Tafseer-e-Majidi - Al-Fath : 24
وَ هُوَ الَّذِیْ كَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ وَ اَیْدِیَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ اَظْفَرَكُمْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْ كَفَّ : جس نے روکا اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاَيْدِيَكُمْ : اور تمہارے ہاتھ عَنْهُمْ : ان سے بِبَطْنِ مَكَّةَ : درمیانی (وادیٔ) مکہ میں مِنْۢ بَعْدِ : اسکے بعد اَنْ : کہ اَظْفَرَكُمْ : فتح مند کیا تمہیں عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر وَكَانَ اللّٰهُ : اور ہے اللہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ : جو کچھ تم کرتے ہوا سے بَصِيْرًا : دیکھنے والا
وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے ان کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے بطن مکہ میں روک دیئے، بعد اس کے کہ تم کو ان پر قابو دے دیا تھا اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب دیکھ رہا تھا،28۔
28۔ (چنانچہ ایسا کام اس نے تمہارے ہاتھ سے نہ ہونے دیا جس کا نتیجہ قتال ہوتا) (آیت) ” وھو ..... عنھم “۔ یعنی تم مسلمانوں اور مشرکوں کو باہمی قتل و قتال سے روک دیا۔ (آیت) ” کم صیغہ جمع مخاطب مسلمانوں کے لئے ہے اور ھم صیغہ جمع غائب مشرکین مکہ کے لیے ہے۔ اشارہ صلح حدیبیہ کی جانب ہے۔ (آیت) ” ببطن مکۃ “۔ بطن مکہ، سے مراد حدیبیہ ہے جسے کمال قرب واتصال کی بناء پر بطن مکہ ہی قرار دے دیا گیا۔ فقہاء حنفیہ کے ہاں، حرم مکہ میں حدیبیہ کا ایک جزء بھی شامل ہے۔ (آیت) ” من ..... علیھم “۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اس سے اشارہ فتح مکہ کی جانب سمجھ کر استنباط یہ کیا ہے کہ مکہ صلح کے ذریعہ سے نہیں بلکہ جنگ سے مسلمانوں کے ہاتھ میں آیا۔ وبہ اشتشھد ابو حنفیۃ (رح) علی ان مکۃ فتحت عنوۃ لاصلحا (مدارک)
Top