Tafseer-e-Madani - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اور وہ (قادر مطلق) وہی ہے جس نے روک دیا ان کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کی وادی میں اس کے بعد کہ اللہ نے تم کو ان پر کامیابی عطا فرما دی تھی اور اللہ پوری طرح دیکھتا ہے ان تمام کاموں کو جو تم لوگ کر رہے ہو
[ 56] حدیبیہ والوں کیلئے ایک اور انعام و احسان خداوندی کا ذکر وبیان : سو اس سے حدیبیہ والوں کے لئے ایک اور انعام اور احسان خداوندی کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ [ قادر مطلق جل جلالہ ] وہی ہے جس نے روک دیا لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے مکہ کی وادی میں اس کے بعد کہ اس نے تم لوگوں کو نواز دیا تھا ان کے مقابلے میں فتح اور کامیابی سے۔ یعنی جب کہ مشرکین کے اسی آدمی چپکے سے گھات لگا کر مسلمانوں پر حملہ کرنے والے تھے تو وہ سب مسلمانوں کے ہاتھوں پکڑ لئے گئے، اور انہوں نے ان کو پکڑ کر سیدھا لاکر آنحضرت ﷺ کی خدمت کیں پیش کردیا تو آپ ﷺ نے ان کی رہائی کا حکم دے دیا، اور یہی تقاضا تھا آپ ﷺ کے کریمانہ اخلاق اور اس وقت کے حالات کا، تاکہ جنگ کی آگ نہ بھڑکنے پائے، اور صلح اور اس کے آثار وثمرات متاثر نہ ہونے پائیں، اور اس طرح جنگ کی نوبت نہ آسکی جو کہ تدبیر الٰہی کا ایک مظہر اور کرشمہ تھا، اگرچہ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ دے دیا تھا، اگر جنگ ہوتی تو ان کو منہ کی کھانی پڑتی لیکن حکمت الٰہی کا تقاضا یہی ہوا کہ اس موقع پر جنگ نہ ہو، اس لیے اس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا، اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روک دیا، اور حدیبیہ چونکہ بالکل مکہ کے دامن میں واقع ہے اس لیے اس کو بطن مکہ سے تعبیر فرمایا گیا۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ جب قریش کو مسلمانوں کے اس جوش و جذبہ کی اطلاع ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اللہ کے رسولوں کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے کیا تھا تو ان کے اعصاب ڈھیلے پڑگئے جس کے نتیجے میں انہوں نے فوراً وفد بھیج کر صلح کی بات چیت شروع کردی اگرچہ اس وفد نے اپنی آن رکھنے کی بھی کوشش کی۔ لیکن اندر سے وہ لوگ کھوکھلے ہوگئے تھے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ اب ون لوگوں کے اندر مسلمانوں سے لڑنے اور مقابلہ کرنے کا دم خم موجود نہیں۔ چناچہ انہوں نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اگلے سال مسلمان آکر بیت اللہ کا طواف پوری آزادی سے کرسکتے ہیں اور جب وہ آئیں گے تو یہ تین دن کیلئے مکہ خالی کردیں گے تاکہ کسی تصادم کا کوئی اندیشہ نہ رہے اور مسلمان اپنی مرضی سے عمرہ ادا کرلیں۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ [ 57] اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھتا جانتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ : سو ارشاد فرمایا گیا اور اللہ تعالیٰ پوری طرح دیکھ رہا تھا تمہارے سب کاموں کو۔ اسی لئے اس نے تم کو ان کفار سے محفوظ رکھا، یہ محض اس کی رحمت و عنایت تھی اور اسی بناء پر وہ تم کو آخرت کی دائمی نعمتوں سے بھی نوازے گا، پس ہمیشہ اس وحدہ لاشریک سے اپنا معاملہ صاف رکھنے کی ضرورت ہے، فکن اللّٰہم لنا ولا تکن علینا وانصرنا ولا تنصر علینا فانک ربنا الرحمن الغفور الرحیم ونحن عبادک الضعفاء والمساکین بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو خود دیکھ رہا تھا اور تمہارے حالات کا خود جائز لے رہا تھا، اس لیے جو کچھ ہوا وہ سب اس کی رحمت و حکمت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوا، اور اسی میں تمہاری بہتری تھی اور ہے، سبحانہ وتعالیٰ ۔ سو اس ارشاد میں ایک طرف تو اہل ایمان کے لیے تسکین و تسلی کا سامان ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال کو خود یکھ رہا ہے تو پھر تمہیں کسی کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے ؟ پس تم ہمیشہ اسی پر بھروسہ کرو اور ہمیشہ اس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھنے کی فکر و کوشش کرو، اور دوسری طرف اس میں کفار و مشرکین کے لیے تہدید وتحذیر بھی ہے کہ تمہارے کرتوت اللہ تعالیٰ سے مخفی و مستور نہیں۔ تم لوگوں کو اپنے کیے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہوگا۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔
Top