Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 59
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى١ؕ آٰللّٰهُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِكُوْنَؕ   ۧ
قُلِ : فرما دیں الْحَمْدُ لِلّٰهِ : تمام تعریفیں اللہ کے لیے وَسَلٰمٌ : اور سلام عَلٰي عِبَادِهِ : اس کے بندوں پر الَّذِيْنَ : وہ جنہیں اصْطَفٰى : چن لیا آٰللّٰهُ : کیا اللہ خَيْرٌ : بہتر اَمَّا : یا جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک ٹھہراتے ہیں
آپ کہہ دیجئے ( اے پیغمبر ! ) سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور اسلام ہے اللہ کے ان بندوں پر جن کو اس نے منتخب فرمایا ، کیا اللہ بہتر ہے یا وہ جن کو وہ شریک بناتے ہیں
ربط آیات نصیحت اور عبرت کے لیے پہلے اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کیا ۔ پھر درمیان میں حضرت سلیمان اور سبا والوں کا حال بیان کیا ۔ اس کے بعد قوم ثمود کی تباہی کا تذکرہ ہو اور پھر قوم لوط کی ہلاکت کا بیان ہوا ، یہ تمام قومیں کفر ، شرک اور نافرمانی کی بدولت تباہ و برباد ہوئیں ۔ اب اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کے بعض عقلی دلائل پیش کیے ہیں اور ساتھ ساتھ شرک کا رد کیا ہے۔ اللہ کی حمد و ثناء یہ ایک مسلمہ اصول یہ کہ جب بھی کوئی اہم بات کرنا مطلب ہو تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی جاتی ہے اور پھر اس کے مکرم بندوں پر سلام بھیجا جاتا ہے ۔ اور اس کے بعد اصل بات شروع کی جاتی ہے ۔ حضرت شاہ عبد القادر دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ ان آیات میں یہی چیز سکھلائی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس مقام پر توحید جیسا اہم مضمون بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا ۔ ارشاد ہوتا ہے قل الحمد للہ اے پیغمبر ! آپ کہہ دیں کہ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں پچھلی آیات میں نافرمانوں کی تباہی کا حال بیان کر کے اللہ کا شکر ادا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے کہ اچھا ہو یہ لوگ اپنے انجام کو پہنچ گئے ۔ ورنہ دنیا میں مزید فتنہ و فساد کا موجب بنتے ، اس قسم کی مثال بعض دوسرے مقامات پر بھی ملتی ہے مثلاً سورة الانعام میں ہے فَقُطِعَ دَابِرُا الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاط وَالْحَمْدُ ِ اللہ ِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ( آیت : 54) ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ گویا ظالموں اور نافرمانوں کی بیخ کنی پر اللہ کی تعریف کرنی چاہئے۔ انبیاء پر درد و سلام پہلی بات یہ ہے کہ اللہ کی تعریف بیان کریں اور دوسری یہ کہ ہر اہم کام کی ابتداء سے پہلے وسلم علی عبادہ الذی اصصفی اور سلام ہے اللہ کے منتخب بندوں پر ۔ اصطفی کا معنی پسند کرنا بھی ہوتا ہے ، گویا اللہ کے پسندیدہ بندوں پر سلامتی ہو۔ اللہ کے پسندیدہ یا منتخب شدہ بندے اس کے انبیائے کرام ہیں اور پھر ان کے بعد ان کے صحابہ کرام ، اولیاء اللہ اور نیک اور صالح بندے ہیں ۔ ان پر بھی سلام ہو ، یعنی اللہ تعالیٰ ان کو اپنی سلامتی میں رکھے ، انسان کے لیے خدا تعالیٰ کے احسانات میں سب سے بڑا احسان دولت ایمان ہے جو کہ انبیاء کے توسل سے حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ دولت اللہ کے نیک بندے اگلی نسلوں تک پہنچاتے ہیں ۔ ایمان کے بعد احکام شرعیہ کا علم بھی خدا کے انہی بندوں کی معرفت حاصل ہوتا ہے جن پر عمل کر کے انسان کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے ، لہٰذا ان پر سلام کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا ضروری ہوجاتا ہے تا کہ ان کے ساتھ انسان کا تعلق قائم رہے۔ نبی پر درود پڑھنے سے نبی کو کس قدر فائدہ ہوتا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ، تا ہم درود بھیجنے والے کو ضرور فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔ انبیائے کرام ہمارے درود وسلام کی وجہ سے دجات عالیہ تک نہیں پہنچتے بلکہ اللہ تعالیٰ خود انہیں ان کی صلاحیت اور استعداد اور اپنی مہربانی سے درجہ کمال تک پہنچاتا ہے ۔ لہٰذا ہمارا فرض ہے کہ ہم ان پر درود سلام بھیجیں اور ان کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھیں۔ بہر حال اللہ نے ہی تعلیم دی ہے کہ ہر اچھے کام کے آغاز سے پہلے اللہ کی حمد وثناء بیان کرنی چاہئے اور اس کے بعد اللہ کے منتخب اور برگزیدہ بندوں پر درود سلام پیش کرنا چاہئے اور اس کے بعد اصل بات کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ اور شرکاء حمد وسلام کے بعد اب تمہید کے طور پر فرمایا اللہ خیر اما یشرکون بھلا یہ تو بتلائو کہ اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وہ حق کو یہ لوگ اس کے ساتھ شریک بناتے ہیں آگے بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل آ رہے ہیں اور یہاں بھی انسان کے ضمیرکو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ اپنی عقل کو بروئے کار لا کر بتائو کہ ایک طرف اللہ وحدہٗ لا شریک ہے جو منبع ہدایت ہے ، تمام ظاہری اور باطنی انعامات عطا کرتا ہے تمام تغیرات وتقلبات اس کے قبضہ وقدرت میں ہیں اور وہ ہر لحاظ سے با اختیار ہے۔ اس کے بر خلاف انسانوں ، جنوں یا فرشتوں میں سے اس کے شریک ہیں جو مخلوق ہیں ۔ شجر اور حجر ہیں جو بےجان چیزیں ہیں اور جنہیں کچھ اختیار حاصل نہیں ورنہ وہ نفع نقصان کے مالک ہیں ۔ جب ان دونوں کا تقابل کیا جائے گا تو ہر صاحب عقل اور ہر مذہب و ملت کا پیرو کار یہی جواب دیگا کہ اللہ ہی بہتر ہے ، وہ خالق ہے ، ہر لحاظ سے مختار ہے وہ کمالات کا منبع ہے ، وہ مانگنے والا نہیں بلکہ دینے والا ہے، تو ظاہر ہے کہ وہی بہتر ہے ، بھلا وہ کیسے بہتر ہو سکتے ہیں جو مخلوق ہیں اور لوگ ان کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں ؟ دلائل توحید اور تخلیق ارض و سما آگے اللہ تعالیٰ نے بعض دلائل توحید بیان کیے ہیں جن میں غور و فکر کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو پہچان سکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے امن خلق السموات والارض وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صنعت خلق کا ظہور ہے کہ آسمان و زمین اور ہر چیز کا خالق وہی ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ توحید خدو ندی کے دو درجے ایسے ہیں جن میں سارے کا فر اور مشرک بھی متفق ہیں ۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ واجب الوجود ہے یعنی اس کی ہستی خود بخود ہے ، کسی کی عطا کردہ نہیں ۔ اس بات کے مشرک بھی قائل ہیں کہ صرف خدا کا وجود ذاتی ہے ۔ باقی ساری مخلوق کا وجود خدا تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ توحید کا دوسرا درجہ خالقیت کا ہے ، کسی نئے یا پرانے مشرک ہندو ، مجوسی شنٹو ، ویت نامی ، چینی ، رومی سے پوچھ لیں ۔ سب کہیں گے کہ پیدا کرنے والی ذات فقط خدا ہے ۔ باقی سب مخلوق ہے۔ آگے چل کر توحید کا تیسرا درجہ تدبیر کا آنا ہے۔ یہاں آ کر اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک صحیح مومن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر چیز کی تدبیر بھی اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ مگر نجومی اس کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور مشرک کبھی شجر و حجر کی طرف ، کبھی جنات اور فرشتوں کی طرف اور کبھی اولیاء اللہ کی طرف یہیں سے شرک کی ابتداء ہوتی ہے اور پھر چوتھا درجہ عبادت کا ہے ، ایک سچا مومن عبادت بھی صرف اللہ کی کرتا ہے۔ اسی کے سامنے سجدہ ریز ہوتا ہے ، اتنی سے حاجت روانی اور مشکل کشائی چاہتا ہے ، مگر مشرک غیر اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتے ہیں ۔ اس کے نام کی منتیں مانتے ہیں اور اس سے اپنی حاجت براری کرتے ہیں ۔ الغرض صفت تخلیق کے ضمن میں دہریوں کی قلیل تعداد کے علاوہ ہر مذہب اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ صرف اللہ ہی کو خالق تسلیم کرتے ہیں قرآن پاک نے تو صاف کہ دیا ہے اللہ خالق کل شی ( لزمر : 26) ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ باقی سب مخلوق ہے عرش سے لے کر فرش تک اور ملائکہ سے لے کر جنات تک ہر چیز مخلوق ہے۔ بہر حال اللہ نے فرمایا کہ بتلائو ارض و سما کا خالق کون ہے ؟ (2) بارش کا نزول پھر اللہ نے دوسری دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا اچھا یہ بتلائو وانزل لکم من السماء ماء تمہارے لیے آسمان کی طرف سے پانی کس نے نازل کیا یعنی بارش کون برساتا ہے ۔ سماء کے لفظ میں یہ بات پوشیدہ ہے کہ نزول بارش کا سبب محض بادل نہیں ، بلکہ اوپر سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بارش کے لیے خطے اور مقدار کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس میں کسی مخلوق کی خواہش کا دخل نہیں ہوتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کار فرما ہوتی ہے ۔ مطلب یہ کہ بارش برسانا بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں ۔ پھر خود ہی فرمایا کہ بارش کے نتیجے میں ۔ وانبتابہ حدائق ذت بھجۃ اور ہم نے اس پانی کے ذریعے بارونق باغات اگائے ہیں ۔ حدیقہ اس باغ کو کہتے ہیں جس کے ارد گرد دیوار یا جھاڑیوں کی باڑ ہو ، وگرنہ عام باغ کو بستان کہتے ہیں مطلب یہ کہ ہر چیز کی تخلیق ، بارش کا نزول اور باغات کی پیداوار ہمارا ہی کام ہے۔ ساتھ ہی وضاحت فرما دی ما کان لکم ان تنبتوا شجر ھا یہ تمہارے بس کو بات نہیں ہے کہ باغات کے درختوں کو اگا سکو یا پھل پھول لا سکو ۔ یہ سب ہماری ہی قدرت کے کرشمے ہیں۔ فرمایا جب ان میں سے کوئی بھی چیز کسی کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر یہ بتلائو عر الہ مع اللہ کیا خدا تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی جس نے ان میں سے کوئی کام بھی کیا ہو ۔ زمین و آسمان یا ان کی کسی چیز کو پیدا کیا ہو آسمانی کروں کو بنایا ہوبارش برسائی ہو یا درخت اگائے ہوں ۔ اگر یہ بات نہیں ہے تو پھر خدا کے ساتھ شریک کیوں بناتے ہو ؟ کبھی خدا تعالیٰ کی صفت میں دوسروں کو شریک کرتے ہو اور کبھی عبادت میں آخر کیوں ؟ فرمایا حقیقت یہ ہے بل ھو قوم یعدنون یہ ایسے لوگ ہیں جو اتنے واضح دلائل کے باوجود حقیقت کے اعتراف سے انحراف کرتے ہیں یعنی حق بات کو دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں یعد لون کا معنی انحراف بھی ہے اور دوسروں کو برابر کرنا بھی گویا یہ لوگ بڑے ظالم اور بےانصاف ہیں ۔ جو اتنی واضح دلیلوں کے باوجود خدا کے ساتھ دوسروں کو برابر ٹھہراتے ہیں ۔ ان تمام دلائل پر اگر انسان اپنی عقل کے ساتھ غور کرے تو اس کی سمجھ میں آسکتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی چیز بھی غیر اللہ کے اختیار میں نہیں ہے تو پھر ان کی خدا تعالیٰ کا شریک کیوں بنایا جائے۔ (3) زمین بطور قرار گاہ فرمایا زمین کی تخلیق کے بعد امن جعل الارض قرر اس کو قرار گاہ یعنی ٹھہرنے کی جگہ کس نے بنایا ؟ آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اتارنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حسین ( البقرہ 63) تمہارے لیے زمین ٹھہرنے کی جگہ اور ایک وقت یعنی قیامت تک فائدہ اٹھانے کا سرو سامان ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو یہ پورا نظام تبدیل کردیا جائے گا ۔ اس کے بعد دوسرا نظام قائم ہوگا ، اللہ نے زمین کو ساخت ہی ایسی بنانی ہے کہ انسان اس پر سہولت کے ساتھ سارے کام انجام دے سکتا ہے ۔ زمین نہ تو اتنی سخت ہے کہ اکھاڑی نہ جاسکے اور نہ ہی اتنی نرم ہے کہ انسان اس میں دھنس جائے ۔ اس زمین میں لوگ کاشتکاری کرتے ہیں ، کنویں کھودتے ہیں ، اس پر مکانات تعمیر کرتے ہیں اور دیگر کاروبار انجام دیتے ہیں ۔ سورة المرسلت میں اللہ نے فرمایا ہے اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا (آیت : 52 ، 62) کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا جو ہر زندہ اور مردہ کو اپنی تحویل میں لیے رکھتی ہے ، جب تک انسان زندہ رہتا ہے زمین کے اوپر جا کر سارے کام کرتا ہے اور جب مر جاتا ہے تو یہی زمین اس کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ سورة طہٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے مِنْھَا خَلَقْنٰـکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی (آیت : 55) ہم نے اسی زمین سے تمہیں پیدا کیا ، اسی میں ( مرنے کے بعد) تمہیں واپس لوٹائیں گے اور (قیامت کو) اسی سے دوبارہ نکالیں گے ، غرضیکہ انسان کا ماضی ، حال اور مستقبل اسی زمین کے ساتھ وابستہ ہے۔ لفظ قرار میں اس حقیقت کی طراشارہ ہے کہ انسان کا مستقر صرف یہی زمین ہے نہ کہ دوسرے سیارے چاند ، مریخ ، مشتری وغیرہ موجود زمانے میں سائنس نے اس قدر ترقی کی ہے کہ لوگ چاند تک پہنچ گئے ہیں ، وہ بھی انسان کے لیے مستقر کی حیثیت نہیں رکھتا ۔ ہواں پر نہ پانی ہے ، نہ خوراک اور نہ ہوا ۔ ایسی حالت میں انسان وہاں پر زندہ نہیں رہ سکتا ۔ جو لوگ عارضی طور پر وہاں پہنچتے ہیں وہ ضرورت کی ہر چیز یہاں سے لے کر گئے ہیں ۔ ایک تخمینے کے مطابق چاند پر ایک پونڈ خوراک پر کم از کم تیس ہزار پونڈ خرچ آتے ہیں اور وہاں پر پہنچنے کا لباس چار لاکھ میں تیار ہوتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ان حالات میں چاند پر رہائش رکھنے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہوگا ۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو قرار گاہ بنایا ہے ، نہ کہ کسی دوسرے سیارے کو۔ تو کار زمین رانکو ساختی کہ با آسمان نیز پر داختی آسمان پر کمندیں ڈالنے کی بجائے اگر زمین کے حالات کو ہی درست کردیا جائے تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی ۔ اس وقت زمین فتنہ و فساد کا گڑھ بنی ہوئی ہے۔ اس میں بدامنی ، غربت اور جہالت کا دور دورہ ہے ۔ دیگر سیاروں کو مسخر کرنے کی بجائے اگر یہی وسائل اس زمین کو بہتری پر صرف کیے جائیں تو اس سے انسانوں کی حالت سنور سکتی ہے ، یہاں پر علم کی روشنی پھیلائی جاسکتی ہے ، جہالت اور غربت کو دور کیا جاسکتا ہے اور اس طرح انسانیت کی بہتر طور پر خدمت کی جاسکتی ہے۔ (4) دریا اور چاہا اللہ نے توحید کی چوتھی دلیل یہ بیان فرمائی کہ بتلائو تو وہ کون ہے وجعل خللھا انھرا جس نے زمین میں نہریں چلا رہی ہیں ۔ اللہ نے ایسا انتظام فرما دیا ہے کہ پہاڑوں پر بارش ہوتی ہے تو وہ دریائوں اور ندی نالوں کی صورت میں میدانی علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔ پہاڑوں پر جمنے والی برف پگلتی ہے تو دریائوں میں سارا سال پانی آتا رہتا ہے جس سے زمین سیراب ہوتی ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے۔ وجعل لھا رواسی اور زمین پر بوجھل پہاڑ رکھ دیئے ہیں تا کہ زمین ڈولنے نہ پائے ، پھر ان پہاڑوں سے پانی کے علاوہ درخت ، جڑی بوٹیاں ، پتھر اور مع دنیات حاصل ہوتی ہیں جو لوگ کے لیے نہایت کار آمدچیزیں ہیں ۔ زمین پر پہاڑی بھی اسی نے ٹکائے ہیں ۔ وجعل بین البحرین حاجز اور دو دریائوں یا سمندروں کے درمیان آڑ پیدا کردی ہے جس کی وجہ سے میٹھا اور کڑوا پانی آپس میں خلط ملط نہیں ہوتے ، یہ تمام چیزیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہیں اور اس کی قدرت کا ملہ کا شاہکار ہیں ۔ تو بھلا بتلائوء الہ مع للہ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا الٰہ بھی ہے جو ان میں سے کوئی کام کرسکے ۔ فرمایا اللہ کے علاوہ معبود تو کوئی نہیں بل اکثر ھم لا یعلمون بلکہ اکثر لوگ بےعلم اور بےسمجھ ہیں جو ان تمام دلائل و شواہد کے باوجود شرک کرتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ ان دلائل پر ہی غور کرلیتے تو بات ان کی سمجھ آجاتی اور یہ اللہ کی تدبیر اور اس کی عبادت میں دوسروں کو شریک نہ کرتے ، مگر ان لوگوں میں غور و فکر کی صلاحیت ہی نہیں ، یہ بےسمجھ لوگ ہیں۔
Top