Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور وہی ہے جس نے روک رکھا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے بیچ شہر مکہ کے بعد اس کے کہ تمہارے ہاتھ لگا دیا ان کو اور ہے اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھتا
معارف و مسائل
بِبَطْنِ مَكَّةَ ، اس لفظ کے اصلی معنی عین مکہ کے ہیں مگر یہاں اس سے مراد مقام حدیبیہ ہے اس کو مکہ مکرمہ سے بہت متصل ہونے کی بناء پر بطن مکہ سے تعبیر کردیا گیا ہے اور اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے جو حنفیہ نے اختیار کی ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم میں داخل ہے (آیت) ان یبلغ محلہ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محصر عن الحج و العمرہ یعنی جس کو احرام باندھنے کے بعد کسی وجہ سے دخول مکہ سے روک دیا گیا ہو اس پر باتفاق یہ تو لازم ہے کہ قربانی کر کے احرام سے حلال ہو لیکن اس میں اختلاف ہے کہ یہ قربانی اسی جگہ ہو سکتی ہے جہاں وہ روک دیا گیا ہے، یا دوسری قربانیوں کی طرح اس کے لئے بھی حدود حرم کے اندر ہونا شرط ہے حنفیہ کے نزدیک اس کے لئے بھی حدود حرم شرط ہیں اس آیت سے ان کا استدلال ہے کہ یہاں اس قربانی کے لئے قرآن نے ایک خاص محل قرار دیا ہے جس سے کفار نے مسلمانوں کو روک دیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ اس قربانی کے لئے حدود حرم میں ہونا شرط ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ خود حنفیہ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ حدیبیہ کے بعض حصے حرم میں داخل ہیں تو پھر حرم سے روکنا کیسے ثابت ہوا، تو جواب یہ ہے کہ اگرچہ اس قربانی کا حدود حرم میں کسی بھی جگہ کردینا شرعاً کافی ہے مگر اس خاص جگہ میں جو منیٰ کے اندر منحر کے نام سے موسوم ہے اس میں ہونا افضل ہے۔ کفار مکہ نے اس وقت مسلمانوں کو اس افضل مقام تک قربانی کا جانور لے جانے سے روک دیا تھا۔
Top