Tadabbur-e-Quran - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
کہہ دو کہ شکر کا سزا اور اللہ ہے اور اس کے ان بندوں پر سلامتی و رحمت ہے جن کو اس نے برگزیدہ کیا کیا اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں !
آگے کا مضمون ……آیات 93-59 خاتمہ سورة آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں جن میں اوپر بیان کئے ہوئے واقعات کے نتائج سامنے رکھ دیئے گئے ہیں خاص طور پر قرآن کی دعوت توحید پورے زور کے ساتھ اس کے آفاقی و انفسی دلائل کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ نیز منکرین کے اصل سبب انکار سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ ان کی ساری سخن سازیوں کے پس پردہ یہ چیز ہے کہ یہ آخرت کے بارے میں متردد ہیں حالانکہ وہ ایک حقیقت ہے۔ آفاق وانفس کے دلائل پکار پکار کر اس کی شہادت دے رہے ہیں۔ یہی بات، یاد ہوگا، تمہیں کی آیات میں بھی فرمائی گی ہے۔ اس طرح خاتمہ سورة کا مضمون تمہید کے ساتھ مربوط ہو گار ہے۔ مطالب کے بیچ بیچ میں بھی اور سورة کے آخر میں خاص طور پر نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ قرآن کے انکار اور تمہاری تکذیب کے لئے جو مطالبات و اعتراضات پیش کر رہے ہیں تم ان کی پروا نہ کرو۔ تمہارا کا اندھوں اور بہروں کو دکھانا اور سنانا نہیں ہے۔ تم ان کو صاف بتا دو کہ میرے اوپر اس قرآن کو پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے اس کو ماننا اور نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ اگر یہ اس کو نہیں مانیں گے تو قرآن جن باتوں سے ان کو آگاہ کر رہا ہے ان میں سے ایک ایک چیز ان کے سامنے آ کے رہے گی۔ آیات کی تلاوت فرمایئے۔ قل الحمد للہ وسلم علی عبادہ الذین اصطفی، اللہ خیرا ماً یشرکون (59) ایک بلیغ گریز اور خوبصورت حلقاً اتصال اس آیت کی نوعیت کے پچھے اور آگے کے مطالب کے درمیا نایک بلیغ گریز اور نہایت خوبصورت حلقہ اتصال کی ہے اوپر جو واقعات مذکر ہوں ہیں اور ان سے دو حقیقتیں نہایت واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو پیدا کر کے اس سے بےتعلق نہیں ہو بیٹھا ہے بلکہ اس کے عدل اور اس کی محت کی نشانیاں برابر اس میں ظاہر وتی رہی ہیں۔ اس نے سرکشی کرن والوں کو سزائی بھی بڑی سخت دی ہیں اور اپنے منتخب در برگزیدہ بندوں کی نصرت بھی برابر فرمائی ہے۔ رودہ ایک دوسری یہ کہ سارا اختیار و اقتدار اللہ وحدہ لاشریک ہی کیساتھ میں ہے۔ اس کے علاوہ جن کی پرستش کی گئی ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی خلاصہ کو سامنے پیش کر کے آگے توحید پر جو خطبہ آ رہا ہے اس کے لئے تمہید استوار کر ررہی ہے۔ فرمایا کہ جو لوگ تمہاری پیش کردہ کتاب کی تکذیب کر رہے ہیں ان سے کہہ کہ یہ سرگزشتیں جو تمہیں سنائی گئی ہیں ان سے یہ حقیقت سورج کی طرح روشن کر سامنے آگئی ہے کہ شکر کا سزوار صرف اللہ ہے جس نے اپنے عدل و رحمت کی یہ شانیں دکھائی دیں اور یہ کہ سلامتی اور نجات اللہ کے ان بندوں ہی کے لئے ہے جن کو وہ دعوت حق اور خدمت خلق کے لئے منتخب فرماتا ہے ان کے دشمن کتنے ہی زندہ لگائیں لیکن وہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ کی حفاظت فرماتا ہے اور ان کے ہاتھوں حق کا بول بالا ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اصل توی ہے جو تاریخ کے ان دلائل سے ثابت ہوئی تو ان سے پوچھو کہ کیا عبادت و شکر گزاری کے لئے اللہ بہتر ہے جس کی یہ شانیں بیان ہوئیں ان کے وہ مزعومہ شرکاء و شعفا جو نہ اپنی کسی مدد پر قار ہی اور ان اپنے پچاریوں کی، اب آگے اسی مضمون سے توحید کے بیان کے لئے گریز ہے۔
Top