Dure-Mansoor - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور اللہ وہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ میں ہوتے ہوئے روک دیا اس کے بعد کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے
1:۔ ابن ابی شیبہ (رح) واحمد وعبد بن حمید (رح) ومسلم و ابوداؤد والترمذی والنسائی وبن جریر وابن المنذر وابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے دلائل میں انس ؓ سے روایت کیا کہ جب مدینہ کا دن تھا تو رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب پر اہل مکہ میں سے اسی آدمی نیچے اتر آئے ہتھیار پہنے ہوئے جبل تنعیم کی طرف سے وہ رسول اللہ ﷺ کو دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتے تھے تو آپ نے ان پر بددعا فرمائی تو وہ پکڑے گئے پھر آپ نے ان کو معاف کردیا تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت ) ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیہم “ (اور اسی ذات نے ان کفار مکہ کے ہاتھ تم سے (یعنی تمہارے قتل سے اور تمہارے ہاتھ ان کو قتل سے عین مکہ کے قریب روک دیئے اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے رہا تھا ) ۔ منجانب اللہ حفاظت کی ذمہ داری : 2:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیہم “ میں بطن مکہ سے مراد ہے حدیبیہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے جس کو زنیم کہا جاتا تھا ثنیہ پہاڑ کے اوپر چڑھا حدیبیہ کے زمانہ میں تو مشرکین نے اس کو تیر مار کر قتل کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک گھوڑا سوار کو بھیجا اور وہ بارہ گھوڑ سواروں کو لے آئے رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کیا تمہارے لئے کوئی عہد یا ذمہ ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں پھر آپ نے ان کو چھوڑ دیا تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت ) ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم (الآیہ) 3:۔ عبد الرزاق واحمد وعبد بن حمید (رح) والبخاری وابو داؤد والنسائی وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم رحمہا اللہ دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ حدیبیہ کے ایام میں ایک ہزار سے کچھ اوپر اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ منورہ سے چلے یہاں تک کہ جب ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو رسول اللہ ﷺ نے ھدی کے نور کو قلادہ پہنایا اس کو علامت لگائی اور عمرہ کا احرام باندھا اور اپنے آگے قبیلہ خزاعہ میں سے ایک آدمی کو جاسوس بناکر بھیجا تاکہ وہ قریش کے بارے میں خبر دے اور رسول اللہ ﷺ چلتے رہے یہاں تک کہ آپ سفیان کے قریب غدیر اشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس خزاعی آپ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو اس حال میں چھوڑا ہے کہ انہوں نے آپ کے لئے مختلف قبیلوں کے ملے جلے لوگ جمع کئے ہیں اور آپ کے لئے ایک بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے۔ اور وہ آپ سے لڑنے والے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے دور رکھیں گے یہ سن کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے مشورہ دو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم ان کے اہل و عیال کی طرف مائل ہوں وہ لوگ جنہوں نے قریش کی مدد کی تو ہم ان پر حملہ کریں گے پھر اگر یہ بیٹھے رہے تو انتہائی پریشان کن اور غمزدہ حالت میں بیٹھیں گے، اور اگر یہ مصر رہے تو یہ ہر اول دستہ ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو تباہ کردے گا یا تم یہ رائے رکھتے ہو کہ ہم بیت اللہ کا ارادہ کرتے ہوئے چلتے رہے اور جو کوئی ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کرے ہم اس سے قتال کریں گے ابوبکر ؓ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ہم عمرہ کرنے کے لئے ہیں اور کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے لیکن جو ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوا تو ہم اس سے لڑیں گے یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تب چلتے رہو تو وہ چلتے رہے یہاں تک کہ جب وہ بعض راستے پر تھے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خالد بن ولید غمیم میں ہیں قریش کے گھوڑ سوار پر اول دستے کے ساتھ لہذا تم داہنی طرف کا راستہ لو اللہ کی قسم خالد کو ان کے آنے کا احساس تک نہ ہوا یہاں تک کہ وہ لشکر کا غبار اس پر آپڑا۔ اور وہ گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے چلا گیا اور نبی کریم ﷺ نے سفر جاری رکھا یہاں تک کہ جب آپ اس پہاڑی پر پہنچے جس سے آپ کو اترنا تھا ان پر تو آپ کی سواری وہاں بیٹھ گئی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا حل حل یعنی آپ نے اسے اٹھانے کی کوشش فرمائی مگر وہ نہ اٹھی لوگوں نے کہا کہ قصواء تھک چکی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قصواء نہیں تھکی اور ایسا کرنا اس کی عادت بھی نہیں ہے لیکن اسے اس ذات نے روک رکھا ہے جس نے ہاتھ کو روکا تھا۔ پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد ﷺ کی جان ہے وہ مجھے ایسے خطبہ کے بارے میں سوال کریں گے جس میں وہ تعظیم کریں گے اللہ تعالیٰ کی حرمات کی تو وہ میں ان کو عطا کردوں گا پھر آپ نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ کود کر کھڑی ہوگئی تو آپ نے ان کا راستہ بدل دیا یہاں تک کہ آپ حدیبیہ کے آخری حصہ میں اترے وہاں ایک کنواں تھا جس میں بہت تھوڑا سا پانی تھا لوگ وہیں ٹھہرے رہے اور ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا تھا کہ صحابہ نے اس سے سارا پانی نکالا پھر رسول اللہ ﷺ کی طرف انہوں نے پیاس کی شکایت کی تو آپ نے ایک تیر ترکش میں سے نکالا پھر ان کو حکم دیا کہ اس کو کنویں میں گاڑ دیں راوی نے کہا اللہ کی قسم وہ کنواں ابلنے لگا یہاں تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد اس سے واپس آگئے اس درمیان کہ وہ اسی حال میں تھا اچانک بدل بن ورقاء الخزاعی آئے اپنی قوم قبیلہ خزاعہ کی ایک جماعت کے ساتھ یہ تمام لوگ اہل تہامہ سے رسول اللہ ﷺ کی نصیحتوں کے رات لیتے رہتے تھے تو اس نے کہا کہ میں نے کعب بن لوی اور عامر بن لوی کو اس حال میں چھوڑا کہ وہ اترے ہیں حدیبیہ کے کثیر پانیوں میں کے پاس اور ان کے ساتھ بچوں والی عورتیں بھی تھیں۔ اور وہ ضرور آپ سے لڑیں گے اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے کے لئے نہیں آئے لیکن ہم عمر کرنے کے لئے آئے اور بلاشبہ قریش کے لئے یہ جنگ نقصان دہ ہوئی اور اگر وہ چاہیں تو میں ان کے لئے ایک مدت مقرر کردیتا ہوں جس سے وہ راستہ چھوڑ دیں لوگوں کے درمیان سے اس میں مسلمان اور قریش کے درمیان جنگ نہیں ہوگی اور اگر میں غالب آجاؤ تو پھر اگر چاہیں تو وہ اسی طرح اسلام میں داخل ہوجائیں جس طرح اور لوگ داخل ہوئے اگر وہ اسلام قبول نہ بھی کریں تو بھی مدت معاہدہ میں لڑائی سے الگ رہیں، اور اگر وہ اس کا انکار کردیں، تو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں ان سے اس امر پر ضرور لڑوں گا یہاں تک کہ میری جان قربان ہوجائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ فتح ونصرت کا جو وعدہ فرما رکھا ہے وہ یقیناً اپنی فیصلہ نافذ فرمائے گا یہ سن کر بدیل نے کہا جو آپ نے فرمایا میں ان کو عنقریب پہنچا دوں گا پھر وہ چلا گیا اور قریش کے پاس آیا اور کہا ہم تمہارے پاس آئیں ہیں ایک خاص آدمی کے پاس سے اور ہم نے اس سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر تم چاہو ہم وہ باتیں تم پر پیش کردیں گے جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیں ہیں تو ان کے بیوقوفوں نے کہا ہم کو کوئی ضرورت نہیں کہ تم ہم کو اس کے بارے میں کوئی چیز بیان کریں ان میں اہل رائے نے کہا جو کچھ تو نے اس سے سن لیا (یعنی بیان کر) تو بدیل نے کہا کہ میں نے اس کو اس طرح اور اس طرح کہتے ہوئے سنا تو اس کو بیان کیا جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عروہ بن مسعود ثقفی ؓ کھڑے ہوئے اور کہا اے قوم یا تم مجھے بچے کی طرح نہیں جانتے انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر اس نے کہا کیا میں تم کو والد کی طرح نہیں سمجھتا انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر اس نے کہا کہ تم مجھے تہمت لگاتے ہو انہوں نے کہا نہیں پھر اس نے کہا کیوں نہیں پھر اس نے کہا کہ تم مجھے تہمت لگاتے ہو انہوں نے کہا نہیں تم نہیں جانتے ہو کہ میں نے عکاظ والوں کو بھگا دیا جب انہوں نے میری بات کا انکار کیا تو تو میں تمہارے پاس اپنے گھروالوں کو اپنی اولاد کو اور جس نے میری اطاعت کی سب کو لے کر تمہارے پاس آگیا انہوں نے کہا کیوں نہیں پھر عروہ نے کہا اگر اس نے تم پر راہ ہدایت کو پیش کیا تو اس کو قبول کرو اور مجھے چھوڑ دو کہ میں اس کے پاس جاؤ قریش نے کہا اس کے پاس جاؤ تو ان کے پاس آیا تو نبی ﷺ سے باتیں شروع کیں تو نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی اسی طرح گفتگو فرمائی جسے آپ نے بدیل سے کی تھی عروہ نے اس وقت کہا تھا اے محمد ﷺ کیا آپ کا خیال ہے کہ تو اپنی قوم کو تباہ و برباد کرے کیا آپ نے عربوں نے میں سے کسی کے بارے میں سنا ہے کہ آپ سے پہلے اس نے اپنے اہل و عیال کو ہلاک کیا ہو، اگرچہ تو بعد میں آیا ہے اللہ کی قسم بلاشبہ میں یہ چند چہرے دیکھتا ہوں اور اوباش قسم کے لوگوں کے چہرے ہیں یہ بھاگ جائیں گے اور تجھ کو چھوڑ جائیں گے ابوبکر ؓ نے اس سے کہا لات کا ختنہ جا کر چوس کیا ہم ان سے بھاگ جائیں گے اور ہم آپ کو چھوڑ دیں گے عروہ نے کہا یہ کون ہے (بات کرنے والا) کہا (ابوبکر ؓ) ہیں تو اس نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تیرا مجھ پر وہ احسان نہ ہوتا جس کا بدلہ ابھی تک میں نہی دیا تو یقیناً میں تجھے اس کا جواب دیتا راوی نے کہا اور وہ نبی کریم ﷺ سے باتیں کرتا رہا تو اس دوران وہ آپ کی داڑھی مبارک کو پکڑنے کی کوشش کرتا اور مغیرہ بن شعبہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے سر پر کھڑے ہوئے تھے اور اس کے پاس تلوار بھی تھی اور خود بھی پہنے ہوئے تھے جب بھی عروہ اپنے ہاتھ کو نبی کریم ﷺ کی داڑھی کی طرف لے جاتا تو مغیرہ اس کے ہاتھ کو اپنی تلوار کے دستے کے ساتھ مارتا اور کہتا کہ اپنے ہاتھ کو رسول اللہ ﷺ کی داڑھی سے پیچھے ہٹا لے عروہ نے اپنے سرکو اوپر اٹھایا اور کہا یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا مغیرہ بن شعبہ ہے۔ عروہ نے کہا اے غدار کیا میں تیرے چھٹکارے اور بھلائی کے لئے دوڑ دھوپ نہیں کرتا رہا اور مغیرہ ایک قوم کے ساتھ تھے جاہلیت کے زمانہ میں پھر ان کو قتل کیا اور ان کا مال لے لیا پھر مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ (تیرا) اسلام تو قبول کرلیا گیا۔ لیکن تمہارے اس مال سے میرا کوئی تعلق نہیں پھر عروہ دیرتک نبی کریم ﷺ کے اصحاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا اور کہا اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے اپنے دہن مبارک سے جو کنکھار بھی پھینکا وہ بھی ان میں سے کسی کی ہتھیلی میں واقع ہوا اور اس نے اس کو اپنے چہرہ اور اپنے جسم پر مل لیا اور جب بھی آپ نے کسی کام کا حکم فرمایا تو انہوں نے انتہائی تیزی کے ساتھ اس کی تعمیل کی اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو وہ قریب ہیں کہ لڑپڑیں ان کے وضو کے پانی پر اور جب آپ کلام کرتے ہیں تو وہ اپنی آوازوں کو ان کے پاس پست اور آہستہ کرلیتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہوئے ان کی طرف نہیں گھورتے جب چناچہ عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف واپس آیا اور اس نے بتایا اے میری قوم خدا کی قسم میں کئی بادشاہوں کی طرف گیا ہوں مجھے جتنی قیصر کسری اور نجاشی کے درباروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے خدا کی قسم میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اسکی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم اور احترام محمد ﷺ کے اصحاب ان کا کرتے ہیں خدا کی قسم اگر وہ کھنکارتے ہیں تو وہ بھی ان میں سے کسی کی ہتھیلی میں جاگرتا ہے اور اسے اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا ہے اور جب ان کو کسی کام کا حکم فرماتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں اتنہائی تیزی اور جلدی کرتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو وہ آپ کے وضو پر لڑپڑتے ہیں اور جب آپ گفتگو کرتے ہیں تو وہ آپ کے پاس اپنی آوازوں کو انتہائی پست کرلیتے ہیں اور آپ کی تعظیم اور ادب کرتے ہوئے آپ کی طرف نظر جما کر نہیں دیکھتے بلاشبہ یہ تمہارے لئے اللہ کی ہدایت کی پیشکش ہے تم اس کو قبول کرلو پھر بنی کثانہ کے ایک آدمی نے کہا مجھے اجازت دو کہ میں ان کے پاس جاؤں قریش نے کہا تم جاؤ۔ جب وہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کرام کے پاس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ فلاں ہے اور یہ اس قوم میں سے ہے جو قربانی کے جانوروں کی انتہائی تعظیم کرتے ہیں پس تم اس کو قربانی کے جانور دے دو چناچہ قربانی کے جانور اس کو دیئے گئے اور قوم نے اس کا استقبال کیا جو تلیبہ پڑھ رہے تھے جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہا سبحان اللہ قریش کو نہیں چاہئے کہ ان کو بیت اللہ سے روکیں جب وہ لوٹا اپنے ساتھیوں کی طرف تو اس نے کہا میں نے خود قربانی کے جانور دیکھے اس نے ان کو قلادہ پہنائے ہوئے ہیں اور ان کے شعار کئے گئے ہیں شعاریہ ہے کہ گردن کے دو جانب سے زخم لگا کر خون گردن پر مل دینا لہذا قطعا میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ ان کو بیت اللہ سے روک دیا جائے ایک آدمی کھڑا ہوا جس کو مکرز بن حفص کہا جاتا تھا۔ اس نے کہا مجھ کو چھوڑ دو میں ان کے پاس جاتا ہوں انہوں نے کہا تو چلا جا جب وہ ان کے پاس پہنچا تو نبی کریم ﷺ نی فرمایا مکرز اور یہ ایک فاحر آدمی ہے اس نے نبی کریم ﷺ سے بات کرنی شروع کی اس درمیان کے وہ بات کررہا تھا اچانک سہل بن عمرو آگیا نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے تمہارا معاملہ آسان ہوگیا سہل آیا اور کہا لاؤ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ لکھو آپ نے کاتب کو بلایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ سہیل نے کہا رحمن کیا ہے اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا وہ کون ہے لیکن لکھو باسم اللہم (اے اللہ تیرے نام کے ساتھ جیسے تم لکھتے تھے مسلمان نے کہا اللہ کی قسم ! ہم نہیں لکھیں گے مگر بسم اللہ الرحمن الرحیم “ نبی کریم ﷺ نے فرمایا باسمک اللہم لکھو پھر فرمایا یہ وہ ہے جس پر محمد ﷺ نے فیصلہ فرمایا سہیل نے کہا اللہ کی قسم اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کو بیت اللہ سے نہ روکتے اور نہ ہم آپ سے لڑتے لیکن لکھو محمد بن عبداللہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں اگرچہ تم مجھ کو جھٹلاتے ہو (پھر فرمایا) لکھ یہ وہ عہد نامہ ہے جس کا فیصلہ محمد بن عبداللہ نے فرمایا زہری نے کہا یہ شرط قبول کرنا آپ کے اس ارشاد کی وجہ سے ہے کہ آپ نے فرمایا وہ مجھ سے ایسی چیز کے بارے میں سوال کریں گے کہ جس میں وہ اللہ کی حرمات کی تعظیم کرتے ہیں کہ تو میں کہ تو میں ان کو خاص طور پر عطا کروں گا نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر تم پر لازم ہوگا کہ تم ہمارے اور بیت اللہ کے درمیان راستہ چھوڑ دو کہ ہم اس کا طواف کریں گے سہیل نے کہا اللہ کی قسم آپ عربوں سے یہ گفتگو نہیں کریں گے کہ ہم نے کمزور رائے کو اختیار کیا لیکن آپ آئندہ سال آئیں گے پس یہ شرط لکھ دی گئی سہیل نے کہا آپ پر یہ لازم کہ ہم میں سے کوئی آدمی اگر آپ کے پاس آئے گا اگرچہ وہ آپ کے دین پر ہوگا اس کو آپ ہماری طرف واپس لوٹا دیں گے مسلمانوں نے کہا سبحان اللہ اس کو کس طرح مشرکین کی طرف واپس کریں گے اور وہ مسلمان ہو کر آیا ہو۔ اس درمیان کہ وہ لوگ اس حال پر تھے کہ ابوجندل بن سہیل بن عمرو آگئے اور وہ اپنے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور وہ مکہ کے نیچے راستے سے نکل آئے یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے درمیان پہنچ گئے سہیل نے کہا اے محمد ﷺ یہ پہلا آدمی ہے جس کے بارے میں میں آپ سے تقاضا کرتا ہوں کہ معاہدہ کے مطابق آپ اس کو ہماری طرف واپس لوٹا دیں گے نبی کریم ﷺ نے فرمایا (ابھی معاہدہ کی شرائط مکمل نہیں ہوئیں۔ لہذا معاہدہ مکمل ہوجانے کے بعد ہم اس کو نہیں توڑیں گے۔ سہیل نے کہا اللہ کی قسم ! میں کسی چیز پر کبھی آپ سے صلح نہیں کروں گا جب تک آپ اس کو واپس نہ کریں گے نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس کو میرے لئے چھوڑ دو اور اس شرط سے مستثنی قرار دو ۔ اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دوں گا آپ نے فرمایا کیوں نہیں تو ایسا کر مگر اس نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا ابوجندل نے کہا اے مسلمانوں کی جماعت میں مشرکین کی طرف واپس کردیا جاؤں گا حالانکہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں کیا تم نہیں دیکھتے میں نے اللہ کی راہ میں کتنی مشقت برداشت کی اور کتنا شدید عذاب اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا گیا۔ عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں نے آج کے دن کے سوا کبھی شک نہیں کیا جب میں اسلام لایا ہوں میں نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا کیا آپ اللہ کے نبی نہیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں پھر میں نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں اتنے کمزوری کیوں دکھا رہے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا اور وہ میری مدد کرنے والا ہے پھر میں نے عرض کیا آپ ہم کو یہ بیان نہیں کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آئیں گے اور اہم اس کا طواف بھی کریں گے آپ نے فرمایا ہاں ! کیا میں نے تم کو خبر دی تھی کہ تم اس سال بیت اللہ میں آؤ گے میں نے عرض کیا نہیں آپ نے فرمایا بلاشبہ تم کعبہ شریف نہیں آؤ گے۔ اور اس کا طواف کروگے پھر میں ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور میں نے کہا اے ابوبکر ؓ کیا یہ اللہ کے نبی سچے نہیں ہیں ابوبکر ؓ نے کہا کیوں نہیں پھر میں نے کہا کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ابوبکر ؓ نے کہا کیوں نہیں پھر میں نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں اتنی کمزوری کیوں دیکھا رہے ہیں۔ ابوبکر ؓ نے کہا اے آدمی بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرتے اور میری مدد کرنے والا ہے پس تم رب کو فضل سے تھامے رکھو (یعنی فرمانبردار ہو کر رہو) کامیاب ہوجاؤ گے یہاں تک کہ تم کو اس حال میں موت آئے اللہ کی قسم کہ آپ حق پر ہیں میں نے کہا کیا آپ ہم کو یہ بیان نہیں کرتے تھے کہ ہم عنقریب بیت اللہ میں آئیں گے اور ہم اس کا طواف کریں گے۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کیوں نہیں۔ مگر کیا آپ نے یہ خبر دی تھی کہ تم اس سال آؤ گے میں نے کہا اور آپ نے فرمایا تھا کہ بلاشبہ تم مکہ مکرمہ میں آؤ گے اور اس کا طواف کروگے عمر ؓ نے فرمایا میں اس لئے ایک عرصہ تک مسلسل عمل کرتا رہا جب آپ معاہدہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا میں اس لئے ایک عرصہ تک مسلسل عمل کرتا رہا جب آپ معاہدہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا میں اس لئے ایک عرصہ تک مسلسل عمل کرتا رہا جب آپ معاہدہ کی تحریر سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کھڑے ہوجاؤ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرو پھر حلق کراؤ اللہ کی قسم ان میں سے کوئی آدمی کھڑا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ کہ آپ نے اس تین مرتبہ فرمایا جب کوئی ان میں سے کھڑا نہ ہوا تو آپ ام سلمہ کے پاس تشریف لے گئے اس سے ذکر کیا جو لوگوں کی صورت حال ان سے ذکر کریں ام سلمہ ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! کیا آپ اس کام کو چاہتے ہیں ؟ فرمایا ہاں تو ام سلمہ ؓ نے آپ باہر تشریف لے جائیے اور ان میں سے کسی سے بات نہ کیجئے یہاں تک کہ اپنے قربانی کے جانور کو ذبح کردیجئے اور اپنے حلق کرنے والے کو بلاکر اپنا حلق کردیجئے تو نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے باہر تشریف لے گئے ان میں سے کسی سے بات نہیں کی یہاں تک کہ یہ کام کیا اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کیا اور اپنے حلق کرنے والے کو بلاکر حلق کرایا جب صحابہ کرام ؓ نے یہ دیکھا تو کھڑے ہوئے قربانیوں کو ذبح کیا اور ان کے بعض نے بعض کا حلق کرنا شروع کیا یہاں تک کہ قریب تھا کہ ان کا بعض بعض کو غم کی وجہ سے قتل کردے پھر ان کے پاس مومن عورتیں آئیں تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) یایھا الذین امنوا اذا جآء کما المؤمنت مھجرات “ (اے ایمان والوجب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آجائیں) (سے لیکر) (آیت) ” بعصم الکوافر “ تک عمر ؓ نے اس دن ان عورتوں کو طلاق دی جو زمانہ شرک میں ان کی بیویاں تھیں ان میں سے ایک ساتھ معاویہ بن ابوسفیان نے اور دوسری کے ساتھ صفوان بن امیہ نے شادی کی پھر نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف واپس تشریف لے آئے قریش میں سے ایک آدمی ابوبصیر ؓ مسلمان ہو کر آپ کے پاس حاضر ہوئے ان کی طلب میں (مکہ والوں نے) دو آدمی بھیجے انہوں نے کہا وہ معاہدہ جو آپ نے ہم سے کہا اس کے مطابق آپ اسے ہمارے حوالے کریں چناچہ نبی کریم ﷺ نے ابوبصیر کو ان دونوں کے حوالے کردیا وہ دونوں ان کو لے کر نکلے جب یہ دونوں اس کو لے کر ذوالحیلفہ تک پہنچے وہ وہاں کچھ دیر ٹھہرے اور اپنی کھجوریں کھانے لگے ابوبصیر نے ان میں سے ایک آدمی سے کہا اللہ کی قسم اے فلانے میں تیری تلوار کو خوبصورت عمدہ دیکھ رہا ہوں اور دوسرے آدمی نے اس کو سنا اور کہا اللہ کی قسم ! وہ بہت عمدہ ہے۔ میں نے کہا میں نے اس کا کئی بار تجربہ کیا ہے ابوبصیر نے اس سے کہا مجھے دکھاؤ میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ جب انہوں نے اس پر قابوپالیا۔ تو اس (آدمی) کو ضرب لگائی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہوگیا (یعنی مرگیا) دوسرا آدمی بھاگ گیا یہاں تک کہ مدینہ منورہ آیا اور مسجد میں داخل ہوگیا (اس حال میں) کہ وہ دوڑ رہا تھا رسول اللہ ﷺ نے جب اس کو دیکھا تو فرمایا میں اس کو خوف زدہ دیکھ رہا ہوں۔ جب وہ نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچا تو کہا اللہ کی قسم میرے ساتھی کو قتل کردیا گیا اور مجھے بھی قتل ہوجانے کا خوف ہے اتنے میں ابوبصیر بھی آگئے اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! تحقیق آپ نے اپنی ذمہ داری کو پورا فرمادیا کہ آپ نے مجھے ان کی طرف لوٹا دیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات عطا فرمائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا افسوس ابوبصیر پر یہ اس نے جنگ کی آگ کو بھڑکادیا کاش کوئی اس کی مدد کرتا (ابوبصیر نے) جب یہ کلمہ سنا تو پہچان لیا کہ آپ پھر اسے مشرکین کی طرف لوٹادیں گے چناچہ باہر نکلے یہاں تک کہ سیف البحر پر آپہنچے راوی نے کہا کہ ابوجندل بھی مشرکین سے رہا ہو کر آگئے اور ابوبصیر کے ساتھ مل گئے اب جو آدمی بھی قریش سے مسلمان ہو کر نکلتا ہو ابوبصیر کے ساتھ مل جاتا یہاں تک کہ ان میں سے ایک جماعت جمع ہوگئی راوی نے کہا اللہ کی قسم جب وہ سنتے کہ قریش کا قافلہ شام کی طرف نکلتا ہے تو اس کو روک لیتے ان کو قتل کرکے ان کا مال لے لیتا قریش نے کہا نبی کریم ﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم اللہ کی اور رحم کی قسم دیتے ہیں ان کو اپنی طرف بلالیجئے اب جو شخص ان میں سے آپ کے پاس آئے گا وہ امن میں ہوگا (ہم اس کو واپس نہیں بلائین گے) تو نبی کریم ﷺ نے ان کو واپس بلوالیا تو (یہ آیت) نازل ہوئی (آیت ) ” وھوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم “ اور یہاں تک پہنچے ” حمیۃ الجاھلیۃ “ اور انکی میں جاہلیت کی حمیت اور تعصب تھا کہ انہوں نے اس بات کا اقرار نہ کیا کہ آپ ﷺ (اللہ) کے نبی ہیں اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کا بھی اقرار نہ کیا اور وہ آپ ﷺ اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے۔ 4:۔ عبدالرزاق نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حدیبیہ کے دن معاہدہ کو لکھنے والے علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ کفار کے جاسوسوں کی گرفتاری اور رہائی : 5:۔ احمد وعبد بن حمید (رح) ومسلم والطبرانی وابن مردویہ (رح) و بیہقی (رح) نے دلائل میں سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں آئے اور ہم چودیہ سو تھے پھر مشرکین کے ساتھ ہماری صلح کی گفتگو ہوئی جب ہم نے صلح کرلی اور ہمارا بعض بعض کے ساتھ مل جل گیا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سائے میں لیٹ گیا میرے پاس اہل مکہ کے مشرکین میں سے چار آدمی آئے رسول اللہ ﷺ کے بارے میں گفتگو کرنے لگے میں ان سے ناراض ہوگیا اور میں دوسرے درخت کی طرف چلا گیا انہوں نے اپنے ہتھیاروں کو لٹکایا اور لیٹ گئے اس در میان کہ وہ اسی طرح لیٹے ہوئے تھے اچانک ایک آواز دینے والے نے وادی کے نیچے سے آواز دی اے مہاجرین مدد کو آؤ ابن زنیم قتل کردیئے گئے میں نے اپنی تلوار سونت لی اور ان چاروں پر سختی کی اور وہ سو رہے تھے میں نے ان کے ہتھیاروں کو لے لیا اور تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑ لی پھر میں نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کے چہرے کو عزت دی کوئی تم میں سے اپنے سر کو نہ اٹھائے ورنہ اسے ماردوں گا جس میں اس کی آنکھیں ہیں پھر میں ان کو ہانکتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا میرا چچا عامر عبلات میں ایک آدمی کو لے آیا یہ مشرک تھا جس کو مکرز کہا جاتا تھا وہ اس کو آگے سے کھینچ کر لا رہا تھا یہاں تک کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے پاس ستر مشرکین اکٹھے کردیئے رسول اللہ ﷺ نیان کی طرف دیکھا اور فرمایا ان کو چھوڑ دو ۔ ان کے لئے ابتداء اور انتہاء میں گناہ ہوں گے پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کو معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ نے 9 یہ (آیت ) ” اتاری (آیت ) ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیہم “ (اور اسی نے تو ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روکے عین مکہ کے قریب اس کے بعد کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا۔ 6:۔ احمد والنسائی والحاکم (وصححہ) وابن جریر (رح) و ابونعیم (رح) فی الدلائل وابن مردویہ (رح) نے عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس درخت کے تنے کے پاس تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا اور اس درخت کی ٹہنیاں رسول اللہ ﷺ کی پیٹھ پر پڑرہی تھیں اور علی بن ابی طالب ؓ اور سہیل بن عمر و ؓ آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے رسول اللہ ﷺ نے علی ابی طالب ؓ سے فرمایا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ سہیل نے ان کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور کہا ہم نہیں جانتے رحمن کو اور نہ رحیم کو آپ ہمارے معاہدے کو اس چیز سے لکھو جس کو ہم پہچانتے ہیں پھر آپ نے کہا ” باسمک سلام “ لکھو اور کہا کہ یہ وہ شرائط ہیں جن پر صلح ہوئی اہل مکہ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان، سہیل نے آپ کا ہاتھ کو پکڑ لیا اور کہا یقینی بات ہے ہم نے آپ پر ظلم کیا اگر آپ اللہ کے رسول ہیں ہمارے فیصلے میں یہ چیز نہ لکھو جس کو ہم نہیں جانتے پھر آپ نے فرمایا کہ ان شرائط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی اسی درمیان کہ ہم اس حال پر تھے کہ اچانک تیس نوجوان ہتھیار لئے ہوئے ہماری طرف آگئے وہ ہمارے سامنے جھپٹ پڑے رسول اللہ ﷺ نے ان پر بددعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہرا کردیا اور حاکم کے الفاظ یوں ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھوں کو لے لیا (یعنی اندھا کردیا) ہم ان کی طرف کھڑے ہوئے اور ہم نے ان کو پکڑ لیا رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا کیا تم کس کے عہد میں آئے ہو یا کس نے تمہارے لئے امان دی ہے ؟ انہوں نے کہا نہیں تو آپ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت ) ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم “ 7:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابن ابزی ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ قربانی کے جانور کو لے کر نکلے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ﷺ آپ کی قوم پر بغیر ہتھیاروں اور گھوڑوں کے جنگ مسلط ہوجائے گی تو آپ نے مدینہ منورہ کی طرف پیغام بھیجا جو اس میں جو ہتھیار اور دیگر جنگ کا سامان تھا وہ اٹھایا جب آپ مکہ سے قریب ہوئے تو مشرکین نے آپ کو داخل ہونے سے روک دیا آپ چلتے و ہے یہاں تک کہ منی میں پہنچے اور منی میں ہی اترپڑے آپ کے پاس عیینہ بن عکرمہ بن ابی جہل آیا اور وہ پانچ سو کی جماعت کے ساتھ آپ کیلئے نکلا تھا آپ نے خالد بن ولید ؓ سے فرمایا میں اللہ کی تلوار ہوں اور اس کے رسول کی تلوار ہوں پس اس دن آپ کا نام سیف اللہ رکھا گیا۔ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے بھیجئے جہاں چاہیں تو آپ نے ان کو ایک گھوڑے پر بھیجا وہ گھاٹی میں عکرمہ سے ملے اور اس کو شکست دی یہاں تک کہ اس کو مکہ کے آبادی میں ڈال کردیا پھر دوسری مرتبہ وہ لوٹا پھر آپ نے اسے بھگا دیا یہاں تک کہ اسے مکہ کی آبادی میں داخل کردیا پھر وہ تیسری مرتبہ لوٹا پھر اسے بھگادیا یہاں تک کہ اس کو مکہ کی آبادی میں داخل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت ) ” اتاری ” وھو الذی کف ایدیھم عنکم “ (الآیہ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو ان پر کامیابی عطا کرنے کے بعد مسلمانوں کو باقی رکھنے کے لیے ان سے روک لیا مسلمان اس میں باقی رہے مگر وہ یہ ناپسند کرتے تھے کہ گھوڑے ان کو روند ڈالیں۔ 8:۔ ابن المنذر (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” والھدی معکوفا “ یعنی قربانی کا جانور روکا ہوا۔ 9:۔ احمد والبیہقی (رح) نے دلائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حدیبیہ کے دن ستر اونٹ ذبح کئے گئے جب ان کو بیت اللہ سے روک دیا گیا وہ اس کی طرف اس طرح مشتاق ہوئے جیسے اپنے بچوں کی طرف اشتیاق کیا جاتا ہے۔ 10:۔ الطبرانی نے مالک بن ربیع السلولی ؓ سے روایت کیا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حاضر تھے اس دن جب آپ نے درخت کے نیچے بیت لی اور اس دن جب قربانی کے جانوروں کو لوٹا دیا گیا کہ وہ بندھے رہیں اور اپنی جگہ پر نہ پہنچ سکیں تو مشرکین میں سے ایک آدمی نے کہا اے محمد ﷺ کس چیز نے آپ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ آپ ان کو ہم پر داخل کریں حالانکہ ہم اس کو ناپسند کرتے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ تجھ سے اور تیرے آباؤاجداد سے بہتر ہیں جو ایمان لائے ہیں اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یقینی بات ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت ) ” ولولا رجال مؤمنون “ 11:۔ الحسن بن سفیان وابویعلی (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن قانع والباوردی والطبرانی وابن مردویہ (رح) وابو نعیم سند جید کے ساتھ ابوجمعہ حنیبذ بن سبیع (رح) سے روایت کیا کہ میں بنی آدم سے لڑا دن کے شروع میں کافر ہو کر اور میں ان کے ساتھ لڑا دن کے آخر میں مسلمان ہوکر۔ ہمارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (آیت ) ” ولولا رجال مؤمنون ونسآء مؤمنت “ اور نہ ہوئے مرد ایمان والے اور عورتیں ایمان والی اور ہم نو تھے سات مرد اور دو عورتیں۔ 12:۔ ابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کہ (آیت ) ” ولولا رجال مؤمنون ونسآء مؤمنت لم تعلموھم “ (اگر نہ ہوتے مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں کہ تم ان کو نہیں جانتے ہو) جب انہوں نے نبی کو واپس لوٹادیا (آیت ) ” لوتزیلوا لعذبنا الذین کفروا منہم عذابا الیما “ (اگر وہ ٹل گئے ہوتے تو ان میں سے جو کافر تھے ہم ان کو دردناک عذاب دیتے مسلمان کو قتل کرنے کے سبب۔ 13:۔ ابن المنذر (رح) نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” ولولا رجال مؤمنون “ تو اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے دن مشرکین کو مومنوں سے الگ کردیا جو ان کے درمیان رہ رہے تھے ، 14:۔ عبد بن حمید وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے قتادہ ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ لوگ مکہ میں تھے اور اسلام کی باتیں کرتے تھے (یعنی مسلمان تھے) اللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا کہ ان کو تکلیف دی جائے اور ان کو پیس دیا جائے جب حدییبہ کے دن محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کو لوٹا دیا گیا سو ان میں سے مسلمانوں کو ان کی وجہ سے عار پہنچے گی بغیر علم کے یعنی بےعلمی کی وجہ سے گناہ پہنچے گا۔ 15:۔ ابن جریر (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” فتصیبکم منہم معرۃ بغیرعلم “ ان میں سے تم کو بےعلمی سے ضرر پہنچ جاتا ہے میں معرہ سے مراد ہے گناہ (آیت ) ” لوتزیلوا “ سے مراد ہے اگر وہ جدا ہوجائے۔ 16:۔ عبدالرزاق (رح) نے وعبد بن حمید (رح) ابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لوتزیلوا لعذبنا الذین کفروا منہم عذابا الیما “ (اگر وہ ٹل گئے ہوتے تو ان میں سے جو کافر تھے ہم ان کو دردناک عذاب دیتے) یعنی قتل اور قیدی بناکر۔ 17:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) ” لوتزیلوا لعذبنا الذین کفروا منہم عذابا الیما “ سے مراد ہے کہ بلاشبہ اللہ جل شانہ مؤمنین کو کافروں سے دور ہٹا دے گا۔
Top