Urwatul-Wusqaa - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور (اللہ) وہی ذات ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتوں کو ان سے مکہ کی سرحد پر ( مقام حدیبیہ میں) روک دیا بعد اس کے کہ اللہ نے تم کو ان پر قابو بھی دے دیا اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھتا ہے
بطن مکہ یعنی حدیبیہ میں کیا ہوا ؟ یہی کہ اللہ نے ان کو تم سے اور تم کو ان سے محفوظ رکھا 24 ؎ گزشتہ آیت میں آنے والے زمانہ کی پیش گوئی کی گئی تھی اور زیر نظر آیت میں صلح حدیبیہ کا حال کھولا جا رہا ہے کہ تم بطن مکہ میں تھے اور مکہ کے اندر کتنی ہی تعداد ان لوگوں کی تھی جو اپنے دلوں کو ایمان سے مزین کرچکے تھے لیکن کفار کے ڈر سے چھپے بیٹھے تھے ، ایمان کا اظہار نہیں کرسکتے تھے اور من حیث القوم بھی وہ تمہارے ہی عزیز و اقارب تھے تم ان کی حالت سے ناواقف تھے لیکن ہم صورت حال کو جانتے تھے اس لیے باوجود تماہری خواہش کے اور باوجودم کہ کے کچھ نوجوانوں کی نازیبا حرکات کے ہم نے اپنا حکم جاری کردیا اور ان کے ہاتھوں سے تم کو اور تمہارے ہاتھوں سے ان کو محفوظ رکھا اور اس کے باوجود تم کو کفار مکہ پر برتری اور کامیابی بھی عطا کردی کہ تم عمرہ کی غرض سے آئے تھے او عمرہ کی اجازت تم کو بہرحال مل گئی اور وہ اس سال نہ سہی آئندہ سال سہی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تم کو معاہدہ کی مطابق دل سال کی مدت مدید تک ایک دوسرے کی طرف سے مطمئن کردیا اور قریش کی طرف سے خطرہ ٹل جانے کے بعد تم دوسری قوموں کی طرف رخ پھیر سکے اور ان کو انکے کیے کی سزا دی اور بہت بڑے بڑے جتھے تمہارا نام سن کر کانپ گئے۔ حدیبیہ کے مقام میں لڑائی کے نہ ہونے سے جو فوائد تم کو حاصل ہوئے ان کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے قریش کے سرداروں کی طرف سے نہ سہی لیکن قریش کے نوجوانوں نے چھیڑ چھاڑ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی تو ان کے کئی جتھے بغض باطن کے باعث مسلمانوں پر چڑھ آئے۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ مکہ کے ستر اسی نوجوان پوری طرح مسلح ہو کر جبل تنعیم سے اترے تاکہ بیخبر ی میں لشکر اسلام میں بےچینی پیدا کردیں اور ان کا تماشا دیکھیں لیکن اس سے پیشتر کہ وہ لشکر اسلام پر حملہ کرتے اسلام کے پہرہ دینے والوں نے ان پر قابو پا لیا اور ان کو باندھ کر نبی رحمت ﷺ کے حضور پیش کردیا لیکن آپ ﷺ نے ان کو معاف فرماتے ہوئے بغیر کسی گزند کے واپس کردیا اور اس طرح ایک بار عکرمہ بن ابوجہل نے پانچ سو آدمیوں کو ساتھ لیکر لشکر اسلام کو بےچین کرنا چاہا لیکن جب ان کی اطلاع مسلمانوں کو مل گئی تو آپ ﷺ نے ان کے مقابلہ کے لیے صحابہ کرام ؓ کا ایک دستہ روانہ فرمایا جس کو وہ دیکھتے ہی دُم دبا کر بھاگ گئے اور دوبارہ انکی ہمت مسلمانوں کی طرف بڑھنے کی نہ ہوئی۔ اس طرح کے اکا دکا واقعات بھی ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے حالات کو قابو میں رکھا اور عمرہ کی غرض سے آنے والوں کو محفوظ رکھتے ہوئے عمرہ کا اجر وثواب عنایت فرما کر اور آئندہ کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی اجازت دلواکر ان کو واپس کردیا تاکہ ان پر اپنی خاص عنایات کی جائیں اور آئندہ کسی کی ہمت مسلمآنوں کے مقابلہ کی نہ رہے اور اگر کوئی سامنے آئے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جو فرمایا گیا وہ کس طرح حرب بحرف پورا ہوا کہ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی صحیح وسالم رہی۔
Top