Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 96
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ
اِنَّ
: بیشک
اَوَّلَ
: پہلا
بَيْتٍ
: گھر
وُّضِعَ
: مقرر کیا گیا
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
لَلَّذِيْ
: جو
بِبَكَّةَ
: مکہ میں
مُبٰرَكًا
: برکت والا
وَّھُدًى
: اور ہدایت
لِّلْعٰلَمِيْنَ
: تمام جہانوں کے لیے
بیشک سب سے پہلا گھر جو مقرر ہوا لوگوں کے واسطے یہی ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت جہان کے لوگوں کو۔
خلاصہ تفسیر
یقینا وہ مکان جو سب (مکانات عبادت) سے پہلے لوگوں (کی عبادت گاہ بننے) کے واسطے (منجانب اللہ) مقرر کیا گیا وہ مکان ہے جو کہ (شہر) مکہ میں ہے (یعنی خانہ کعبہ) جس کی حالت یہ ہے کہ وہ برکت والا ہے (کیونکہ اس میں دینی نفع یعنی ثواب ہے) اور (عبادت خاص مثلا نماز کا رخ بتلانے میں) جہان بھر کے لوگوں کا رہنما ہے (مطلب یہ ہے کہ حج وہاں ہوتا ہے اور مثلا نماز کا ثواب بروئے تصریح حدیث وہاں بہت زیادہ ہوتا ہے، دینی برکت تو یہ ہوئی، اور جو وہاں نہیں ہیں ان کو اس مکان کے ذریعے سے نماز کا رخ معلوم ہوتا ہے یہ رہنمائی ہوئی)۔
معارف و مسائل
مذکورہ آیت میں ساری دنیا کے مکانات یہاں تک کہ تمام مساجد کے مقابلہ میں بیت اللہ یعنی کعبہ کا شرف اور افضلیت کا بیان ہے، اور یہ شرف و فضیلت کئی وجہ سے ہے۔
فضائل بیت اللہ مع تاریخ و تعمیر
اول اس لئے کہ وہ دنیا کی تمام سچی عبادت گاہوں میں سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ دوسرے کہ وہ برکت والا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ پورے جہان کے لئے ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ آیت کے الفاظ کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو منجانب اللہ لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے، وہ ہے جو مکہ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا عبادت خانہ کعبہ ہے، اس کی یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا کے سب گھروں میں پہلا گھر عبادت ہی کے لئے بنایا گیا ہو، اس سے پہلے نہ کوئی عبادت خانہ ہو نہ دولت خانہ، حضرت آدم ؑ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں، ان کی شان سے کچھ بعید نہیں کہ انہوں نے زمین پر آنے کے بعد اپنا گھر بنانے سے پہلے اللہ کا گھر یعنی عبادت کی جگہ بنائی ہو، اسی لئے حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد قتادہ، سدی وغیرہ صحابہ وتابعین اسی کے قائل ہیں کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ لوگوں کے رہنے سہنے کے مکانات پہلے بھی بن چکے ہوں، مگر عبادت کے لئے یہ پہلا گھر بنا ہو حضرت علی ؓ سے یہی منقول ہے۔ بیہقی ؒ نے اپنی کتاب " دلائل النبوۃ " میں بروایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے دنیا میں آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جبرئیل ؑ کے ذریعہ ان کو یہ حکم بھیجا کہ وہ بیت اللہ (کعبہ) بنائیں، ان حضرات نے حکم کی تعمیل کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ اس کا طواف کریں، اور ان سے کہا گیا کہ آپ اول الناس یعنی سب سے پہلے انسان ہیں، اور یہ گھر اول بیت وضع للناس ہے، یعنی سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ضعفہ ابن کثیر بابن لہیعہ ولا یخفی انہ الیس بمتروک الحدیث مطلقا ولا سیما فی ہذا المقام فان الروایۃ قد تایدت باشارات الکتاب۔
بعض روایات میں ہے کہ آدم ؑ کی یہ تعمیر کعبہ نوح ؑ کے زمانے تک باقی تھی، طوفان نوح میں منہدم ہوئی، اور اس کے نشانات مٹ گئے، اس کے بعد حضرت ابراہیم ؑ نے انہی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کیا، پھر ایک مرتبہ کسی حادثہ میں اس کی تعمیر منہدم ہوئی تو قبیلہ جرہم کی ایک جماعت نے اس کی تعمیر کی، پھر ایک مرتبہ منہدم ہوئی تو عمالقہ نے تعمیر کی، اور پھر منہدم ہوئی تو قریش نے رسول اللہ ﷺ کے ابتدائی زمانہ میں تعمیر کی، جس میں آنحضرت ﷺ بھی شریک ہوئے اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے قائم فرمایا، لیکن قریش نے اس تعمیر میں بناء ابراہیمی سے کسی قدر مختلف تعمیر کی تھی کہ ایک حصہ بیت اللہ کا بیت اللہ سے الگ کردیا جس کو حطیم کہا جاتا ہے، اور خلیل اللہ ؑ کی بناء میں کعبہ کے دو دروازے تھے، ایک داخل ہونے کے لئے دوسرا پشت کی جانب باہر نکلنے کے لئے، قریش نے صرف مشرقی دروازہ کو باقی رکھا، تیسرا تغیر یہ کیا کہ دروازہ بیت اللہ کا سطح زمین سے کافی بلند کردیا تاکہ ہر شخص آسانی سے اندر نہ جاسکے، بلکہ جس کو وہ اجازت دیں وہی جاسکے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ موجودہ تعمیر کو منہدم کر کے اس کو بالکل بناء ابراہیمی کے مطابق بنادوں، قریش نے جو تصرفات بناء ابراہیمی کے خلاف کئے ہیں ان کی اصلاح کردوں، لیکن نو مسلم ناواقف مسلمانوں میں غلط فہمی پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اسی لئے سردست اس کو اسی حال پر چھوڑتا ہوں، اس راشاد کے بعد اس دنیا میں آپ ﷺ کی حیات زیادہ نہیں رہی۔ لیکن حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد سنے ہوئے تھے، خلفائے راشدین کے عبد جس وقت مکہ مکرمہ پر ان کی حکومت ہوئی تو انہوں نے بیت اللہ منہدم کر کے ارشاد نبوی اور بناء ابراہیمی کے مطابق بنادیا، مگر عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت مکہ معظمہ پر چند روزہ تھی، ظالم الامۃ حجاج بن یوسف نے مکہ پر فوج کشی کر کے ان کو شہید کیا، اور حکومت پر قبضہ کر کے اس کو گوارا نہ کیا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک ان کی مدح وثناء کا ذریعہ بنا رہے، اس لئے لوگوں میں مشہور کیا کہ عبداللہ بن زبیر ؓ کا یہ فعل غلط تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جس حالت پر چھوڑا تھا ہمیں اسی حالت پر اس کو رکھنا چاہئے، اس بہانے سے بیت اللہ کو پھر منہدم کر کے اسی طرح کی تعمیر بنادی جو زمانہ جاہلیت میں قریشی نے بنائی تھی، حجاج بن یوسف کے بعد آنے والے بعض مسلم بادشاہوں نے پھر حدیث مذکور کی بنا پر یہ ارادہ کیا کہ بیت اللہ کو از سر نو حدیث رسول کریم ﷺ کے موافق بنادیں، لیکن اس زمانہ کے امام حضرت امام مالک بن انس ؓ نے یہ فتوی دیا کہ اب بار بار بیت اللہ کو منہدم کرنا اور بنانا آگے آنے والے بادشاہوں کے لئے بیت اللہ کو ایک کھلونا بنادے گا، ہر آنے والا بادشاہ اپنی نام آوری کے لئے یہی کام کرے گا، اس لئے اب جس حالت میں بھی ہے اس حالت میں چھوڑدینا مناسب ہے، تمام امت نے اس کو قبول کیا، اسی وجہ سے آج تک وہی حجاج بن یوسف ہی کی تعبیر باقی ہے، البتہ شکست و ریخت اور مرمت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ ان روایات سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ کعبہ دنیا کا سب سے پہلا گھر ہے، اور یا کم از کم سب سے پہلا عبادت خانہ ہے، قرآن کریم میں جہاں یہ ذکر ہے کہ کعبہ کی تعمیر بامر خداوندی حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے کی ہے وہیں اس کے اشارات بھی موجود ہیں کہ ان بزرگوں نے اس کی ابتدائی تعمیر نہیں فرمائی، بلکہ سابق بنیادوں پر اسی کے مطابق تعمیر فرمائی، اور کعبہ کی اصل بنیاد پہلے ہی سے تھی۔ قرآن کریم کے ارشاد (واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعل۔ 2: 127) سے بھی ایسا ہی مفہوم ہوتا ہے کہ قواعد بیت اللہ یعنی اس کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں سورة حج کی آیت میں ہے(واذ بوانا لابراہیم مکان البیت۔ 22: 26) " یعنی جب ٹھیک کردیا ہم نے ابراہیم کے لئے ٹھکانا اس گھر کا "۔ اس سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی جگہ پہلے سے متعین چلی آتی تھی، اور پہلی آیت سے اس کی بنیادوں کا ہونا بھی مفہوم ہوتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت خلیل اللہ علیہ وسلم کو تعمیر بیت اللہ کا حکم دیا گیا تو فرشتہ کے ذریعہ ان کو بیت اللہ کی جگہ سابق بنیادوں کی نشاندہی کی گئی جو ریت کے تودوں میں دبی ہوئی تھی۔
بہر حال آیت مذکورہ سے کعبہ کی ایک فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ وہ دنیا کا سب سے پہلا گھر یا پہلا عبادت خانہ ہے، صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر ؓ نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مسجد حرام، انہوں نے عرض کیا اس کے بعد کونسی مسجد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا مسجد بیت المقدس ہے، پھر دریافت کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا چالیس سال کا۔ اس حدیث میں بیت اللہ کی بناء جدید جو ابراہیم ؑ کے ہاتھوں ہوئی اس کے اعتبار سے بیت المقدس کی تعمیر کا فاصلہ بیان کیا گیا ہے، کیونکہ روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ بیت المقدس کی ابتدائی تعمیر بھی حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ بیت اللہ کی تعمیر سے چالیس سال بعد میں ہوئی، اور حضرت سلیمان ؑ نے جو بیت المقدس کی تعمیر کی یہ بھی بیت اللہ کی طرح بالکل نئی اور ابتدائی تعمیر نہ تھی، بلکہ سلیمان ؑ نے بناء ابراہیمی پر اس کی تجدید کی ہے، اس طرح روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں رہتا۔ حاصل یہ ہے کہ ہمیشہ سے دنیا میں اس کی تعظیم و تکریم ہوتی چلی آئی ہے، اس میں لفظ وضع للناس میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس گھر کی تعظیم و تکریم کسی خاص قوم یا جماعت ہی کا حصہ نہیں، بلکہ عامہ خلائق اور سب انسان اس کی تعظیم کریں گے، اس کی سرشت میں حق تعالیٰ نے ایک عظمت اور ہیبت کا داعیہ رکھا ہے کہ لوگوں کے قلوب اس کی طرف خود بخود مائل ہوتے ہیں، اس میں لفظ " بکہ " سے مراد مکہ معظمہ ہے، خواہ یہ کہا جائے کہ میم کو باء سے بدل دیا گیا ہے، عرب کے کلام میں اس کی نظائر بکثرت ہیں کہ میم کو باء سے بدل دیا کرتے ہیں، اور یا یہ کہا جائے کا مکہ کا دوسرا نام بکہ بھی ہے۔
بیت اللہ کی برکات
اس آیت میں بیت اللہ کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مبارک ہے، لفظ مبارک، برکت سے مشتق ہے، برکت کے معنی ہیں بڑہنا اور ثابت رہنا، پھر کسی چیز کا بڑھنا اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ اس کا وجود کھلے طور پر مقدار میں بڑھ جائے، اور اس طرح بھی کہ اگرچہ اس کی مقدار میں کوئی خاص اضافہ نہ ہو لیکن اس سے کام اتنے نکلیں جتنے عادۃ اس سے زائد نکلا کرتے ہیں، اس کو بھی معنوی طور پر زیادتی کہا جاسکتا ہے۔ بیت اللہ کا بابرکت ہونا ظاہری طور پر بھی ہے معنوی طور پر بھی، اس کے ظاہری برکات میں یہ مشاہدہ ہے کہ مکہ اور اس کے آس پاس ایک خشک ریگستان اور بنجر زمین ہونے کے باوجود اس میں ہمیشہ ہر موسم میں ہر طرح کے پھل اور ترکاریاں اور تمام ضروریات مہیا رہتی ہیں، کہ صرف اہل مکہ کے لئے نہیں بلکہ اطراف عالم سے آنے والوں کے لئے بھی کافی ہوجاتی ہیں، اور آنے والوں کا حال دنیا کو معلوم ہے کہ خاص موسم حج میں تو لاکھوں انسان اطراف عالم سے جمع ہوتے ہیں جن کی مردم شماری اہل مکہ سے چوگنی پانچ گنی ہوتی ہے، یہ ہجوم عظیم وہاں صرف دو چار روز نہیں بلکہ مہینوں رہتا ہے، موسم حج کے علاوہ بھی کوئی وقت ایسا نہیں آتا جس میں باہر سے ہزاروں انسانوں کی آمد و رفت نہ رہتی ہو، پھر خاص موسم حج میں جبکہ وہاں لاکھوں انسانوں کا زائد مجمع ہوتا ہے کبھی نہیں سنا گیا کہ بازار میں کسی وقت بھی ایشاء ضرورت ختم ہوگئیں، ملتی نہیں، یہاں تک کہ قربانی کے بکرے جو وہاں پہنچ کر ایک ایک انسان سو سو بھی کرتا ہے اور اوسط فی کس ایک کا تو یقینی ہے، یہ لاکھوں بکرے وہاں ہمیشہ ملتے ہیں، یہ بھی نہیں کہ دوسرے ملک سے منگوانے کا اہتمام کیا جاتا ہو، قرآن کریم میں (یجبی علیہ ثمرت کل شیء۔ 28: 57) " یعنی اس میں باہر سے لائے جاتے ہیں ثمرات ہر چیز کے " ان الفاظ میں اس کی طرف واضح اشارہ بھی موجود ہے۔ یہ تو ظاہری برکات کا حال ہے جو مقصود کی حیثیت نہیں رکھتیں، اور معنوی و باطنی برکات تو اتنی ہیں کہ اس کا شمار نہیں ہوسکتا، بعض اہم عبادات تو بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہیں، ان میں جو اجر عظیم اور برکات روحانی ہیں ان سب کا مدار بیت اللہ پر ہے، مثلا حج وعمرہ، اور بعض دوسری عبادات کا بھی مسجد حرام میں ثواب بدرجہا بڑھ جاتا ہے، رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی انسان گھر میں نماز پڑھے اس کو ایک نماز کا ثواب ملے گا، اور اگر اپنے محلہ کی مسجد میں ادا کرے تو اس کو پچیس نمازوں کا ثواب حاصل ہوگا، اور جو جامع مسجد میں ادا کرے تو پانچ سو نمازوں کا ثواب پائے گا، اور اگر مسجد اقصی میں نماز ادا کی تو ایک ہزار نمازوں کا اور میری مسجد میں پچاس ہزار نمازوں کا ثواب ملتا ہے، اور مسجد حرام میں ایک لاکھ نمازوں کا۔ (یہ روایت ابن ماجہ و طحاوی وغیرہ نے نقل کی ہے) حج کے فضائل میں یہ حدیث عام مسلمان جانتے ہیں کہ حج کو صحیح طور پر ادا کرنے والا مسلمان پچھلے گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے آج ماں کے پیٹ سے پاک و صاف پیدا ہوا ہے، ظاہر ہے کہ یہ سب بیت اللہ کی معنوی اور روحانی برکات ہیں، انہی برکات کو آیت کے آخر میں لفظ ھدی سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ (مبارکا وھدی للعالمین)۔
Top