Al-Qurtubi - An-Naml : 91
اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا وَ لَهٗ كُلُّ شَیْءٍ١٘ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَۙ
اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : عبادت کروں رَبَّ : رب هٰذِهِ : اس الْبَلْدَةِ : شہر الَّذِيْ : وہ جسے حَرَّمَهَا : اس نے محترم بنایا ہے وَلَهٗ : اور اسی کے لیے كُلُّ شَيْءٍ : ہر شے وَّاُمِرْتُ : اور مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَكُوْنَ : میں رہو مِنَ : سے الْمُسْلِمِيْنَ : جمع مسلم۔ مسلمان۔ فرمانبردار
(کہدو) کہ مجھ کو یہی ارشاد ہوا ہے کہ اس شہر (مکہ) کے مالک کی عبادت کروں جس نے اس کو محترم (اور مقام ادب) بنایا ہے اور سب چیز اسی کی ہے اور یہ بھی حکم ہوا ہے کہ اس کا حکم بردار رہوں
انما امرت ان اعبدرب ھذہ البلدۃ الذی حرمھا مراد مکہ مکرمہ ہے اللہ تعالیٰ نے جس کی حرمت کو عظمت والا بنایا ہے یعنی اسے امن والا حرم بنایا ہے اس میں خون نہیں بہایا جاتا اور اس میں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا، کسی شکار کو شکار نہیں کیا جاتا، اس میں درخت کو نہیں کاٹا جاتا جس کی وضاحت کئی مواقع پر گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس نے التی حرمھا، بلدہ کی صفت پڑھی ہے۔ جماعت کی قرأت الذی ہے یہ محل نصب میں ہے اور رب کی صفت ہے اگر لفظ رب معرف باللام ہوتا تو تو کہتا : المحرمھا اگر یہ بلدہ کی صفت ہوتا تو تو کہتا : المحرمھا ھوا گر تو کہتا : الذی حرمھا تو تو استدلال نہ کرسکتا کہ تو کہتا ہو۔ ولہ کل شیء پیدائش اور ملک کے اعتبار سے ہر شے اسی کی ہے۔ وامرت ان اکون من السلمین اس کے حکم کو ماننے والے اس کی وحدانیت کا اقرار کرنے والے۔ وان اتلوا القرآن مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں قرآن کی تلاوت کروں یعنی اسے پھڑوں۔ فمن اھتدی اس کے لئے ہدایت کا ثواب ہے۔ ومن ضل تو میرے ذمہ تو صرف پیغام حق پہنچانا ہے۔ آیتہ قتال نے اس آیت کے حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ نحاس نے کہا، وان اتلویہ ان کی وجہ سے منصوب ہے۔ فراء نے کہا، ایک قرأت میں وان اتل ہے اس کا گمان ہے کہ یہ امر کی وجہ سے جزم کے محل میں ہے اسی وجہ سے اس سے وائو حذف ہے۔ نحاس نے کہا، ہم کسی کو بھی نہیں جانتے جس نے یہ قرأت کی ہو۔ یہ تمام مصاحف کے خلاف ہے۔
Top