Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَوَّلَ : پہلا بَيْتٍ : گھر وُّضِعَ : مقرر کیا گیا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے لَلَّذِيْ : جو بِبَكَّةَ : مکہ میں مُبٰرَكًا : برکت والا وَّھُدًى : اور ہدایت لِّلْعٰلَمِيْنَ : تمام جہانوں کے لیے
بیشک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت جہان کے لوگوں کو۔
خلاصہ تفسیر
یقینا وہ مکان جو سب (مکانات عبادت) سے پہلے لوگوں (کی عبادت گاہ بننے) کے واسطے (منجانب اللہ) مقرر کیا گیا وہ مکان ہے جو کہ (شہر) مکہ میں ہے (یعنی خانہ کعبہ) جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے (کیونکہ اس میں دینی نفع یعنی ثواب ہے) اور (عبادت خاص مثلا نماز کا رخ بتلانے میں) جہان بھر کے لوگوں کا رہنما ہے (مطلب یہ ہے کہ حج وہاں ہوتا ہے اور مثلا نماز کا ثواب بروئے تصریح حدیث وہاں بہت زیادہ ہوتا ہے، دینی برکت تو یہ ہوئی، اور جو وہاں نہیں ہیں ان کو اس مکان کے ذریعے سے نماز کا رخ معلوم ہوتا ہے یہ رہنمائی ہوئی)۔
معارف و مسائل
مذکورہ آیت میں ساری دنیا کے مکانات یہاں تک کہ تمام مساجد کے مقابلہ میں بیت اللہ یعنی کعبہ کا شرف اور افضلیت کا بیان ہے، اور یہ شرف و فضیلت کئی وجہ سے ہے۔
فضائل بیت اللہ مع تاریخ و تعمیر
اول اس لئے کہ وہ دنیا کی تمام سچی عبادت گاہوں میں سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ دوسرے کہ وہ برکت والا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ پورے جہان کے لئے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آیت کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو منجانب اللہ لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لئے بنایا گیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانہ، حضرت آدم ؑ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد قتادہ، سدی وغیرہ صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے رہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں، مگر عبادت کے لئے یہ پہلا گھر بنا ہو حضرت علی ؓ سے یہی منقول ہے۔ بیہقی ؒ نے اپنی کتاب " دلائل النبوۃ " میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جبرئیل ؑ کے ذریعہ ان کو یہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ (کعبہ) بنائیں، ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں، اور ان سے کہا گیا کہ آپ اول الناس یعنی سب سے پہلے انسان ہیں، اور یہ گھر اول بیت وضع للناس ہے، یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ضعفہ ابن کثیر بابن لہیعہ ولا یخفی انہ الیس بمتروک الحدیث مطلقا ولا سیما فی ہذا المقام فان الروایۃ قد تایدت باشارات الکتاب۔
بعض روایات میں ہے کہ آدم ؑ کی یہ تعمیر کعبہ نوح ؑ کے زمانے تک باقی تھی، طوفان نوح میں منہدم ہوئی، اور اس کے نشانات مٹ گئے، اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا، پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی، پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی، اور پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ ﷺ کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کی، جس میں آنحضرت ﷺ بھی شریک ہوئے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا، لیکن قریش نے اس تعمیر میں بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تعمیر کی تھی کہ ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کردیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے، اور خلیل اللہ ؑ کی بناء میں کعبہ کے دو دروازے تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کے لئے، قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا، تیسرا تغیر یہ کیا کہ دروازہ بیت اللہ کا سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے، بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اس کو بالکل بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں، قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کئے ہیں ان کی اصلاح کردوں، لیکن نو مسلم ناواقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اسی لئے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں، اس راشاد کے بعد اس دنیا میں آپ ﷺ کی حیات زیادہ نہیں رہی۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے، خلفائے راشدین کے عبد جس وقت مکہ مکرمہ پر ان کی حکومت ہوئی تو انہوں نے بیت اللہ منہدم کر کے ارشاد نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا، مگر عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت مکہ معظمہ پر چند روزہ تھی، ظالم الامۃ حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کر کے ان کو شہید کیا، اور حکومت پر قبضہ کر کے اس کو گوارا نہ کیا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کی مدح وثناء کا ذریعہ بنا رہے، اس لئے لوگوں میں مشہور کیا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ کا یہ فعل غلط تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا ہمیں اسی حالت پر اس کو رکھنا چاہئے، اس بہانے سے بیت اللہ کو پھر منہدم کر کے اسی طرح کی تعمیر بنادی جو زمانہ جاہلیت میں قریشی نے بنائی تھی، حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بنا پر یہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سر نو حدیث رسول کریم ﷺ کے موافق بنادیں، لیکن اس زمانہ کے امام حضرت امام مالک بن انس ؓ نے یہ فتوی دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والے بادشاہوں کے لئے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنادے گا، ہر آنے والا بادشاہ اپنی نام آوری کے لئے یہی کام کرے گا، اس لئے اب جس حالت میں بھی ہے اس حالت میں چھوڑدینا مناسب ہے، تمام امت نے اس کو قبول کیا، اسی وجہ سے آج تک وہی حجاج بن یوسف ہی کی تعبیر باقی ہے، البتہ شکست و ریخت اور مرمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ ان روایات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یا کم از کم سب سے پہلا عبادت خانہ ہے، قرآن کریم میں جہاں یہ ذکر ہے کہ کعبہ کی تعمیر بامر خداوندی حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے کی ہے وہیں اس کے اشارات بھی موجود ہیں کہ ان بزرگوں نے اس کی ابتدائی تعمیر نہیں فرمائی، بلکہ سابق بنیادوں پر اسی کے مطابق تعمیر فرمائی، اور کعبہ کی اصل بنیاد پہلے ہی سے تھی۔ قرآن کریم کے ارشاد (واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعل۔ 2: 127) سے بھی ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے کہ قواعد بیت اللہ یعنی اس کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں سورة حج کی آیت میں ہے(واذ بوانا لابراہیم مکان البیت۔ 22: 26) " یعنی جب ٹھیک کردیا ہم نے ابراہیم کے لئے ٹھکانا اس گھر کا "۔ اس سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی جگہ پہلے سے متعین چلی آتی تھی، اور پہلی آیت سے اس کی بنیادوں کا ہونا بھی مفہوم ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت خلیل اللہ علیہ وسلم کو تعمیر بیت اللہ کا حکم دیا گیا تو فرشتہ کے ذریعہ ان کو بیت اللہ کی جگہ سابق بنیادوں کی نشاندہی کی گئی جو ریت کے تودوں میں دبی ہوئی تھی۔
بہر حال آیت مذکورہ سے کعبہ کی ایک فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ وہ دنیا کا سب سے پہلا گھر یا پہلا عبادت خانہ ہے، صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مسجد حرام، انہوں نے عرض کیا اس کے بعد کونسی مسجد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد بیت المقدس ہے، پھر دریافت کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال کا۔ اس حدیث میں بیت اللہ کی بناء جدید جو ابراہیم ؑ کے ہاتھوں ہوئی اس کے اعتبار سے بیت المقدس کی تعمیر کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے، کیونکہ روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ بیت المقدس کی ابتدائی تعمیر بھی حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد میں ہوئی، اور حضرت سلیمان ؑ نے جو بیت المقدس کی تعمیر کی یہ بھی بیت اللہ کی طرح بالکل نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی، بلکہ سلیمان ؑ نے بناء ابراہیمی پر اس کی تجدید کی ہے، اس طرح روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں رہتا۔ حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ سے دنیا میں اس کی تعظیم و تکریم ہوتی چلی آئی ہے، اس میں لفظ وضع للناس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کسی خاص قوم یا جماعت ہی کا حصہ نہیں، بلکہ عامہ خلائق اور سب انسان اس کی تعظیم کریں گے، اس کی سرشت میں حق تعالیٰ نے ایک عظمت اور ہیبت کا داعیہ رکھا ہے کہ لوگوں کے قلوب اس کی طرف خود بخود مائل ہوتے ہیں، اس میں لفظ " بکہ " سے مراد مکہ معظمہ ہے، خواہ یہ کہا جائے کہ میم کو باء سے بدل دیا گیا ہے، عرب کے کلام میں اس کی نظائر بکثرت ہیں کہ میم کو باء سے بدل دیا کرتے ہیں، اور یا یہ کہا جائے کا مکہ کا دوسرا نام بکہ بھی ہے۔
بیت اللہ کی برکات
اس آیت میں بیت اللہ کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مبارک ہے، لفظ مبارک، برکت سے مشتق ہے، برکت کے معنی ہیں بڑہنا اور ثابت رہنا، پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے، اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃ اس سے زائد نکلا کرتے ہیں، اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہا جاسکتا ہے۔ بیت اللہ کا بابرکت ہونا ظاہری طور پر بھی ہے معنوی طور پر بھی، اس کے ظاہری برکات میں یہ مشاہدہ ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس ایک خشک ریگستان اور بنجر زمین ہونے کے باوجود اس میں ہمیشہ ہر موسم میں ہر طرح کے پھل اور ترکاریاں اور تمام ضروریات مہیا رہتی ہیں، کہ صرف اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ اطراف عالم سے آنے والوں کے لئے بھی کافی ہوجاتی ہیں، اور آنے والوں کا حال دنیا کو معلوم ہے کہ خاص موسم حج میں تو لاکھوں انسان اطراف عالم سے جمع ہوتے ہیں جن کی مردم شماری اہل مکہ سے چوگنی پانچ گنی ہوتی ہے، یہ ہجوم عظیم وہاں صرف دو چار روز نہیں بلکہ مہینوں رہتا ہے، موسم حج کے علاوہ بھی کوئی وقت ایسا نہیں آتا جس میں باہر سے ہزاروں انسانوں کی آمد و رفت نہ رہتی ہو، پھر خاص موسم حج میں جبکہ وہاں لاکھوں انسانوں کا زائد مجمع ہوتا ہے کبھی نہیں سنا گیا کہ بازار میں کسی وقت بھی ایشاء ضرورت ختم ہوگئیں، ملتی نہیں، یہاں تک کہ قربانی کے بکرے جو وہاں پہنچ کر ایک ایک انسان سو سو بھی کرتا ہے اور اوسط فی کس ایک کا تو یقینی ہے، یہ لاکھوں بکرے وہاں ہمیشہ ملتے ہیں، یہ بھی نہیں کہ دوسرے ملک سے منگوانے کا اہتمام کیا جاتا ہو، قرآن کریم میں (یجبی علیہ ثمرت کل شیء۔ 28: 57) " یعنی اس میں باہر سے لائے جاتے ہیں ثمرات ہر چیز کے " ان الفاظ میں اس کی طرف واضح اشارہ بھی موجود ہے۔ یہ تو ظاہری برکات کا حال ہے جو مقصود کی حیثیت نہیں رکھتیں، اور معنوی و باطنی برکات تو اتنی ہیں کہ اس کا شمار نہیں ہوسکتا، بعض اہم عبادات تو بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہیں، ان میں جو اجر عظیم اور برکات روحانی ہیں ان سب کا مدار بیت اللہ پر ہے، مثلا حج وعمرہ، اور بعض دوسری عبادات کا بھی مسجد حرام میں ثواب بدرجہا بڑھ جاتا ہے، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی انسان گھر میں نماز پڑھے اس کو ایک نماز کا ثواب ملے گا، اور اگر اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرے تو اس کو پچیس نمازوں کا ثواب حاصل ہوگا، اور جو جامع مسجد میں ادا کرے تو پانچ سو نمازوں کا ثواب پائے گا، اور اگر مسجد اقصی میں نماز ادا کی تو ایک ہزار نمازوں کا اور میری مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے، اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کا۔ (یہ روایت ابن ماجہ و طحاوی وغیرہ نے نقل کی ہے) حج کے فضائل میں یہ حدیث عام مسلمان جانتے ہیں کہ حج کو صحیح طور پر ادا کرنے والا مسلمان پچھلے گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پاک و صاف پیدا ہوا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب بیت اللہ کی معنوی اور روحانی برکات ہیں، انہی برکات کو آیت کے آخر میں لفظ ھدی سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (مبارکا وھدی للعالمین)۔
Top