Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 68
وَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب يَخْلُقُ : پیدا کرتا ہے مَا يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے وَيَخْتَارُ : اور وہ پسند کرتا ہے مَا كَانَ : نہیں ہے لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : اختیار سُبْحٰنَ اللّٰهِ : اللہ پاک ہے وَتَعٰلٰى : اور برتر عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں
اور تیرا رب پیدا کرتا ہے جو چاہے اور پسند کرے جس کو چاہے ان کے ہاتھ میں نہیں پسند کرنا، اللہ نرالا ہے اور بہت اوپر ہے اس چیز سے کہ شریک بتلاتے ہیں،
خلاصہ تفسیر
اور آپ کا رب (بالانفراد صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے چناچہ وہ) جس چیز کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے (تو تکوینی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) اور جس حکم کو چاہتا ہے پسند کرتا ہے (اور انبیاء کے ذریعہ سے نازل فرماتا ہے پس تشریعی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں) ان لوگوں کو تجویز (احکام) کا کوئی حق (حاصل) نہیں (کہ جو حکم چاہے تجویز کرلیں جیسے یہ مشرک اپنی طرف سے شرک کو جائز تجویز کر رہے ہیں اور اس خصوصی اختیار سے ثابت ہو کہ) اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک اور برتر ہے (کیونکہ جب تکوینًا و تشریعاً خالق اور مختار ہونے میں وہ منفرد ہے تو عبادت کا بھی تنہا وہی مستحق ہے کیونکہ معبود ہونا صرف اس کا حق ہے جو تکوینی اور تشریعی دونوں اختیار رکھتا ہو) اور آپ کا رب (علم ایسا کامل رکھتا ہے کہ وہ) سب چیزوں کی خبر رکھتا ہے جو ان کے دلوں میں پوشیدہ رہتا ہے اور جس کو یہ ظاہر کرتے ہیں (اور کسی کا ایسا علم بھی نہیں اس سے بھی انفراد ثابت ہوا) اور (آگے اس کی تصریح ہے کہ) اللہ وہی (ذات کامل الصفات) ہے اس کے سوا کوئی معبود (ہونے کے قابل) نہیں حمد (وثناء) کے لائق دنیا و آخرت میں وہی ہے (کیونکہ اس کے تصرفات دونوں عالم میں ایسے ہیں جو اس کے جامع کمالات اور مستحق حمد ہونے پر شاہد ہیں) اور (اختیارات سلطنت اس کے ایسے ہیں کہ) حکومت بھی (قیامت میں) اسی کی ہوگی اور (قوت و وسعت سلطنت اس کی ایسی ہے) کہ تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے (یہ نہیں کہ بچ جاؤ یا اور کہیں جا کر پناہ لے لو اور اس کے اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان لوگوں سے) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے روشنی کو لے آوے (پس قدرت میں بھی وہی منفرد ہے) تو کیا تم (توحید کے ایسے صاف دلائل کو) سنتے نہیں (اور اسی اظہار قدرت کے لئے) آپ (ان سے اس کے عکس کی نسبت بھی) کہئے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ تعالیٰ تم پر ہمیشہ کے لئے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو خدا کے سوا وہ کون سا معبود ہے جو تمہارے لئے رات کو لے آوے جس میں تم آرام پاؤ کیا تم (اس شاہد قدرت کو) دیکھتے نہیں (قدرت میں اس کا منفرد ہونا بھی اس کو مقتضی ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو) اور (وہ منعم ایسا ہے کہ) اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور تاکہ دن میں اس کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان دونوں نعمتوں پر) تم (اللہ کا) شکر کرو (تو انعام و احسان میں بھی وہی منفرد ہے یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ معبودیت میں بھی وہی منفرد ہو۔)

معارف و مسائل
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ وَيَخْتَارُ ، اس آیت کا ایک مفہوم تو وہ ہے جو خلاصہ تفسیر میں لیا گیا ہے کہ یختار سے مراد اختیار احکام ہے کہ حق تعالیٰ جبکہ تخلیق کائنات میں مفنرد ہے کوئی اس کا شریک نہیں تو اجرائے احکام میں بھی منفرد ہے جو چاہے اپنی مخلوق میں حکم نافذ فرمائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح اختیار تکوینی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں اسی طرح اختیار تشریعی میں بھی کوئی شریک نہیں اور اس کا ایک دوسرا مفہوم وہ ہے جو امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ ابن قیم نے زاد المعاد کے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ اس اختیار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہیں اپنے اکرام و اعزاز کے لئے انتخاب فرما لیتے ہیں اور بقول بغوی یہ جواب ہے مشرکین مکہ کے اس قول کا کہ لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ، یعنی یہ قرآن اللہ کو نازل ہی کرنا تھا تو عرب کے دو بڑے شہروں مکہ اور طائف میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل فرماتا کہ اس کی قدر و منزلت پہچانی جاتی، ایک یتیم مسکین پر نازل فرمانے میں کیا حکمت تھی ؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ جس مالک نے تمام مخلوقات کو بغیر کسی شریک کی امداد کے پیدا فرمایا ہے یہ اختیار بھی اسی کو حاصل ہے کہ اپنے کسی خاص اعزاز کے لئے اپنی مخلوق میں سے کسی کو منتخب کرے اس میں وہ تمہاری تجویزوں کا کیوں پابند ہو کہ فلاں اس کا مستحق ہے فلاں نہیں۔
ایک چیز کو دوسری چیز پر یا ایک شخص کو دوسرے پر فضیلت کا معیار صحیح اختیار خداوندی ہے
حافظ ابن قیم نے اس آیت سے ایک عظیم الشان ضابطہ اخذ کیا ہے کہ دنیا میں جو ایک جگہ کو دوسری جگہ پر یا ایک چیز کو دوسری چیز پر فضیلت دی جاتی ہے یہ اس چیز کے کسب و عمل کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ وہ بلاواسطہ خالق کائنات کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس نے سات آسمان پیدا کئے ان میں سے سماء علیا کو دوسروں پر فضیلت دے دی حالانکہ مادہ ساتوں آسمانوں کا ایک ہی تھا پھر اس نے جنت الفردوس کو دوسری سب جنتوں پر اور جبرئیل و میکائیل و اسرافیل وغیرہ خاص فرشتوں کو دوسرے فرشتوں پر، اور انبیاء (علیہم السلام) کو دوسرے سارے بنی آدم پر اور ان میں سے اولوالعزم رسولوں کو دوسرے انبیاء پر اور اپنے خلیل ابراہیم اور حبیب محمد مصطفے ﷺ کو سب بنی ہاشم پر پھر اسی طرح صحابہ کرام اور دوسرے اسلاف امت کو دوسروں پر فضیلت دینا یہ سب حق تعالیٰ جل شانہ کے انتخاب و اختیار کا نتیجہ ہے۔
اسی طرح زمین کے بہت سے مقامات کو دوسرے مقامات پر اور بہت دنوں اور راتوں کو دوسرے دنوں اور راتوں پر فضیلت دینا یہ سب اسی اختیار اور انتخاب حق جل شانہ کا اثر ہے غرض افضیلت و مفضولیت کا اصل معیار تمام کائنات میں یہی انتخاب و اختیار ہے البتہ افضلیت کا ایک دوسرا سبب انسانی اعمال و افعال بھی ہوتے ہیں اور جن مقامات میں نیک اعمال کئے جاویں وہ مقامات بھی ان اعمال صالحہ یا صالحین عباد کی سکونت سے متبرک ہوجاتے ہیں۔ یہ فضیلت کسب و اختیار اور عمل صالح سے حاصل ہو سکتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا میں مدار فضیلت دو چیزیں ہیں ایک غیر اختیاری ہے جو صرف حق تعالیٰ کا انتخاب ہے دوسرا اختیاری جو اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ سے حاصل ہوتا ہے۔ علامہ ابن قیم نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی کلام کیا ہے اور آخر میں صحابہ کرام میں سے خلفاء راشدین کو تمام دوسرے صحابہ پر اور خلفاء راشدین میں صدیق اکبر ان کے بعد عمر بن خطاب ان کے بعد عثمان غنی ان کے بعد علی مرتضی ؓ کی ترتیب کو ان دونوں معیاروں سے ثابت کیا ہے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ کا بھی ایک مستقل رسالہ فارسی زبان میں اس موضوع پر ہے جس کا اردو ترجمہ احقر نے بنام بعض التفصیل لمسئلتہ التفضیل شائع کردیا ہے اور احکام القرآن سورة قصص میں بھی اس کو بزبان عربی مفصل لکھ دیا ہے۔ اہل علم کے ذوق کی چیز ہے وہاں مطالعہ فرمائیں۔
Top