Anwar-ul-Bayan - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور اللہ وہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ میں ہوتے ہوئے روک دیا اس کے بعد کہ تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا اور اللہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے باز رکھا علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر میں آیت بالا کا سبب نزول بتاتے ہوئے متعدد اقوال لکھے ہیں صحیح مسلم میں ایک واقعہ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے اور دوسرا حضرت انس ؓ سے مروی ہے اور دونوں کو آیت بالا کا سبب نزول بتایا ہے حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے بیان کیا کہ جب ہمارے اور اہل مکہ کے درمیان صلح ہوگئی تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے ہٹا کر لیٹ گیا اس وقت اہل مکہ میں سے چار مشرکین وہاں پہنچ گئے جو رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ناشائستہ کلمہ کہنے لگے مجھے برا لگا اور میں جگہ چھوڑ کر دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا ان لوگوں نے اپنے ہتھیار لٹکا دئیے اور لیٹ گئے میں نے اپنی تلوار لی اور ان چاروں آدمیوں کے ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا اور ان سے کہا کہ دیکھو قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو عزت بخشی ہے اگر تم میں سے کوئی شخص سر اٹھائے گا اس کا سر تن سے جدا کردوں گا اس کے بعد میں انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا ستر آدمی قید کرکے لائے جن کا نام عامر تھا اس کے گرفتار کردہ لوگوں میں مکرز نامی بھی ایک شخص تھا اس کے ساتھ اور افراد بھی تھے جو مشرکین میں سے تھے جن کی تعداد ستر افراد تھی آپ نے ان کو معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ ﴿وَ هُوَ الَّذِيْ كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ﴾ (الآیۃ) نازل فرمائی۔ (صحیح مسلم) اور حضرت انس ؓ سے یوں روایت ہے کہ اہل مکہ میں سے اسی 80 آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آگئے یہ لوگ ہتھیار پہنے ہوئے تھے ان کا ارادہ یہ تھا کہ غفلت کا موقع پاکر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ پر حملہ کردیں آپ ﷺ نے ان لوگوں کو پکڑ لیا وہ لوگ قابو میں آگئے تو اپنی جانوں کو سپرد کردیا آپ نے ان کو زندہ چھوڑ دیا اس پر اللہ تعالیٰ شانہٗ نے آیت مذکوہ بالا نازل فرمائی (صحیح مسلم 116 ج 2) مفسر ابن کثیر ؓ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ شانہٗ نے اپنے مومن بندوں پر احسان جتایا ہے کہ اس نے مشرکین کے ہاتھوں سے تمہیں محفوظ رکھا اور ان کی طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی اور مومنین کے ہاتھوں کو بھی مشرکین تک نہ پہنچنے دیا۔ اس کے بعد آیت کا ترجمہ دوبارہ پڑھ لیجیے اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں کہ کس کی کس طرح حفاظت فرمائے اور مخالف کے قبضہ ہونے کے بعد اس کے حملہ سے کس طرح بچائے اور قلوب کو جس طرح چاہے پلٹ دے رسول اللہ ﷺ نے جن لوگوں سے نرمی کا معاملہ فرمایا اور معاف کردیا عموماً وہ لوگ بعد میں مسلمان ہوگئے۔
Top