Maarif-ul-Quran - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
تو کہہ تعریف ہے اللہ کو اور سلام ہے اس کے بندوں پر جن کو اس نے پسند کیا بھلا اللہ بہتر ہے یا جن کو وہ شریک کرتے ہیں۔
معارف و مسائل
اس قصے کے متعلق قرآن میں متعدد جگہ خصوصاً سورة اعراف میں ضروری مضامین بیان ہوچکے ہیں وہاں دیکھ لئے جاویں۔ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ، انبیاء سابقین اور ان کی امتوں کے کچھ حالات اور ان پر عذاب آنے کے واقعات کا ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ آپ کی امت کو دنیا کے عذاب عام سے مامون کردیا گیا ہے اور انبیاء سابقین اور اللہ کے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجئے۔ جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور بعض نے اس کا مخاطب بھی حضرت لوط ؑ کو قرار دیا ہے۔ اس آیت میں الَّذِيْنَ اصْطَفٰى کے الفاظ سے ظاہر یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) مراد ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے وَسَلٰمٌ عَلَي الْمُرْسَلِيْنَ اور حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام امور حضرت ابن عباس سے ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام ہیں۔ سفیان ثوری نے اسی کو اختیار کیا ہے (اخرجہ عبد بن حمید و البزار و ابن جریر وغیرہم)
اگر آیت میں الَّذِيْنَ اصْطَفٰى سے مراد صحابہ کرام لئے جائیں جیسا کہ ابن عباس کی روایت میں ہے تو اس آیت سے غیر انبیاء پر سلام بھیجنے کے لئے انہیں ؑ کہنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ اس مسئلہ کی پوری تحقیق سورة احزاب میں آیت صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا کی تفسیر میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالی۔
مسئلہاس آیت سے خطبہ کے آداب بھی ثابت ہوئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور انبیاء (علیہم السلام) پر درود وسلام سے شروع ہونا چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے تمام خطبات میں یہی معمول رہا ہے بلکہ ہر اہم کام کے شروع میں اللہ تعالیٰ کی حمد اور رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام مسنون و مستحب ہے۔ (کذا فی الروح)
Top