Al-Quran-al-Kareem - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔
(1) وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم …: جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ حدیبیہ میں تھے تو صلح کی بات چیت کے دوران اور صلح ہوجانے کے بعد بھی مشرکین نے کوششیں کیں کہ کسی طرح لڑائی چھڑ جائے اور صلح نہ ہو سکے۔ ان کے متعدد گروہ چھپ کر رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے خلاف کارروائی کے لئے آئے، مگر کوئی نقصان نہ پہنچا سکے، بلکہ ہر مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں قتل بھی کیا جاسکتا تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے انہیں چھوڑ دیا، کیونکہ سزا دینے کی صورت میں جنگ ناگزیر ہوجاتی جب کہ مسلمانوں کی مصلحت صلح میں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اس احسان کی یاد دہانی کروائی ہے۔ یہاں کفار کی ان کوششوں کے تین واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ (1) سلمہ بن اکوع ؓ کہتے ہیں، میں طلحہ بن عبید اللہ ؓ کے ساتھ رہتا تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا ، اس کی مالش کرتا، ان کی خدمت کرتا اور انھی کے ہاں کھانا کھایا کرتا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرتے ہوئے اپنا اہل و مال چھوڑ آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور اہل مکہ کی صلح ہوگئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے تو میں ایک درخت کے نیچے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کے سائے میں لیٹ گیا۔ اہل مکہ میں چار مشرک میرے پاس آئے اور رسول اللہ ﷺ کے متعلق بد زبانی کرنے لگے۔ میں ان سے نفرت کی وجہ سے ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا اور وہ اپنا اسلحہ درخت کے ساتھ لٹکا کر لیٹ گئے۔ اسی دوران وادی کے نیچے سے کسی نے آواز دی :”او مہاجرو ! ابن زینم کو ق تل کردیا گیا۔“ میں نے اپنی تلوار لی اور انچ اورں پر حملہ کردیا، وہ سوئے ہوئے تھے، میں نے ان کا اسلحہ لے کر اپنی مٹھی میں اکٹھا کرلیا اور ان سے کہا :”قسم اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کے چہرے کو عزت بخشی ہے ! تم میں سے جو بھی سر اٹھائے گا میں اس کا سر اڑا دوں گا جس میں اس کی آنکھیں ہیں۔“ خیر میں انہیں ہانکتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے پاس لے آیا اور میرا چچا عامر عبلات میں سے ”مکرز“ نامی ایک مشرک کو کھینچتا ہوا لایا۔ یہاں تک ہم نے انہیں ستر (70) مشرکین سمیت رسول اللہ ﷺ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ آپ ﷺ نے ان کی طسرف دیکھا اور فرمایا :(دعوھم یکن لھم بدء الفجور و ثناہ)”انہیں چھوڑ دو ، تاکہ عہد شکنی کی ابتدا اور دہرائی انھی کے ذمے رہے۔“ غرض رسول اللہ ﷺ نے انہیں معاف کردیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم و ایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم) (الفتح : 23)”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔“ (مسلم الجھاد، باب غزوۃ ذی فرد وغیرھا :1808) (2) انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ میں سے اسی (80) مسلح آدمی جبل تنعیم سے اتر کر آئے۔ وہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے، مگر آپ نے انہیں زندہ سلامت گرفتار کرلیا۔ پھر انہیں زندہ ہی رہنے دیا تو اللہ عزو جل نے یہ آیت اتاری :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ من بعد ان اظفرکم علیھم) (الفتح : 23)”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پر فتح دے دی۔“ (مسلم، الجھاد، باب قول اللہ تعالیٰ :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم):1808 (3) عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ بیان کرتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حدیبیہ میں اس درخت کے نیچے موجود تھے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے۔ اس کی ٹہنیاں رسول اللہ ﷺ کی کمر سے لگ رہی تھیں اور علی بن ابی طالب ؓ اور سہیل بن عمرو آپ کے سامنے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے علی ؓ نے علی ؓ سے فرمایا :”لکھو، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔“ تو سہیل نے ملان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :”ہم نہیں جانتے رحمان کیا ہوتا ہے، ہمارے معاملے میں وہی لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔“ اس نے کہا : ”یہ لکھو :”باسمک اللھم۔“ پھر انہوں نے لکھا :”یہ وہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ سے صلح کی ہے۔“ تو سہیل بن عمرو نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :”اللہ کی قسم ! اگر آپ اللہ کے رسول ہوں تو ہم نے آپ پر ظلم کیا، ہمارے معاملے میں وہ لکھو جو ہمارے ہاں معروف ہے۔“ آپ ﷺ نے فرمایا :”لکھو، یہ وہ ہے جس پر محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب نے صلح کی ہے اور میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔“ یہ معاملہ ہو رہا تھا کہ تیس مسلح نوجوان نکل کر ہمارے سامنے آگئیا ور ہمارے سامنے آکر مشتعل ہوگئے۔“ رسول اللہ ﷺ نے ان پر بد دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا کردیا، ہم نے بڑھ کر انہیں گرفتار کرلیا۔ آپ ﷺ نے ان سے پوچھا :”کیا تم کسی کے عہد میں آئے ہو یا کسی نے تمہیں امان دی ہے ؟“ انہوں نے کہا :”نہیں !“ تو آپ ﷺ نے انہیں رہا کردیا، اس پر اللہ عزو جل نے یہ آیت نازل فرمائی :(وھو الذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم بب طن مکۃ من بعد ان اظفر کم علیھم وکان اللہ بما تعملون بصیراً) (الفتح : 23)”اور وہی ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے، اس کے بعد کہ تمہیں ان پرف تح دے دی اور اللہ اس کو جو تم کرتے ہو ، ہمیشہ سے خوب دیکھنے والا ہے۔“ (مسند احمد : 3/86، 88، ح : 16805) مسند احمد کے محققین نے اسے صحیح کہا ہے۔ (2) یہاں بیت اللہ والے شہر کا نام ”مکہ“ بیان فرمایا ہے، جب کہ سورة آل عمران (96) میں اس کا نام ”بکہ“ قرار دیا ہے، معلوم ہوا اس شہر کے دونوں نام ہیں۔ (3) وکان اللہ بما تعملون بصیراً : یعنی اللہ تعالیٰ کفار کی سرا سر زیادتی اور تمہارے صبر اور اطاعت کو خوب دیکھ رہا تھا، اس کے باوجود اس نے بہت سی مصلحتوں کے پیش نظر ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔
Top