Ruh-ul-Quran - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
(اے پیغمبر) کہہ دیجیے ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے برگزیدہ کیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو یہ شریک بنا رہے ہیں
قُلِ الْحَمْدُالِلّٰہِ وَسَلٰـمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰے ط آٰ للّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ ۔ (النمل : 59) (اے پیغمبر) کہہ دیجیے ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور سلام ہے اس کے ان بندوں پر جن کو اس نے برگزیدہ کیا، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو یہ شریک بنا رہے ہیں۔ ) خطبے کا آغاز اور آغاز گفتگو کی تعلیم یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے اور یہ آیت کریمہ آنے والے خطبے کی تمہید ہے۔ اس میں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی تقریر اور اپنی گفتگو کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے۔ اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی گئی ہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے ان بندوں پر سلام بھیجا گیا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ کیا ہے۔ ان برگزیدہ بندوں میں چونکہ سب سے بالاقامت اور علومرتبت کے حامل محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اس لیے مسلمانوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ وہ اپنی گفتگو اور تقریر کا آغاز حمدوثناء اور نبی کریم ﷺ پر خصوصاً دیگر انبیائے کرام، صحابہ کرام اور آپ کے تمام متبعین پر عموماً درودوسلام کے ساتھ کرتے ہیں۔ قرونِ اولیٰ سے لے کر استعمار سے پہلے تک مسلمانوں کا یہی طریقہ رہا ہے اور اسلامی ذہنیت رکھنے والے لوگ آج بھی اسی پر عامل ہیں، لیکن جن لوگوں کے دماغوں پر بدیشی تہذیب اور زبان کا غلبہ ہے وہ اب اس طریقے کو ملائیت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس کی تعلیم قرآن کریم نے دی اور نبی کریم ﷺ نے اسے معمول بنا کر اسلامی ثقافت کا حصہ بنادیا۔ یہاں سے وہ آیات شروع ہورہی ہیں جو خاتمہ سورة کی آیات ہیں۔ اس لحاظ سے اس خطبے میں اوپر بیان کیے گئے واقعات کے نتائج بھی سامنے رکھ دیئے گئے ہیں اور قرآن کریم کی دعوت توحید آفاقی و انفسی دلائل کی قوت کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ اور سورة کے آغاز میں جس طرح مخالفین کے اصل سبب انکار سے پردہ اٹھایا گیا تھا اس کو مزید دلائل سے مرصع فرما کر ذکر کیا گیا ہے۔ دو کردار اور ان کا انجام اس آیت کریمہ میں بظاہر تو اللہ تعالیٰ کی حمد اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے لیکن حقیقت میں یہ کہنا مقصود ہے کہ اوپر ہم نے جو واقعات بیان کیے ہیں ان سے دو کردار سامنے آتے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کے ان بندوں کا جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کیا اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے شکرگزار اور فرمانبردار رہے۔ حکومت و ریاست اور دولت و رفاہیت ان میں کسی قسم کا پندار یا تکبر پیدا کرنے کی بجائے عاجزی اور فروتنی کا ذریعہ بنی رہی۔ ان کی زندگیاں کامیابی و کامرانی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔ ان سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس کے سامنے عاجز بن کر رہتے ہیں اللہ تعالیٰ انھیں سربلند فرماتا ہے اور ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء کے ترانے گونجتے ہیں اور اس کی حاکمیت کے غلغلے بلند ہوتے ہیں اور دلوں پر یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ ہر طرح کی حمد وثناء اور ہر طرح کے شکروسپاس کا حقدار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اور سلامتی وبقاء اور نیک نامی صرف ان لوگوں کا مقدر ہے جو اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بن کر رہتے ہیں۔ دوسرا کردار ان لوگوں کا ہے جنھیں اللہ تعالیٰ نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا۔ حکومت و ریاست جیسی نعمت عطا کی۔ مال و دولت ان کے گھر کی لونڈی بنی رہی، لیکن انھوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے اس حد تک ناشکری کی کہ خود خدا بن بیٹھے۔ ہر نعمت کو اپنی ملکیت سمجھا، خیر کی ہر قوت کو پامال کرکے رکھ دیا، علو و استکبار کی علامت بن کر لوگوں پر مظالم توڑے، اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی دعوت کو ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی اور اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں نہ جانے کتنے قوت کے مرکز تلاش کیے، اوتاروں اور دیوتائوں کی پوجا کی، پتھر کے بت تراشے اور انھیں خدائی کے منصب پر فائز کردیا۔ لیکن جب ان پر ان کی انہی حرکتوں اور تکذیبِ رسالت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا تو نہ ان کے خدا اور دیوتا کام آئے اور نہ ان کی حکومت اور دولت انھیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا سکی۔ ان دونوں کرداروں کو سامنے رکھ کر خطبے کی تمہید کے طور پر یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا تمہارے معبودانِ باطل بہتر ہیں۔ پھر اس کے بعد مسلسل اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تخلیق کے ایک ایک کرشمے کی طرف انگلی اٹھا کر پوچھا گیا ہے کہ بتائو یہ کام کس نے کیے ہیں ؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا بھی ان کاموں میں شریک ہے ؟ اور اگر نہیں ہے تو پھر تم نے انھیں خدا کیوں بنا رکھا ہے۔ اس طرح سے یہ آیات ردشرک کے لیے بھی ہیں اور دہریوں کی دہریت کے ابطال کے لیے بھی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا معمول یہ تھا کہ جب آپ ﷺ اس آیت کی تلاوت فرماتے تو فوراً اس کے جواب میں فرماتے بَلِ اللّٰہُ خَیْرٌوَّابْقٰی وَاَجَلُّ وَ اَکْرَمُ ” نہیں بلکہ اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا اور بزرگ و برتر ہے۔ “
Top