Taiseer-ul-Quran - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
وہی تو ہے جس نے وادی مکہ میں تم سے ان کے ہاتھ روک 34 دیئے اور ان سے تمہارے جبکہ اس سے پہلے اللہ تمہیں ان پر غالب کرچکا تھا اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔
34 صلح حدیبیہ کی مزید تفصیلات کے لئے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : 1۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ : صبح کی نماز کے قریب آپ اور صحابہ تنعیم کے پہاڑ سے اترے۔ کافر لوگ یہ چاہتے تھے کہ آپ کو مار ڈالیں مگر سب کے سب پکڑے گئے۔ پھر آپ نے ان سب کو آزاد کردیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) 2۔ حدیبیہ کے مقام پر آپ کا معجزہ اور پانی کی مشکل کا حل :۔ مسور بن مخرمہ اور مروان دونوں روایت کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ مکہ سے نکلے۔ ابھی راہ میں ہی تھے کہ آپ نے فرمایا : خالد بن ولید دو سو سواروں کا ہر اول دستہ لئے غمیم تک آچکا ہے۔ لہذا تم داہنی طرف کا رستہ لو خالد کو مسلمانوں کی آمد کی اس وقت خبر ہوئی جب اس نے سواروں کی گرد اڑتی دیکھی تو وہ قریش کو ڈرانے کے لئے دوڑا۔ جب آپ اس گھاٹی پر پہنچے جہاں سے مکہ کو اترتے ہیں تو آپ کی اونٹنی قصواء اَڑ گئی۔ آپ نے فرمایا : قصواء کو اسی اللہ نے روکا ہے جس نے اصحاب الفیل کو روکا تھا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اہل مکہ مجھ سے کوئی ایسی بات چاہیں جس میں اللہ کے حرم کی تعظیم ہو تو میں اسے مان لوں گا۔ چناچہ آپ وہاں سے مڑ کر گئے اور حدیبیہ کے پرلے کنارے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ وہاں ایک گڑھا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ لوگوں نے آپ سے پیاس کا شکوہ کیا آپ نے اپنے ترکش سے ایک تیر نکال کر صحابہ سے کہا کہ اسے گڑھے میں گاڑ دو تیر گاڑتے ہی پانی جوش مارنے لگا۔ پھر آپ کی وہاں سے واپس تک کسی کو پانی کی کمی کی شکایت نہیں ہوئی۔ خ صلح کی تفصیل :۔ اس دوران بدیل بن ورقاء خزاعی اپنے کئی آدمیوں سمیت وہاں پہنچا۔ وہ تہامہ والوں میں سے آپ کا خیرخواہ اور محرم راز تھا۔ وہ کہنے لگا کہ کعب بن لوئی اور عامربن لوئی نے حدیبیہ پہنچ کر زیادہ پانی والے چشموں پر ڈیرہ ڈال دیا ہے اور وہ آپ سے لڑنا اور آپ کو مکہ جانے سے روکنا چاہتے ہیں آپ نے فرمایا : ہم لڑنے نہیں آئے صرف عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔ قریش بھی لڑتے لڑتے تھک چکے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو میں ایک مقررہ مدت تک ان سے صلح کرنے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ دوسروں کے معاملہ میں دخل نہ دیں۔ اگر دوسرے لوگ مجھ پر غالب آجائیں تو ان کی مراد برآئی۔ اور اگر میں غالب ہوا پھر اگر وہ چاہیں تو اسلام لے آئیں ورنہ اللہ کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ان سے دین کے معاملہ میں لڑوں گا۔ یہاں تک میری جان چلی جائے اور اللہ ضرور اپنے دین کو پورا کرکے رہے گا، بدیل نے کہا : میں آپ کا یہ پیغام قریش کو پہنچا دیتا ہوں بدیل بن ورقاء کا آپ کا پیغام پہنچانا اور اس کا جواب :۔ چناچہ بدیل قریش کے پاس آئے اور کہنے لگے : محمد نے ایک بات کہی ہے اتنی بات کہنے پر ہی کچھ جلد باز بیوقوف کہنے لگے۔ ہمیں کوئی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ مگر جو عقل والے تھے وہ کہنے لگے کہ بتاؤ تو سہی وہ کیا کہتے ہیں۔ چناچہ بدیل نے وہ سب کچھ بیان کردیا جو انہوں نے آپ سے سنا تھا۔ قریش کے پہلے سفیر عروہ بن مسعود کی رپورٹ :۔ یہ سن کر عروہ بن مسعود ثقفی قریش سے کہنے لگے۔ اگر مجھ پر اعتماد کرتے ہو تو محمد کے پاس جانے دو ۔ قریش نے کہا۔ اچھا جاؤ۔ عروہ آیا تو آپ نے اس سے بھی وہی بات کہی جو بدیل کو کہی تھی۔ عروہ کہنے لگا : محمد اگر تم نے اپنی قوم کو تباہ کردیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی اور قریش غالب آگئے تو تمہارے یہ ساتھی تمہیں چھوڑ کر چلتے بنیں گے اس بات پر ابوبکر صدیق ؓ غصہ میں آگئے اور عروہ کو کہا : جا جاکر لات کی شرمگاہ چوس۔ کیا ہم آپ کو چھوڑ جائیں گے ؟ عروہ نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : ابوبکر صدیق ؓ ! عروہ نے کہا اگر تمہارا مجھ پر احسان نہ ہوتا تو میں تمہیں اس کا جواب دیتا پھر عروہ باتیں کرتا تو آپ کی داڑھی تھام لیتا اور مغیرہ بن شعبہ تلوار کے دستے سے اس کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیتے۔ پھر وہ آپ کے صحابہ کو بغور ملاحظہ کرنے لگا۔ پھر اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کہنے لگا : میں بادشاہوں کے پاس کئی بار جا چکا ہوں۔ روم، ایران اور حبش کے بادشاہوں کے ہاں گیا۔ اللہ کی قسم ! میں نے نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے لوگ اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کی تعظیم ان کے اصحاب کرتے ہیں۔ اگر انہوں نے تھوکا تو کوئی اپنے ہاتھ میں لیتا اور اپنے منہ اور بدن پر مل لیتا ہے۔ وہ کوئی حکم دیتا ہے تو لپک کر اس کا حکم بجا لاتے ہیں۔ وہ وضو کریں تو وضو کا پانی حاصل کرنے کے لئے قریب ہوتے تھے کہ لڑ مریں گے وہ بات کریں تو اپنی آواز پست کرلیتے ہیں اور از راہ ادب انہیں نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں۔ لہذا محمد نے جو بات کی ہے وہ تمہارے فائدے کی ہے۔ اس کو مان لو خ دوسرے سفیر کی رپورٹ :۔ اب بنی کنانہ کا ایک شخص بولا مجھے ان کے پاس جانے دو لوگوں نے کہا : اچھا جاؤ جب وہ آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا : اب جو شخص آرہا ہے۔ یہ بیت اللہ کی قربانی کی عظمت کرنے والوں سے ہے۔ لہذا قربانی کے جانور اس کے آگے کردو چناچہ وہ جانور اس کے سامنے لائے گئے اور صحابہ نے لبیک پکارتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہ کہہ اٹھا سبحان اللہ ایسے لوگوں کو کعبے سے روکنا مناسب نہیں وہ واپس چلا گیا اور جاکر کہا : میں نے اونٹوں کے گلے میں ہار اور ان کے کوہان چرے خود دیکھے ہیں۔ میں تو انہیں بیت اللہ سے روکنا درست نہیں سمجھتا خ تیسرا سفیر سہیل بن عمرو اس کے اعتراضات اور صلح کی شرائط :۔ اس کے بعد قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو (سفیر بن کر) آیا۔ اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا : اب تمہارا کام سہل ہوگیا سہیل کہنے لگا : اچھا لائیے، ہمارے اور تمہارے درمیان ایک صلح نامہ لکھا جائے۔ آپ نے منشی (سیدنا علی ؓ کو بلایا اور فرمایا : لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل کہنے لگا : عرب کے دستور کے موافق باسمک اللّٰھم لکھوائیے۔ آپ نے کاتب سے فرمایا : اچھا باسمک اللّٰھم ہی لکھ دو ۔ پھر آپ نے لکھوایا : محمد اللہ کے رسول۔۔ اس پر سہیل نے فوراً اعتراض کردیا اور کہا محمد بن عبداللہ لکھوایا جائے آپ نے فرمایا : اچھا محمد بن عبداللہ ہی لکھ دو ۔ اور لکھو محمد بن عبداللہ نے اس شرط پر صلح کی کہ تم لوگ انہیں بیت اللہ جانے دو گے ہم وہاں طواف کریں گے سہیل نے کہا۔ اگر ہم ابھی تمہیں جانے دیں تو سارے عرب میں چرچا ہوجائے گا کہ ہم دب گئے۔ لہذا تم آئندہ سال آؤ۔ (دوسری شرط) سہیل نے یہ لکھوائی۔ اگر ہم میں سے کوئی شخص خواہ وہ مسلمان ہوگیا ہو تمہارے پاس (مدینہ) چلا جائے تو تم اس کو ہمارے پاس لوٹاد و گے صحابہ کہنے لگے : سبحان اللہ ! یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ وہ مسلمان ہو کر آئے اور اسے مشرکوں کے حوالے کردیا جائے ؟ خ ابو جندل کا قصہ :۔ یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اتنے میں سہیل بن عمرو کا اپنا بیٹا ابو جندل (جو مسلمان ہوچکا تھا) پابہ زنجیر مکہ سے فرار ہو کر مسلمانوں کے پاس جاپہنچا۔ سہیل کہنے لگا : محمد ! یہ پہلا شخص ہے جو شرط کے موافق واپس کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا : ابھی تو صلح نامہ پورا لکھا بھی نہیں گیا سہیل کہنے لگا : اچھا تو پھر میں صلح ہی نہیں کرتا آپ نے فرمایا : اچھا خاص ابو جندل کی پروانگی دے دو سہیل کہنے لگا : میں کبھی نہ دوں گا آخر ابو جندل کہنے لگے : میں مسلمان ہو کر آیا ہوں اور کافروں کے حوالہ کیا جارہا ہوں۔ دیکھو مجھ پر کیا کیا سختیاں ہوئی ہیں خ سیدنا عمر کی دینی غیرت :۔ سیدنا عمر کہتے ہیں کہ یہ صورت حال دیکھ کر میں آپ کے پاس آیا اور کہا آپ اللہ کے سچے پیغمبر ہیں ؟ آپ نے فرمایا، کیوں نہیں میں نے کہا، کیا ہم حق پر اور دشمن ناحق پر نہیں ؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں میں نے کہا : تو پھر ہم اپنے دین کو ذلیل کیوں کریں آپ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول اور اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہ میری مدد کرے گا میں نے کہا : آپ نے تو کہا تھا کہ ہم کعبہ کے پاس پہنچ کر طواف کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : مگر میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ اسی سال ہوگا اس کے بعد میں نے ابوبکر صدیق ؓ کے پاس جاکر وہی سوال کئے جو آپ سے کئے تھے اور انہوں نے بھی بالکل وہی جواب دیئے جو آپ نے دیئے تھے۔ اس موقعہ پر مجھ سے جو بےادبی کی گفتگو ہوئی اس گناہ کو دور کرنے کے لئے میں نے کئی نیک عمل کئے خ صحابہ پر مایوسی کا عالم اور قربانی کرنے سے گریز جب صلح نامہ پورا ہوگیا تو آپ نے صحابہ سے فرمایا : اٹھو اور اونٹوں کو نحر کرو اور سر منڈاؤ آپ نے یہ کلمات تین بار کہے مگر صحابہ (اتنے افسردہ دل تھے کہ کسی نے اس پر عمل نہ کیا) یہ صورت حال دیکھ کر آپ نے ام سلمہ کے پاس جاکر ساری صورت حال بیان کی تو انہوں نے کہا : یارسول اللہ ! آپ کسی سے کچھ نہ کہئے۔ بلکہ اپنے اونٹ نحر کیجئے اور حجامت بنوالیجئے چناچہ آپ نے ایسا ہی کیا تو آپ کو دیکھ کر سب صحابہ نے بھی اپنے اونٹ نحر کئے اور ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے خ ابو بصیر اور ابو جندل کا قصہ آپ واپس مدینہ پہنچ گئے تو مکہ سے ایک شخص ابو بصیر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آگیا۔ قریش نے اسے واپس لانے کے لئے دو آدمی مدینہ بھیجے اور کہا کہ معاہدہ کی رو سے ابو بصیر کو واپس کیجئے آپ نے ابو بصیر کو ان کے حوالے کردیا۔ ابو بصیر نے راستہ میں ایک شخص کو تو قتل کردیا اور دوسرا بھاگ نکلا اور بھاگ کر مدینہ آپ کے پاس پہنچ گیا اور کہنے لگا : اللہ کی قسم ! میرا ساتھی مارا گیا اور میں بھی نہ بچوں گا اتنے میں ابو بصیر بھی وہاں پہنچ گئے اور کہا : یارسول اللہ ! آپ نے اپنا عہد پورا کرتے ہوئے مجھے واپس کردیا تھا۔ اب اللہ نے مجھے اس سے نجات دلائی ہے آپ نے فرمایا : تیری ماں کی خرابی ہو اگر کوئی تیرا ساتھ دے تو تو لڑائی کو بھڑکانا چاہتا ہے یہ سن کر ابو بصیر سمجھ گیا کہ آپ پھر اسے لوٹا دیں گے چناچہ وہ سیدھا نکل کر سمندر کے کنارے پہنچا اور ابو جندل بن سہیل بھی مکہ سے بھاگ کر ابو بصیر کے ساتھ آملا۔ اب قریش کا جو آدمی مسلمان ہو کر مکہ سے نکلتا وہ ابو بصیر کے پاس چلا جاتا یہاں تک ان کی ایک جماعت بن گئی اور قریش کا جو قافلہ شام کو جاتا اسے روک لیتے اور لوٹ مار کرتے۔ آخر قریش نے تنگ آکر آپ کو اللہ اور رشتہ ناطہ کی قسمیں دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ابو بصیر کو اپنے ہاں بلالیں اور آئندہ جو مسلمان آپ کے پاس آئے وہ ہمیں واپس نہ کریں۔ چناچہ آپ نے ابو بصیر کو اپنے پاس بلالیا (بخاری۔ کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد والمصالحۃ۔۔ )
Top