Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے مسلمانو ! اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو اور نہ ان مہینوں کی بےحرمتی کرو جو حرمت کے مہینے ہیں اور نہ قربانی کی ، نہ ان جانوروں کی جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیتے ہیں نیز ان لوگوں کی بھی بےحرمتی نہ کرو جو بیت حرام کا قصد کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کا فضل اور اس کی خوشنودی ڈھونڈتے ہیں اور جب تم احرام کی حالت سے باہر آجاؤ تو پھر شکار کرسکتے ہو اور ایسا نہ ہو کہ ایک گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات پر ابھار دے کہ زیادتی کرنے لگو کیونکہ انہوں نے مسجد حرام سے تمہیں روک دیا تھا ، نیکی اور پرہیزگاری کی ہر بات میں ایک دوسرے کی مدد کرو گناہ اور ظلم کی بات میں نہ کرو اور دیکھو اللہ کی نافرمانی سے بچو یقینا وہ سخت سزا دینے والا ہے
مسلمانوں کو حکم کہ شعائر اللہ کی بےحرمتی نہ کرو : 7: شعائر اللہ کیا ہیں ؟ ” شعائر “ جمع ہے شعیرۃ کی اور ” شعیرۃ “ کسی چیز کی خصوصی علامت کو کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی پر ستش کی مخصوص علامتیں جن میں غیر الہ کی پرستش کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے اور جو علامتیں نبی اعظم وآخر ﷺ نے اپنی اصلی حالت پر بحال رکھی ہیں سب شعائر اللہ کہلاتی ہیں جیسے بیت اللہ کا طواف ، صفا ومرہ کے درمیان سعی ، عرفہ اور مزدلفہ کا قیام۔ منی میں قربانی اور کنکریاں وغیرہ پھینکنا سب شعائر اللہ ہیں۔ اسی طرح احرام کا باندھنا ، محرم کا شکا رنہ کرنا ، حرم کے اندر شکار نہ کرنا وغیرہ سب شعائر اللہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک کی پرستش کی نشانیاں ہیں ان سب کو اسی طریقے سے ادا کرنا ہے جس طرح ادا کی جاتی ہیں جس چیز کی جو جو اور جتنی جتنی اہمیت ہے سب نبی کریم ﷺ کی ہدایات صحیح احادیث کے اندر موجود ہیں۔ یہ سب محبت الٰہی کا والہانہ انداز ہے جو غیر مسلم قوموں پر اظہار کی خاطر ہے کہ ہماری ہر حرکت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہے اور ہمارا کوئی کام اور کوئی حرکت بھی غیر اللہ کے لئے نہیں ہے اور ہماری ہر حرکت سے قومی یکجہتی کی علامت واضح ہے ہم طواف کرتے ہیں تو صرف بیت اللہ کا کسی دوسری جگہ کا طواف حرام ہے ہم وقوف کرتے ہیں تو صرف اور صرف عرفات و مزدلفہ میں کسی دوسری جگہ وقوف عبادت میں شمار نہیں۔ ہماری سعی کی جگہ بھی صرف ایک ہے کوئی دوسری جگہ نہیں۔ ہم سب اہل قبلہ ہیں اور ہمارا سب کا قبلہ ہے تو صرف ایک دوسرا کوئی قبلہ نہیں ہے۔ جس طرح ہم قوم قومی یکجہتی کے لئے کوئی نہ کوئی علامت رکھتی ہے اپنے ملک کی پہچان کے لئے ملکی یکجہتی کی علامت رکھی جاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی پرستش کی علامتوں کا نام شعائر اللہ ہے ۔ ہر ایک کا اپن جھنڈا ، فوج کے لئے اپنی نیفارم اس طرح سکے اور نوٹ وغیر ہوتے ہیں اور ہر حکومت ان علامات کو ضروری جانتی اور ان چیزوں کا ایک احترام مقرر کرتی ہے اور اس کے ساتھ جاہلی علامت کی مخالفت کر کے ان کی سزائیں مقرر کرتی ہے۔ اسی طرح شعائر اللہ کی اہمت بھی اپنی جگہ قائم ہے ان میں نہ ردوبدل ممکن ہے اور نہی نئی نئی علامتیں مقرر کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ السلام کے اندر رہتے ہوئے انہی علامات و نشانات کے ساتھ وابستہ رہناضروری ہے اور ان کا خلاف کرنے اور نشانیاں بنا لی ہیں جو کھلا شرک ہیں۔ اسلام کے اندر رہتے ہوئے نہ گروہ بندی جائز ہے اور نہ ہی اپنی اپنی گروہ بندیوں کی علامات کی کوئی گنجائش ہے۔ ہم پورا زور دے کر یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ جن چیزوں کو اسلام نے شعائر اللہ قرار دیا ہے ان کا اور جو دوسری قوموں نے اپنی اپنی قومی یکجہتی کی جو علامات بنا رکھی ہیں انکا عقل وفکر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو بات زور روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان شعائر اللہ میں وحدت الٰہی کا تصور پوری آپ وتاب سے موجود ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسری قوموں کی علامات میں غیر اللہ تصور پایا جاتا ہے مثلاً گرجا ، قربان گاہ اور صلیب مسیحیت کے شعائر ہیں۔ چوٹی ، زنا اور مندر بر ہمنیت کے شعائر ہیں۔ جیسے کیس ، کڑا ، کچھا اور کرپان سکھ مذہب کے شعائر ہیں۔ ذرا غور کر کے دیکھو تو تم پر بات واضح ہوجائے گی لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اپنی فرقہ بندی کے لئے کچھ نئی نئی علامات بنا لیں جیسے شیوں نے پنجہ ، تیر ، تلوار اور گھوڑا اپنے شعائر مقرر کر لئے حالانکہ ان سب میں وہی بودباس موجود ہے جو غیر مسلم قوموں کے شعائر میں موجودتھی اس طرح دوسرے مکاتب فکر کے شعائر پر غور کرو گے تو تم کو معلوم ہوجائے گا کہ واقعی یہ سب کے سب غیر اسلام تصور سے بھرے ہوئے ہیں اور ان سب میں غیر اللہ کی بو کسی نہ کسی رنگ میں موجودے پھر مزید ظلم نہ کیا گیا کہ ان سب چیزوں کو دین اسلام کی علامات کے نام سے یاد کیا جانے لگا حالانکہ اسلام کا ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اشہر الحرام کی بےحرمتی ممانعت بھی بدستور قائم ہے : 8: حرمت کے مہینے چار ہیں تین ان میں سے اکٹھے ہیں۔ یعنی ذیقعدہ ، ذی الحجہ اور محرم چوتھا مہینہ رجب کا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہے۔ قبل از اسلام میں بھی عربوں میں یہ مہینے حرمت ہی کے سمجھے جاتے تھے اسلام جو حقیقت می صلح و آتشی کا داعی ہے اس نے عربوں کی اس پہلی رسم کو قائم رکھا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ وہ بدامنی کو کسی حال میں پسند نہیں کرتا اور اس کے جہاد کا بھی اصل مقصد بدامنی ہی کو دور کرنا ہے۔ اگر متحارب فریق جزوقتی طور پر امن کو پسند کریں تو وہ ناپسند نہیں کرسکتا اور خلاف ورزی نہ کرنے کا واضح ہے کہ جے سا عرب اگر جنگ کا پلا بھاری دیکھتے تو حرمت کے مہینے کو ادل بدل دینے کا اعلان کردیتے ہیں اس لئے ان کو روکا گیا ہے کہ یہ ” نسی “ تم نے اپنے پاس سے اپنی ضرورت کے مطابق گھڑلی ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور حقیقت میں سراسر زیادتی ہے اور اسلام تمہاری اس رسم کو قبول نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ عربوں میں اسلام سے پہلے بھی مذکورہ چا رمہینے حرمت ہی کے تھے لیکن ان کے ہاں ایک رواج یہ بھی تھا کہ جنگ اگر ان کا پلا بھاری ہوجاتا اور آگے ماہ حرمت والا کوئی مہینہ آجاتا تو وہ اعلان کردیتے کہ ہمارا یہ مہینہ حرمت والا نہیں ہوگا بلکہ اس سے اگلا مہینہ آرہا ہے جس میں جنگ لڑنا حرام ہے تو وہ اعلان کردیتے کہ آنے والا مہینہ رجب نہیں ہے بلکہ شعبان ہے اور رجب اس دفعہ شعبان ہوگا اور شعبان رجب ہوجائے گا اور اس رسم کو وہ ” نسی “ کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس تبدیلی کی ممانعت فرما دی اور اس کا نام ” زیارت کفر “ رکھا۔ ہاں ! ” نسی “ کو جن لوگوں نے ” لوندھ “ سے تعبیر کیا ہے ان کی یہ تعبیر صحیح نہیں ہے کیونکہ ” لوندھ “ ایک مہینے کے اضافہ کے نام ہے اور ” نسی “ ایک مہینے کو دوسرے سے بدل دینے کو کہا جاتا ہے ۔ اس طرح ” لوندھ “ ایک دوسری رسم کا نام ہے اور یہ رسم بھی ان میں پائی جاتی تھی اور قومیں جس رسم کو اپنا لیتی ہیں اس کی برائی کتنی ہی واضح کیوں نہ ہو وہ من حیث القوم کرنے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ جھجک ہمیشہ اس کی محسوس کی جاتی ہے جس کو کرنے والے اقلیت میں ہوں اور یہ قلت و کثرت کا مرض بہت پرانا ہے اور بدقسمتی سے یہ مرض آج بھی دوسری قوموں کی طرح قوم مسلم میں عام ہے جو عوام و خواص سب میں پایا جاتا ہے۔ اس لئے اس لی شکایت اللہ ہی کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے اس لئے کہ ہم اس کے سامنے پیش کر رہے ہیں کہ اے اللہ اس مرض سے ہم کو نجات دے۔ ” الشَّهْرَ الْحَرَامَ “ جنس کے طور پر استعمال ہوا ہے مراد سارے حرمت کے مہینوں سے ہے۔ حج کی قربانی کے جانوروں کی بےحرمتی کی ممانعت : 9: ” اور نہ قربانی کی “ بےحرمتی کرو۔ قربانی کے وہ جانور جو بیت اللہ کے قرب و جوار کے لوگ حج کے لئے جاتے وقت ساتھ لے جاتے ہیں تالہ وہ لے جا کر ان کو منی میں قربان کریں۔ جو حج کے ارکان میں سے ایک خاص رکن کے طور پر کی جاتی ہے اور اس میں اکثر ونٹ ، گائے اور بھیڑ ، بکری استعمال ہوتے ہیں ۔ ان جانوروں کے بےحرمتی کیا ہے ؟ یہی کہ ان کو راستے میں لوٹ لیا جائے گا اور وہاں تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے جائے۔ قبائل میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ایسا کیا جاتا تھا اور اب بھی اس کا امکان موجود تھا اس لئے کہ اس کو مخصوص طور پر ذکر کردیا۔ ھدی ، ھلیۃ کی جمع ہے اور ہدیہ تحفہ سے مخصوص ہے۔ یہ جانور گویا اللہ کے حضور تحفتہً پیش کئے جاتے ہیں اس لئے ان جانوروں کا جوان اور ہر لحاظ سے درست ہونا ضروری قرار پایا جیسا کہ ہدیہ کی چیز ہوتی ہے۔ حج کے لئے جاتے وقت سواری کے جانور اگرچہ ان کو وہاں لے جا کر قربان کردینے کا ارادہ بھی ہو ، ان پر سوار ہو کر جانا چاہئے اور یہ بات ان جانوروں کی بےحرمتی میں ہرگز ہرگز داخل نہیں ہے بلکہ یہ ایک جہالت اور وہم ہے جس کو خود رسول ﷺ نے منع فرمایا تھا اس لئے ان جانوروں کے ساتھ ایسی عقیدت قائم کرنا قطعاً درست نہیں بلکہ شریعت کی نظر میں سخت منع ہے۔ چناچہ حدیث میں ہے کہ : عن ابی ہریرہ ان رسول اللہ رای رجلا یسوق بدنۃ فقال ارکھا فقال یا رسول اللہ انھا بدنۃ قال راکھا ویلک میں الثانیۃ وفی الثالثۃ (مسلم شریعت کتاب الحج ج اول جزو 3) ” ابوہریرہ (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ قربانی کے اونٹ کھینچ رہا ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا اس پر سوار ہوجا اس نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ یہ قربانی کا اونٹ ہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس پر سوار ہوجا۔ اس نے پھر وہی کہا تو آپ (علیہ السلام) نے دوسری یا تیسری بار فرمایا کہ ” افسوس ہے تجھ پر “ اس پر سوار ہوجا۔ “ ہاں ! ان جانوروں کے چارہ و خوراک کا صحیح بندوبست نہ کرنا ان کی بےحرمتی میں شمار ہو سکتا ہے ان سے جائز انتفاع کی ہرگز ہرگز ممانعت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اسلام نے کبھی ایسا حکم دیا ہے۔ حج کے مخصوص دنوں میں منی کے اندر مخصوص قربان گاہ میں جانور کو قربان کرنے کی علامت نے کسی دوسرے مخصوص مقام پر لے جا کر جانور کو ذبح کرنے کی ممانعت کردی کوئی مسلمان اس ایک خاص جگہ اور وہ بھی خاص دنوں کے علاوہ کسی دو سے مخصوص مقام پر لے کر جا کر جانور ذبح نہیں کرسکتا اگر ایسا کرے گا تو اس کا یہ فعل حلال جانور کو حرام کردے گا کیونکہ اس سے ان جانوروں کی بےحرمتی کا پہلو نکلتا ہے اس لئے اس سے بھی منع فرمایا دیا جیسا کہ آگے اس کا ذکر آئے گا۔ گلے میں پٹے ڈال دیئے گئے جانوروں کے بےحرمتی کی ممانعت : 10: ” الْقَلَآىِٕدَ “۔ قلادۃ کی جمع ہے اور ” قلد “ کے معنی بٹنے کے ہیں اور جو چیز بٹ کر کسی جانور کے گلے میں لٹکائی جاتی ہے اس جانور کو معروف کرنے کے لئے تاکہ سب لوگ دیکھتے ہی معلوم کرلیں کہ یہ جانور بیت اللہ کی قربانی کے لئے مخصوص ہے۔ قبل از اسلام بھی اس رسم کا رواج تھا چونکہ اس میں کوئی قباحت نہ تھی اس لئے اسلام نے اس کو منع نہیں کیا بلکہ اس کی تائید کردی گئی۔ ” الہدی “ کے اندر ان کا حکم موجود تھا کیونکہ یہ بھی ” ہدی “ ہے لیکن چونکہ اس کے گلے می پٹہ ڈال کر علامت اور نشان کے طور پر اس کو معروف کیا گیا تھا اس لئے اس کا الگ ذکر بھی کردیا اور ان جانوروں کو ان کے گلے کی علامت ہے جب پہچان لیا گیا تو اب ان کے بےحرمتی یعنی لوٹ کھسوٹ کی مزید ممانعت ہوگی۔ لوٹ کھسوٹ تو ویسے بھی جائز نہیں لیکن خصوصاً ان جانوروں کی جو بیت اللہ کی طرف قربانی کے لئے لے جائے جا رہے ہیں ان کی بےحرمتی کا مرتکب ہونا تو لوٹ کھسوٹ کے گناہ میں مزید کئی گناہ اضافہ کردینے کے متراد ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حجاج کرام جب حج کرکے واپس لوٹتے تھے تو علامت کے طور پر اپنے گلوں میں حرم کے درختوں کی چھال لٹکا لیا کرتے تھے تاکہ راستہ میں کوئی ان سے تعرض نہ کرے اور قافلوں کو لوٹ لینے والے چوروڈاکو بھی ان کا خاص احترام کرتے تھے اور یہ بھی کہ یہ رسم اگر اسلام سے پہلے موجود تھی بھی تو اسلام کے بعد اس کو ہرگز ہرگز نہیں ادا کیا ان جانوروں کے گلے میں پٹے ڈال دینے کا رواج اسلام میں موجود تھا جو آج تک موجود ہے بلکہ اس رسم نے کسی دوسرے کے نام سے جانوروں کو مخصوص کردینے کی بالکل ممانعت کردی۔ ہاں ! اس سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ جب اللہ کی نیاز کے جانوروں کو لوٹنے کی ممانعت ہوگئی تو جو دور دراز سے چل کر بیت اللہ حج کے لئے حجاج کرام آتے ہیں ان کو نقصان پہنچانا تو بدرجہ اتم برائی ہوئی۔ اس لئے ایسے مسافروں کا راستہ روکنا ، اس گناہ کو بہت گناہ بنا دیتا ہے اس لئے اس کا تصور بھی کسی کے دل میں نہ گزرنا چاہئے۔ آمین البیت الحرام کیا ہے ؟ اور ان کی بےحرمتی کی ممانعت : 11: آمین البیت الحرام سے مراد وہ لوگ ہیں جو حج کے ارادہ و قصد سے بیت اللہ کی طرف جائیں یعنی حجاج کرام۔ ام کے معنی قصد کرنے کے ہیں اور اسی سے آمین ہے۔ ان کے بےحرمتی سے مراد ان سے لوٹ کھسوٹ ہے یا کوئی ایسی بات یا ایسا کام کرنا جس سے وہ رک جائیں یعنی بیت اللہ میں نہ پہنچ سکیں۔ برائی ہر حال میں برائی ہے تاہم وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے کم و بیش ہوتی رہیی ہے ۔ کسی کا راستہ روکنا اور اس کو لوٹنا کھسوٹنا بھی ہر حال میں برائی ہے لیکن اللہ کی راہ میں نکلنے والوں کا راسہ میں چلنے کا بھی خیال نہ کیا جس سے وہ دوہری سزا کے مستحق ہوگئے۔ نیز اس آیت نے اس بات کی وضاحت بھی فرما دی کہ ایک حج کرنے کی بیت سے نکلنے والا انسان اس بات کا پابند نہیں کہ وہ راستہ میں یا مکہ و مدینہ کوئی تجارت کا مال لے جانے یا لے آنے کا پابند ہو کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرسکتا۔ نہیں نہیں اگر وہ اللہ کے فضل یعنی مال کی حصول کی جائز کوشش کرے تو اس کی ہرگز ممانعت نہیں ہے ۔ ہاں ! قانون نے جو پابندیاں لگائی ہوں ان کی خلاف ورزی قانونی خلاف ورزی ہوگی اور قانونی ورزی کی سزا کا ایک اپنا مقام ہے۔ چنانچہ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا 1ؕ کے جملہ نے حج کے لئے آنے جانے والوں کے لئے دائرہ قانون کے اندر رہتے ہوئے تجارت کی گنائش بھی فراہم کردی اور لوگوں کو ان کی ان بات سے تعارض کرنے کی بھی ممانعت فرما دی کہ ان کے تجارتی کاروبار میں بھی وہ کسی طرح مزاحمت نہ کریں ۔ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ اگر معاش کے لئے بھی کوئی جائز صورت اختیار کریں جس میں ان کو فرائض کی ادائیگی میں کوئی فرق نہ پڑے تو اسلام ان سے تعرض نہیں کرتا اور ان کے راستے کی رکاوٹ بننے والوں کو بھی وہ سختی سے منع کرتا ہے۔ لیکن ان کا مطلب یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ اسلام چوری اور سینہ زدری کی اجازت دے رہا ہے جو رویہ آج کل ہمارے علمائے کرام نے اختیار کر رکھا ہے اور بڑے بڑے سیٹھوں اور سیاسی لیڈروں نے دھاندلی مچا رکھی ہے اور حج کو نہیں بلکہ یہ دھوکا ہے جو براہ راست اللہ کو دینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ اللہ کو دھوکا دینے والا ، اپنی ہی ذات کے ساتھ دھوکا کر رہا ہوتا ہے جس کے وبال سے وہ یقینا بچ نہیں سکتا۔ یہ قرآن کریم کی تفسیر ہے کسی کرید کا یہ مقام نہیں سعودیہ کے ” وقف للہ “ قرآن اور تفاسیر کی کتابیں جو اس ملک کے بازاروں میں کتب فروشوں کے ہاں کھلے بندوں بک رہی ہیں یہ کون لایا ہے اور کیسے لایا ہے ؟ کہاں چھپا اور کیسے چھپوایا گیا ؟ جس چیز پر ” وقف للہ “ پرنٹ لیا گیا ہے کیا وہ بیچنے اور خریدنے کی چیز ہے ؟ بڑے بڑے سناروں کے ہاں سونے کی انیٹیں اور خاص سونے کے بیس بیس تولے کے بڑے بڑے ہار اور کڑے جن پر سعودیہ کی ٹکسالوں کی مہریں تک موجود ہیں کرامتاً زمین کے اندر ہی اندر سے یہاں پہنچ گئی ہیں ؟ جہاد کے نام پر آنے والی پر رقمیں اور دینی مدارس کے نام پر آنے والا مال کون لا رہا ہے اور کہاں کہاں خرچ کیا جا رہا ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندیوں کی تلاش کا نتیجہ ہے ؟ فتویٰ پوچھنا ہو تو مفتیان دین سے پوچھو۔ جب تم حلال ہوگئے تو اب شکار کی ممانعت تم سے اٹھا لی گئی : 12: ” حلال ہوگئے ‘ ‘ یعنی جب احرام کھول دیا تو جو چیزیں محرم کے لئے جاجائز قرار دی گئی تھیں وہ اب جائز و حال ہوگئیں جیسے محرم کو شکار سے منع کیا گیا تھا کہ احرام باندھ لینے والا اپنی ضرورت کے مطابق بھی شکار نہیں کرسکتا اب وہ قید اس سے اٹھا لی گئی بلکہ ہر وہ چیز جو محر م کے لئے ناجائز و حرام تھی اب جائز و حلال ہوگئی۔ الصید ” صاد “ سے مصدر ہے اور اس کے معنی ہیں جو چیز انسان کے لئے منع ہے اس کو کامیاب ہو کر حاصل کرلینا۔ ظاہر ہے کہ شکار وہی ہو ہو جو انسان کے قبضہ میں نہیں۔ وہ جانور جو قبضہ میں ہے ان کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں وہ جنگلی جانور جو عرفاً حلال ہیں لیکن جنگلی ہونے کی وجہ سے وجہ کسی ملکیت میں نہیں ہیں ایک شکاری جب چاہے شکار کرسکتا ہے اور وہ عرفاً کھانے کے جانور ہیں تو ان کو عرف کے مطابق شکار کرنے والا کھا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلا سکتا ہے ۔ جب اور جہاں اس کے لئے شکار کرنے کی اجازت ہو شرعاً بھی اور قانوناً بھی اور حرم نے جب احرام کھول دیا تو احرام کی وجہ سے جوا س کو شکار کی ممانعت نہیں لیکن یاد رہے کہ حرم کے اندر شکار کسی وقت بھی نہیں کیا جاسکتا ” حرم “ کی حرمت کا ایک اپنا مقام ہے احرام کھل جانے سے شکاری کو شکار کی اجازت بلاشبہ مل گئی لیکن حرم کے اندر نہیں اس لئے کہ حرم کی حرمت اپنی جگہ پر قائم ہے۔ سورة مائدہ کی اس دوسری آیت میں اس معاہدہ کے اہم جزء کا بیان ہو رہا ہے جو ہر انسان اور رب کریم کے درمیان ہے اس کا ایک حصہ یہاں بیان ہوا ہے جس میں اول مطلقاً شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کی بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت ہے اور پھر خاص طور پر شعائر اللہ کی کچھ تفصلاہت ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ ان میں بقصد حج بےحرمتی سے بچنے کی ہدایت ہے۔ اب معاہدہ کا دوسرا جزاء بیان ہونے والا ہے۔ کسی قوم کی دشمنی مسجد حرام سے روکنے کا باعث نہ ہو : 13: سبحان اللہ کیا گر کی بات ہے کہ زیادتی زیادتی ہی ہے خواہ کوئی کرے۔ معاہدہ کا دوسرا جزء کیا ہے ؟ یہی معاہدہ کا دوسرا جزء ہے کہ زیادتی کرنے والوں سے بھی تم زیادتی نہ کرو۔ رہی یہ بات کہ کن زیادتی کرنے والوں سے زیادتی کا احتمال تھا۔ زیادتی کے کئی ایک واقعات ہوچکے تھے لیکن اس جگہ جس زیادتی کا زیادہ احتمال ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال میں رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے ارادہ کیا کہ عمرہ کریں چناچہ نبی اعظم و آخر ﷺ ایک ہزار سے زائد صحابہ کرام (رح) کے ساتھ احرام عمرہ باندھ ک بقصد بیت اللہ روانہ ہوئے۔ مکہ کے قریب حدییہ میں پہنچ کر ملکہ والوم کو اطلاع دی کہ ہم کسی جنگ یا کسی جنگی مقصد کے لئے نہیں بلکہ صرف عمرہ کے لئے آرہے ہیں ہمیں اسکی اجازت دی جائے لیکن مشرکین مکہ نے اجازت نہ دی اور بڑی سخت اور کڑی شرطوں کے ساتھ معاہدہ کیا کہ اس وقت سب اپنے احرام کھول دیں اور واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لئے اس طرح آئیں کہ ہتھیار ساتھ نہ ہوں ، صرف تین روز ٹھہریں اور عمرہ کر کے واپس چلے جائیں اور بھی بہت سی ایسی شرائط تھی جن کا تسلیم کرلینا بظاہر مسلمانوں کے وقار و عزت کے منافی دکھائی دیتا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے وہ شرائط منظور فرمالیں اور مطمئن ہو کر واپس ہوگئے پھر 7 ھ میں دوبارہ ، ماہ ذیعقدہ میں انہی شرائط کی پابندی کے ساتھ عمرہ ادا کیا گیا۔ بظاہر ہے کہ اس رکاوٹ کا جو لوگ باعث ہوئے تھے وہ سب کو معلوم تھا اور یہ بھی کہ انہوں نے زیادتی کی حد کردی کہ بیت اللہ کے عمرہ سے روک دیا اور وہ کونسا مسلمان ہوگا جس کے دل میں اس کا قلق نہ ہو۔ اب اللہ کے فضل سے وہ مسلمان بیت اللہ میں فاتحانہ داخل ہو رہے ہیں اور پورے امن کے ساتھ مکہ فتح ہوچکا ہے اور پھر حج کے موسم میں 10 ھ میں رسول اللہ ﷺ حج بیت اللہ کے لئے کم وبیش ایک لاکز پچیس ہزار صحابہ کرام ؓ کی معیت میں حج کرنے کے ارادہ سے مکہ داخل ہونے والے ہیں اس لئے اب ان کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ دیکھو جو لوگ کل تم سے زیادتی کرچکے ہیں تم کو ان کے ساتھ بھی زیادتی کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے گویا زیادتی کے بدلہ میں بھی زیادتی سے منع کیا جا رہا ہے کہ ایسے موذی اور خدا ناترس دشمنوں سے بھی باوجود ہر غصہ واشتعال کے برتاؤ عدل ہی کا رکھو۔ اللہ اللہ کیا ٹھکانا ہے اس فراخ دلی کا ! کیسے زریں اصول کی تعلیم مل رہی ہے لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ آج ایسے اصول دیئے گئے لوگوں کا کیا حال ہے ؟ کہاں گئی وہ تعلیم جس کا اصول ہی یہ قرار پایا کہ ” نیکی “ میں سب کے ساتھ شریک رہو اور بدی اور فسق میں کسی کا ساتھ نہ دو ۔ “ ” یجرمن “ کی اصل ” حرم “ ہے جس کے معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں اور پھر یہ ایک ناپسندیدہ کام پر بولا جانے لگا اس سے ” مجرم “ ہے جس کے معنی بغض کے ہیں ” شنان “ بغض رکھنے والا اس سے ” شانہ “ آیا ہے یعنی تیرے ساتھ بغض رکھنے والا اور اس کے معنی دشمن کے بھی کئے جاتے ہیں کہ وہ بغض ہی رکھتا ہے۔ (الکوثر 108 : 3) نیکی کے کاموں میں تعاون اور بدی میں عدم تعاون کا اصول زندگی : 14: پھر غور کرو کہ اس آیت میں جو قاعدہ بتایا گیا ہے ؟ فرمایا مسلمانوں کے تمام کاموں میں ایک عام دستور العمل ہے وہ یہ ہے کہ جو کوئی نیک کام کرے اس کی مدد کرو اگرچہ وہ مسلمان نہ ہو اور اگرچہ وہ مخالف ہو اور جو کوئی برائی کرے اس کی مدد نہ کرو اگرچہ وہ مسلمان ہو اور اگرچہ وہ تمہارا ساتھ بھی ہو ۔ نیز یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اگر بت پرست بھی ہو لیکن جب وہ خدا کی تعظیم و عبادت کی کوئی بات کرے تو اسکی بےحرمتی نہ کرنا چاہئے کیونکہ خدا کی تعظیم عبادت بہر حال خدا ہی کی تعظیم و عبادت ہے۔ آج جن قوموں کو مہذب کہا جاتا ہے ان کا شیوہ کیا ہے ؟ کہ اپنی قوم سب پر مقدم رکھو اس لئے کہ اپنی پارٹی بہر حال اپنی پارٹی ہے اور اپنی قوم بہر حال اپنی قوم ہے ۔ اس اصول پر کوئی قوم لاز بار مندب کہلائے لیکن اسلام تہذیب کی ہوا اس کی بالکل نہیں لگی لیکن افسو کہ آج انہی غیر مذہب قوموں کے دیئے ہوئے اصول اس مہذب قوم نے اپنا لئے جو صحیح معنوں میں مہذب قوم کہلانے کی حقدار تھے فی زمانا ہمارے اپنے مالک میں کیا ہو رہا ہے ؟ کسی سے مخفی نہیں ہے پہلے دین اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور مذہبی گروہ بندیوں میں تقسیم ہوگئے اور پھر ہر گروہ نے دوسرے گروہ پر کیا کیا ریادتیاں کہیں ؟ اس کی داستان بہت لمبی ہے اور رہتی کسر سیاسی پارٹیوں نے پوری کردی اور آج ہر ایک پارٹی دوسری پارٹی کے ساتھ کیا کر رہی ہے ؟ روز روش کی طرح عیاں ہے ۔ افسوس کہ اس ملک عزیز کے بسنے والوں کو کیا ہوگیا کہ وہ مسلمان کہلانے کے باوجود اس کھلے کفر کے مرتکب ہوئے پھر تعجب یہ کہ مذہبی رہنماؤں اور سیاسی لیڈروں نے اس کھلے کفر کا نام اسلام رکھ دیا اور اسلام اسلام کا اتنا شور ڈالا کہ عوام بچارے اس کھلے کفر کو اسلام سمجھنے لگے۔ اللہ سے ڈرو اور ایسی روش اختیار نہ کرو یاد رکھو کہ اس روش کی سزا بڑی سخت ہے : 15: ” اتَّقُوا اللّٰهَ “ کے الفاظ قرآن کریم میں جہاں بھی استعمال ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات سے ڈرانے کے لئے استعمال ہوئے ہیں اور یہ وہی مقام ہے جب انسان حد اعتدال سے بھٹکنے لگتا ہے تو اس کو خبردار کرنے کے لئے یہ الفاظ بولے جاتے ہیں کہ ہوشیار ہوجاؤ کیا کر رہے ہو ؟ کیا تم کو جیسی کرنی ویسی بھرنی کا اصول بھی یاد نہیں رہا ہے۔ اس لئے کہ خشیت الٰہی ہی وہ چیز ہے جو ہر مجاہدہ کو آسان اور ہر پابندی کو سہل بنا دیتی ہے ۔ چونکہ مسلمانوں کے لئے دستور العمل بیان کیا تھا پھر اس دستور العمل کے مطابق عمل نہ کرنے والوں کو اس خلاف ورزی پر متنبہ بھی فرما دیا تاکہ کل کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ زیرر آیت کی مجموعی حیثیت پر ایک بار پھر نظر ڈالنا یقینا مفیدہ ہوگا کیونکہ اس میں قرآن کریم نے ایک ایسے اصول اور بنیادی مسئلہ کے متعلق ایک حکیمانہ فیصلہ دیا ہے جو پورے نظام عالم کی روح ہے اور جس پر انسان کی ہر صلاح حو فلاح بلکہ خود اس کی زندگی اور بقا موقوف ہے اور وہ مسئلہ ہے تعاون و تناصر کا۔ ہر ڈی ہوش انسان جانتا ہے کہ اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعاون و تناصر کا۔ ہر ذی ہوش انسان جانتا ہے کہا اس دنیا کا پورا انتظام انسانوں کے باہمی تعون و تناصر پر قائم ہے ۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی مدد نہ کرے تو کوئی اکیلا انسان خواہ وہ کتنا ہی عقل مند یا کتنا ہی زور آور یا مال دار کیوں نہ ہو اپنی ضروریات زندگی کو تنا حاصل ہے نہ لباس وغیرہ کے لئے روئی کا کاشت سے لے کر اپنے بدن کے موافق کپڑا تیار کرنے تک بیشمار مسائل کا حل کرسکتا ہے اور نہ اپنے بوجھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرسکتا ہے۔ غرض ہر انسان تعاون و تناصر سے ہی ساری دنیا کا نظام چلتا ہے اور اگر غور کیا جائے تو یہ تعاون کی دینوی زندگی ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد سے قبر میں دفن ہونے تک کے سارے مراحل بھی اسی تعاون کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ سے اس جہان کا ایسا محکم نظام بنایا ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا محتاج بنا دیا ہے ۔ غریب آدمی پیسوں کے لئے مالداروں کا محتاج ہے تو بڑے سے بڑا مال دار بھی محنت و مشقت کے لیے غریب مزدور کا محتاج ہے ۔ سوداگر گاہکوں کا محتاج ہے اور گاہک سوداگروں کا۔ مکان بنانے والا معمار ، کو ہار ، بڑھئی اور مزدروں کا محتاک ہے اور یہ سب کے سب بھی اپنی اپنی جگہ مکان بنانے والے کے محتاج ہیں اگر یہ ہمہ گیرا حتیاک نہ ہوتی اور تعاون محض برتری پر رہ جاتا تو کون کس کا کام کرتا ؟ اس کا وہی حشر ہوتا جو عام اخلاقی قدروں کا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جس کام کے لئے پیدا کیا ہے اس کام کی رغبت اس میں ڈال دی ہے وہ بغیر کسی قانونی مجبوری کے اس خدمت ہی کو اپنی زندگی کا کام سمجھتا ہے اس کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ اس نظام محکم کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ انسان کی ساری ضروریات چند ٹکے خرچ کرنے سے بآسانی حاصل ہوجاتی ہیں ۔ پکا پکایا کھانا ، سلا سلایا کپڑا ، بنایا فرنیچر ، تیار شدہ مکان ، سفر کے لیے سواریاں سب کچھ چند ٹکے خرچ کر کے انسان حاصل کرلیتا ہے اگر یہ انتظام نہ ہوتا تو ایک کروڑ پتی انسان اپنی پوری دولت لٹا کر بھی گندم کا ایک دانہ حاصل نہ کرسکتا۔ اس قدرتی نظام کا نتیجہ ہے کہ آپ ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہو کہ جس جس چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر ان کا تجزیہ کریں تو معلوم ہ گا کہ کوئی چیز کسی ملک اور کوئی کی پھر کس سلیقہ کے سات کسی کی پھر سلیقہ کے ساتھ کسی نے لا کر کتنے خوب ورت طریقہ سے آپ کے سامنے دستر خوان پر چن دی ہیں اور تم نے یہ ایک ہی لقمہ جو اٹھا کر سالن کے ساتھ منہ میں رکھا ہے اس میں کتنی مشینوں ، کتنے انسانوں اور کتنے جانوروں کا کام کیا ہے تب یہ آپ کے ذائقے کو سنوار سکا ہے۔ آپ جوں جوں غور کرتے جائیں گے اس تعاون و تناصر کا سلسلہ اتنا ہی وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور آپ کے دماغ کا کمپوٹر ایک چیز کی مقدار واضح کرتا چلا جائے گا لیکن سب کچھ آپ کے غور وفکر سے ہوگا اگر آپ غورفکر نہ کریں تو یہ سب کچھ ایک ہوا ہو کر اڑ جائے گا ۔ تاہم یہ سارا تعاون و تناصر آپ کی میری اور سب انسانوں کی مجبوری ہے اور یہ تعاون وہ فطری تعاون ہے جو ہم ایک دوسرے کے ساتھ فطری طور پر کرنے کے لئے مجبور محض ہیں۔ لیکن جس تعاون کا زیر نظر آیت میں حکم دیا گیا وہ اختیاری تعاون ہے کہ آپ چاہیں تو کریں اور چاہیں تو بالکل نہ کریں مثلاً ایک آدمی مسجد بنانا چاہتا ہے اور آپ سے تعاون کا طلب گار ہے آپ چاہیں تو تعاون کردیں بلکہ ضرور کریں کہ وہ ایک نیک کام کرنے کے لئے تعاون چاہتا ہے لیکن اس کے برعکس ایک دوسرا آدمی اس مسجد کو منہدم کرنے کے لئے آپ سے تعاون کا طلب گار ہے اگر چاہیں تو آپ تعاون کرسکتے ہیں لیکن بالکل تعاون نہ کریں کہ وہ ایک برے کام کو کرنا چاہتا ہے ۔ تاہم جب عقل و شعور سے کام لیں گے تو بعض اوقات مسجد بنانے والا تعاون کا مستحق نہیں ہوگا بلکہ حقیقت میں اس مسجد کو منہدم کرنے والا ہی تعاون کا مستحق قرار پائے گا اس لئے ایسے حالات میں تعاون دینے کے لئے عقل و شعور سے کام لینا ہوگا اور اچھائی اور برائی میں تمیز کرلینے کے بعد ہی قدم اٹھانا ہوگا کیونکہ کبھی آہ کا انکار سونے کی ڈلی کے مقابلہ میں خوبصورت نظر آنے لگتا ہے تاہم آگ کا انکار کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو بہر حال وہ اپنا کام ہی کرے گا اگرچہ پکڑنے والا موسیٰ ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن کریم کی آیت پر پھر غور کرو کہ اس میں یہ عنوان بھی اختیار نہیں کیا کہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرو اور غیروں کے ساتھ تعاون نہ کرو بلکہ تعاون کی جو اصل بنیاد ہے یعنی نیکی اور خدا ترسی اسی کو تعاون کرنے کی بنیاد قرار دیا جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھائی بھی اگر حق کے خلاف یا ظلم وجور کی طرف چل رہا ہو تو ناحق اور ظلم پر اس کی مدد ہرگز نہ کرو بلکہ اس کی کوشش کرو کہ ناحق اور ظلم سے اس کا ہاتھ روکو کیونکہ دراصل یہی اس کی صحیح امداد ہے تاکہ ظلم وجور سے اس کی دینا اور اخرت تباہ وبرباد نہ ہو۔ چنانچہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : انصرا خاک ظالما اور مظلوما ” اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم “ صحابہ کرام ؓ نے بڑی حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ مظلوم بھائی امداد تو سمجھ گئے لیکن ظالم کی امداد کا مطلب کیا ؟ آپ نے فرمایا ” اس کو ظلم سے روکو یہی اس کی امداد ہے۔ قرآن کریم نے تعاون کی بنیاد نیکی اور خدا ترسی کو قرار دیا اور اس پر مسلم قوم کی تعمیر کھڑی کی پھر اسی اصول پر تعاون کی دعوت دی اس کے بالقابل اثم ودعدوان کو سخت جرم قرار دیا اور اس پر تعاون کرنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے برو تقویٰ پر تعاون کرنے کے متعلق فرمایا کہ : الدال علی الخیر کفا علہ ، یعنی نیکی کا راستہ بتانے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ نیکی کرنے والا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کو ہدایت اور نیکی کی طرف دعوت دے توجتنے آدمی اس کی دعوت پر نیک عمل کریں گے ان سب کے برابر اس کو بھی ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر وثواب میں کچھ کمی ہو اور جس شخص نے لوگوں کو کسی گمراہی یا گناہ کی طرف بلایا توجتنے لوگ اس کی دعوت سے گناہ میں مبتلا ہوئے ان سب کے گناہوں کے برابر اس کو بھی گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کچھ کمی ہو۔
Top