے ہیں توا نھیں اللہ کے پاس جانے سے محبت ہونا چاہئے وہ ذرا موت کی تمنا کرکے دکھائیں اور پھر ارشاد فرمایا ؛
وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا (95: 2) وہ ہرگز موت کی تمنا نہ کرسکیں گے،
موت کی تمنا کرنا کسی کے لئے مشکل نہ تھا خصوصا ان لوگوں کے لئے جو قرآن کو جھٹلاتے تھے، قرآن کے ارشاد کی وجہ سے ان کی تمنائے موت میں خوف وہراس کی کوئی وجہ نہ تھی یہود کے لئے تو مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع بڑا غنیمت تھا کہ فوراً تمنائے موت کا ہر مجلس ومحفل میں اعلان کرتے،
مگر یہود ہوں یا مشرکین زبان سے کتنا ہی قرآن کو جھٹلائیں ان کے دل جانتے تھے کہ قرآن سچا ہے اس کی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی اگر موت کی تمنا ہم اس وقت کریں گے تو فوراً مرجائیں گے، اس لئے قرآن کے اس کھلے ہوئے چیلنج کے باوجود کسی یہودی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایک مرتبہ زبان سے تمنائے موت کا اظہار کردے،
ساتویں وجہ
وہ خاص کیفیت ہے جو قرآن کے سننے سے ہر خاص وعام اور مومن و کافر پر طاری ہوتی ہے جیسے حضرت جبیر بن مطعم ؓ کو اسلام لانے سے پہلے پیش آیا کہ اتفاقا انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز مغرب میں سورة طور پڑہتے ہوئے سنا جب آپ آخری آیات پر پہنچنے تو جبیر کہتے ہیں کہ میرا دل گویا اڑنے لگا اور یہ سب سے پہلا دن تھا کہ میرے دل میں اسلام نے اثر کیا وہ آیات یہ ہیں،
اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَاۗىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ (37: 35: 52:) کیا وہ بن گئے ہیں آپ ہی آپ یا وہی ہیں بنانے والے یا انہوں نے بنائے ہیں آسمان اور زمین کوئی نہیں پر یقین نہیں کرتے کیا ان کے پاس خزانے تیرے رب کے یا وہی داروغہ ہیں۔
آٹھویں وجہ
یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے اور سننے سے کوئی اُکتاتا نہیں بلکہ جتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے اس کا شوق اور بڑہتا ہے دنیا کی کوئی بہتر سے بہتر اور مرغوب کتاب لے لیجئے اس کو دو چار مرتبہ پڑھا جائے تو انسان کی طیبعت اکتا جاتی ہے پھر نہ پڑھنے کو جی چاہتا ہے نہ سننے کو یہ صرف قرآن کا خاصہ ہے کہ جتنا کوئی اس کو زیادہ پڑہتا ہے اتنا ہی اس کو شوق ورغبت بڑہتا جاتا ہے یہ بھی قرآن کے کلام الہی ہونے کا ہی اثر ہے،
نویں وجہ
یہ ہے کہ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے وہ قیامت تک بغیر کسی ادنیٰ تغیر و ترمیم کے باقی رہے گا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کو اس طرح پورا فرمایا کہ جب سے قرآن کریم نازل ہوا ہے چودہ سو برس کے قریب ہونے کو آئے ہیں ہر قرن ہر زمانے میں لاکھوں انسان ایسے رہے ہیں اور رہیں گے جن کے سینوں میں پورا قرآن اس طرح محفوظ رہا کہ ایک زیر وزبر کی غلطی کا امکان نہیں ہر زمانے میں مرد، عورت، بچے، بوڑھے اس کے حافظ ملتے ہیں بڑے سے بڑا عالم اگر کہیں ایک زیر وزبر کی غلطی کرجائے تو ذرا ذرا سے بچے وہیں غلطی پکڑ لیں گے، دنیا کا کوئی مذہب اپنی کتاب کے متعلق اس کی مثال تو کیا اس کا دسواں حصہ بھی پیش نہ
Top