Maarif-ul-Quran - Al-A'raaf : 182
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۚۖ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو كَذَّبُوْا : انہوں نے جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو سَنَسْتَدْرِجُهُمْ : آہستہ آہستہ ان کو پکڑیں گے مِّنْ حَيْثُ : اس طرح لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہ جانیں گے (خبر نہ ہوگی)
اور جنہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو ہم ان کو آہستہ آہستہ پکڑیں گے ایسی جگہ سے جہاں سے ان کو خبر بھی نہ ہوگی،
دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ جب قومی ترقی کا مدار حق پرستی اور حق و انصاف کی پیروی پر ہے تو دوسری غیر مسلم قومیں جو حق سے سراسر دور ہیں وہ کیوں دنیا میں پھلتی پھولتی نظر آتی ہیں، جواب یہ ہے (آیت) وَالَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُوْنَ ، یعنی ہم اپنی آیات کے جھٹلانے والوں کو اپنی حکمت و رحمت کی بناء پر دفعةً نہیں پکڑتے بلکہ آہستہ آہستہ تدریجا پکڑتے ہیں جس کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی، اس لئے دنیا میں کفار و فجار کی مالداری یا عزت و جاہ سے دھوکہ نہ کھایا جائے، کیونکہ وہ درحقیقت ان کے لئے کوئی بھلائی کا سامان نہیں، بلکہ حق تعالیٰ کی طرف سے استدراج ہے، استدراج کے معنی درجہ بدرجہ، آہستہ آہستہ کوئی کام کرنے کے آتے ہیں، اصطلاح قرآن و سنت میں استدراج اس کو کہا جاتا ہے کہ بندہ کے گناہ پر دنیا میں کوئی تکلیف و مصیبت نہ آئے بلکہ جوں جوں وہ گناہ میں آگے بڑھتا جائے، دنیاوی مال و اسباب اور بڑھتے جائیں، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنی بدکرداری پر کسی وقت تنبیہ نہیں ہوتی اور غلفت سے آنکھ نہیں کھلتی اور اپنے برے اعمال اس کو برے نظر نہیں آتے کہ وہ ان سے بازآنے کی فکر کرے۔
انسان کی یہ حالت اس مریض لاعلاج کے مشابہ ہے جو بیماری ہی کو شفاء اور زہر ہی کو تریاق سمجھ کر استعمال کرنے لگے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی تو دنیا میں ہی یہ شخص دفعۃً عذاب میں پکڑ لیا جاتا ہے اور کبھی موت تک یہ سلسلہ چلتا ہے بالآخر موت ہی اس کی مستی اور بےہوشی کا خاتمہ کرتی ہے اور دائمی عذاب اس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔
قرآن کریم نے مخلتف سورتوں اور آیتوں میں اس استدراج کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد ہے (آیت) فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ ، یعنی جب یہ لوگ اس چیز کو بھلا بیٹھے جو ان کو یاد دلائی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے، یہاں تک کہ یہ اپنی ملی ہوئی نعمت و دولت پر اکڑ گئے تو ہم نے ان کو اچانک عذاب میں پکڑ لیا تو وہ خلاصی سے ناامید ہو کر رہ گئے۔
یہ استدراج کفار کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور مسلمان گنہگار کے ساتھ بھی، اسی لئے صحابہ اور سلف صالحین کو جب کبھی دنیا کی نعمت و دولت حق تعالیٰ نے عطا فرمائی تو غلبہ خوف کی وجہ سے استدراج سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں یہ دنیا کی دولت ہمارے لئے استدراج نہ ہو۔
Top