Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 89
وَ زَكَرِیَّاۤ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ
وَزَكَرِيَّآ : اور زکریا اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب رَبِّ : اے میرے رب لَا تَذَرْنِيْ : نہ چھوڑ مجھے فَرْدًا : اکیلا وَّاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور زکریا کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ پروردگار مجھے اکیلا نہ چھوڑو اور تو سب سے بہتر وارث ہے
(9) قصہ زکریا (علیہ السلام) قال اللہ تعالیٰ وزکریا اذ نادی ربہ .... الیٰ .... وکانوا لنا خشعین۔ (ربط) ان آیات میں نواں قصہ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہیں جس سے آنحضرت ﷺ کی خاطر عاطر کی تشفی مقصود ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور اے نبی زکریا (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیجئے جبکہ اس نے اپنے پروردگار کا پکارا کہ اے میرے پروردگار مجھ کو تنہا یعنی لاوارث اور بےاولا دنہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر وارث ہے یعنی ظاہری وارث سب فنا ہوجائیں گے صرف ایک تو ہی باقی رہے گا۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو یحییٰ بیٹا بخشا اور ان کی بی بی کی جو کہ بانجھ تھیں ان کی اصلاح کردی یعنی ان کے بانجھ پن کو دور کرکے بچہ چننے کے قابل بنا دیا یا یہ معنی ہیں کہ ان کی بیوی کی بدخلق کو خوش خلقی سے بدل دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی بیوی بد زبان تھیں۔ مفصل قصہ سورة مریم اور سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ یہ تمام انبیاء جن کا اس سورت میں ذکر ہوا نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور امید و بیم اور خوف ورجاء اور رغبت اور خوف سے ہم کو پکارتے تھے اور ہمارے سامنے نیاز مندی اور عاجزی کرنے والے تھے۔ پس جس کو اللہ کی رحمت میں داخل ہونے کی طمع ہو تو اس کو چاہیے کہ رغبت اور رہبت کے ساتھ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرے نیاز مندی کو اختیار کرے ناز کو چھوڑ دے۔
Top