Al-Qurtubi - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
مومنو ! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کریئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹّے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہوں۔ اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
آیت نمبر : 2۔ اس آیت میں تیرہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ “۔ یہ مومنین کو خطاب ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے امور میں حدود اللہ سے تجاوز نہ کرو۔ الشعائر فعیلۃ کے وزن پر شعیرۃ کی جمع ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 145 دارالکتب العلمیہ) ابن فارس نے کہا : واحد کو شعارۃ کہا جاتا ہے یہ احسن ہے۔ الشعیرۃ اس جانور کو کہتے ہیں جو قربانی کے لیے پیش کیا جاتا ہے، اور اشعار سے مراد یہ ہے کہ اس کی کہ ان کو چیر دیا جائے تاکہ اس سے خون بہہ جائے جان لیا جائے کہ یہ ہدی ہے، اشعار کا معنی احساس کے طریق سے آگاہ کرنا ہے کہا جاتا ہے : اشعر ھدیۃ، یعنی اس نے ہدی کے لیے علامت بنائی تاکہ پہچانا جائے کہ یہ ہدی ہے، اسی سے شعائر ہے جس کا معنی نشانیاں ہیں اس کا واحد مشعر ہے وہ جگہ جہاں علامات لگائی جاتی ہیں اسی سے الشعر ہے کیونکہ یہ وہ ہوتا ہے جہاں شعور واقع ہوتا ہے اس سے الشاعر ہے جو اپنی فطانت سے اس چیز کا شعور حاصل کرلیتا ہے جس کو کوئی دوسرا نہیں پہچان سکتا۔ اسی سے الشعیر ہے ان بالوں کی وجہ سے اسے کہا جاتا ہے جو اس کے سر میں ہوتے ہیں، الشعائر ایک قول کے مطابق وہ حیوانات جن کو علامات لگائی جاتی ہیں تاکہ انہیں بیت اللہ کی طرف بھیجا جائے اور ایک قول کے مطابق تمام مناسک حج کو شعائر کہ جاتا ہے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، مجاہد نے کہا : صفا، مروہ، ہدی، بدن یہ سب شعائر ہیں، شاعر نے کہا : نقتلھم جیلا فجیلا تراھم شعائر قربان بھا یتقرب : مشرک حج کرتے تھے، عمرہ کرتے تھے اور ہدایا دیتے تھے مسلمانوں نے ان پر تبدیلی کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 146 دارالکتب العلمیہ) عطاء ابن ابی رباح نے کہا : شعائر اللہ ان تمام احکام کو کہتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا اور جن سے منع فرمایا۔ حسن نے کہا : اس سے مراد تمام دین ہے جیسے ارشاد ہے : (آیت) ” ذلک ومن یظم شعآئر اللہ فانھا من تقوی القلوب “۔ (الحج : 32) یعنی دین اللہ۔ میں کہتا ہوں : یہ قول راجح ہے اس کو دوسرے اقوال سے مقدم کیا جائے گا، کیونکہ اس میں عموم ہے، علماء کا بدی کے اشعار میں اختلاف ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) جمہور علماء نے اشعار کو جائز قرار دیا ہے پھر اس میں اختلاف ہے کہ کس جہت سے اشعار کیا جائے گا ؟ امام شافعی، امام احمد اور ابو ثور (رح) نے کہا : وہ دائیں جانب میں ہوگا، یہ حضرت ابن عمر سے مروی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے اپنی اونٹنی کی کہاں کی دائیں جانب پر اشعار کیا، مسلم وغیرہ نے اس کو تخریج کیا ہے یہ صحیح ہے۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الحج جلد 1، صفحہ 407، ایضا ابو داؤد، کتاب المناسک، باب فی الا شعار، حدیث 1490، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) روایت ہے کہ آپ نے اپنے اونٹ کو بائیں جانب سے اشعار کیا، ابو عمر بن عبدالبر (رح) نے کہا : یہ حدیث میرے نزدیک منکر ہے جو حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے صحیح مسلم کی حدیث حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے فرمایا : کسی غیر سے یہ صحیح نہیں ہے، صفحۃ السنام سے مراد کہ ان کی ایک طرف ہے اور السنم اونٹ کی پیٹھ کا اوپر والا حصہ ہے، ایک طائفہ نے کہا : وہ دائیں جانب ہوتا ہے، یہ امام مالک کا قول ہے اور فرمایا : دائیں جانب میں اشعار کرنے میں کوئی حرج نہیں، مجاہد (رح) نے کہا : جس طرف چاہے اشعار کرلے امام کا بھی ایک قول یہی ہے، امام ابوحنیفہ (رح) نے ان تمام صورتوں سے منع کیا ہے انہوں نے فرمایا : یہ حیوان کو عذاب دینا ہے، حدیث امام ابوحنیفہ (رح) کے خلاف حجت ہے، پس یہ اس داغ کی مثل ہے جس کے ساتھ ملکیت کی پہچان ہوتی ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے، ابن عربی نے امام ابوحنیفہ (رح) پر بہت شدید رد اور انکار کیا ہے انہوں نے کہا : امام ابوحنیفہ (رح) نے شریعت میں اس شعیرہ کے متعلق نہیں سنا، حالانکہ یہ علماء میں مشہور ہے۔ میں کہتا ہوں : میں نے علماء احناف کی کتب میں یہ منصوص دیکھا ہے کہ اشعار امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک مکروہ ہے اور امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اور سنت نہیں بلکہ مباح ہے، کیونکہ اشعار جب اعلام تھا تو تقلید کے قائم مقام کے نزدیک اشعار مثلہ ہے اور یہ حرام ہے، کیونکہ اس میں حیوان کو تکلیف دینا ہے پس یہ مکروہ ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ سے جو مروی ہے وہ ابتدائے اسلام میں تھا جب عرب لوٹ لیتے تھے لیکن جو جانور ہدی ہوتا اسے نہ لوٹتے تھے اور وہ ہدی کو نہیں پہنچانتے تھے مگر اشعار کے ساتھ، پھر اس عذر کے زوال کے ساتھ یہ زائل ہوگیا، اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے بھی مروی ہے الشیخ الامام ابو منصور ماتریدی سے حکایت کیا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : یہ احتمال ہے کہ امام ابوحنیفہ (رح) نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے اشعار کو مکروہ کہا ہو، کیونکہ سوراخ کرنے میں اتنا مبالغہ کیا جاتا تھا کہ جانور کے مرنے کا خوف ہوتا تھا مگر جو اس حد تک تجاوز نہ کرے جس طرح کہ عہد رسول اللہ ﷺ میں کیا جاتا تھا تو وہ بہتر ہے، ابو جعفر طحاوی نے اسی طرح ذکر کیا ہے، یہ علماء حنفیہ (رح) کا امام ابوحنیفہ (رح) کے لیے اعتذار ہے اس حدیث کی وجہ سے جو اشعار کے متعلق وارد ہے، انہوں نے اشعار کے متعلق سنا اور انہیں یہ مسئلہ پہنچا اور انہوں نے جانا انہوں نے کہا : یہ قول کی بنا پر کہ یہ مکروہ ہے اس کے ساتھ کوئی پھر محرم نہیں ہوتا، کیونکہ مکروہ کی مباشرت مناسک سے شمار نہیں کی جاتی۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا الشھرالحرام “۔ یہ اسم مفرد ہے جو تمام اشہر حرم میں جنس پر دلالت کرتا ہے اشہر حرام چار ہیں، ایک علیحدہ ہے اور تین متواتر ہیں، ان کا بیان سورة برات میں آئے گا، اس کا معنی ہے جنگ اور حملہ کے لیے ان مہینوں کو مبارح نہ سمجھو اور نہ ان کو بدلو، کیونکہ ان کا بدلنا بھی ان کو حلال سمجھنا ہے یہ وہ کرتے تھے مہینہ کو مؤخر کرنے کے ساتھ اسی طرح یہ ارشاد ہے۔ : (آیت) ” ولا الھدی ولا القلآئد “۔ یعنی اس کو حلال سمجھو اور یہ مضاف کے حذف کی بنا پر ہے یعنی ولا ذوات القلائد یہ قلادۃ کی جمع ہے ہدی کو حلال سمجھنے سے منع فرمایا، قلادہ ڈالے گئے جانور کا ذکر فرمایا، حرمت پر تنبیہ میں مبالغہ اور تاکید کے لیے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 146 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (4) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” (آیت) ” ولا الھدی ولا القلآئد “۔ ہدی سے مراد وہ جانور ہے جو اونٹ، گائے اور بکری میں سے بیت اللہ جانب بھیجا جاتا ہے، اس کا واحد ھدیۃ اور ھدیۃ اور ھدی ہے جس نے کہا : کہ الشعائر سے مراد تمام مناسک ہیں اس نے کہا ؛ ہدی کا ذکر اس کی تخصیص کی تنبیہ ہے اور جنہوں نے کہا : کہ الشعائر سے مراد ہدی ہے تو انہوں نے کہا : الشعائر سے مراد وہ جانور ہیں جن کی کہ ان سے خون بہاکر نشان لگایا گیا ہو اور الھدی سے مراد وہ جانور ہیں جن کو اشعار نہ کیا گیا ہو اس میں تقلید پر اکتفا کیا گیا ہو، بعض علماء نے فرمایا : ان میں فرق یہ ہے کہ الشعائر سے مراد اونٹ ہیں اور ہدی سے مراد گائیں، بکریاں اور کپڑے ہیں اور دوسری تمام چیزیں بھی جو بھیجی جاتی ہیں۔ جمہور علماء نے کہا : ہدی عام ہے، ہر چیز جس نے قربت حاصل کی جاتی ہے، ذبائح، صدقات تمام کے لیے بولا جاتا ہے اسی سے نبی مکرم ﷺ کا قول ہے : ” جمعہ کی طرف جلدی جانے والا، بدنہ قربانی دینے والا کی طرح ہے “ یہاں تک کہ فرمایا ‘” آخر میں آنے والا انڈا ہدی دینے والا کی طرح ہے (2) (صحیح بخاری کتاب، جمعہ، باب فضل الجمعۃ، حدیث 832، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) “ انڈے کو بھی ہدی فرمایا، انڈے کو ہدی فرمانا اس کا کوئی محل نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ صدقہ کا ارادہ فرمایا ہو، اسی طرح علماء نے فرمایا : جب کسی نے کہا : جعلت ثوبی ھدیا تو اس پر کپڑا صدقہ کرنا واجب ہے مگر مطلق بولا جائے تو اونٹ، گائے اور بکری میں سے کسی ایک صنف کی طرف راجع ہوتا ہے اور اس کو حرم کی طرف لے جانا اور اس کو حرم میں ذبح کرنا مراد ہے، یہ عرف شرع سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فان احصرتم فما استیسر من الھدی “۔ (البقرہ : 196) اس سے مراد بکری ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یحکم بہ ذوا عدل منکم حدیا بلغ الکعبۃ “۔ (المائدہ : 95) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسر من الھدی “۔ (البقرہ ؛ 196) فقہاء کے نزدیک کم از کم ہدی بکری ہے، امام امالک (رح) نے فرمایا : کہا ثوبی ھدی تو اس کی قیمت ہدی میں ہوگی، (آیت) ” القلآئد “ ، لوگ اپنے امن کے لیے جانوروں کو ہار پہناتے تھے، یہ مضاف کے حذف کی بنا پر ہے یعنی ولا اصحاب القلائد پھر یہ منسوخ کیا گیا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : سورة المائد سے دو آیتیں منسوخ کی گئیں۔ آیۃ القلائد اور یہ ارشاد : (آیت) ” فان جآءوک فاحکم بینم او اعرض عنھم “۔ (المائدہ : 42) رہا قلائد کا حکم تو اس کو اس حکم نے منسوخ کردیا جس میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا وہ جہاں بھی ہوں اور جس مہینہ میں ہوں اور دوسرا ارشاد اس کو اس ارشاد نے منسوخ کیا : (آیت) ” وان احکم بینھم بما انزل اللہ “۔ (المائدہ : 49) جیسا کہ آگے آئے گا، بعض علماء نے فرمایا : القلائد سے مراد نفس قلائد ہے، یہ حرم کے درخت کا چھلکا اتارنے سے نہی ہے حتی کہ امن طلب کرنے کے لیے اس کے ساتھ قلادہ پہنایا جائے، یہ مجاہد، عطا، مطرف بن الشخیرکا قول ہے۔ واللہ اعلم۔ ہدی کی حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو دی گئی ہو اور اس کے ساتھ عوض کا ذکر نہ ہو، فقہاء کا اتفاق ہے کہ جس نے کہا : للہ علی ھدی “ تو وہ اس کی ثمن مکہ کی طرف بھیجے گا، رہے القلائد تو ہر وہ چیز جو ہدایا کی کوہانوں پر اور انکی گردنوں میں بطور علامت لگائی گئی ہو کہ یہ اللہ سبحانہ کے لیے ہے خواہ وہ جوتا ہو یا کوئی دوسری چیز ہو، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سنت ہے زمانہ جاہلیت میں باقی رہی اور اسلام نے بھی اس کو قائم رکھا، یہ گائے اور بکری میں سنت ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ بیت اللہ کی طرف بکریاں بھیجیں تو انہیں ہار پہنائے (1) (صحیح بخاری، کتاب المناسک، جلد 1، صفحہ 230، صحیح مسلم، کتاب الحج، جلد 1، صفحہ 425، ایضا صحیح بخاری، کتاب المناسک، باب تقلید الغنم، حدیث 1588، 1586، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ اس حدیث کو بخاری اور اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے، علماء کی ایک جماعت کا یہی نظریہ ہے (مثلا) امام شافعی (رح) امام احمد، (رح) اسحق، (رح) ابو ثور (رح) اور ابن حبیب (رح) اور امام مالک (رح) اور اصحاب الرائے نے اس کا انکار کیا ہے، گویا انہیں بکریوں کو قلادہ پہنانے کی یہ حدیث نہیں پہنچی یا انہیں پہنچی تو ہے لیکن انہوں نے اس کو رد کردیا کہ اسود، حضرت عائشہ ؓ سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ پہلا قول اولی ہے، واللہ اعلم “۔ رہی گائے اگر اس کی کہ ان ہو تو اسے اونٹ کی طرح شعار کیا جائے گا یہ حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے اور یہی امام مالک (رح) کا قول ہے۔ ، امام شافعی (رح) نے فرمایا : مطلقا ہار پہنایا جائے گا اور اشعار کیا جائے گا انہوں نے کوئی فرق نہیں کیا، سعید بن جبیر، نے کہا : اسے قلادہ پہنایا جائے اور شعار کیا جائے گا، یہ قول اصح ہے، کیونکہ اس کی کہ ان نہیں ہوتی، یہ اونٹ کی نسبت بکری کے زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (5) علماء کا اتفاق ہے کہ جس نے احرام کی نیت سین بدنہ کو قلادہ پہنایا اور اس کو چلایا تو وہ محرم ہوجائے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ ولا الشھر الحرام ولا الھدی ولا القلائد آمین البیت الحرام یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا، واذا حللتم فاصطادوا “۔ احرام کا ذکر نہیں فرمایا لیکن جب تقلید کا ذکر کیا تو معلوم ہوا کہ وہ احرام کے قائم مقام ہے۔ مسئلہ نمبر : (6) اگر ہدی کو بھیجا اور خود ہانک کر نہ لے گیا تو وہ محرم نہیں ہوگا، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ کی ہدایا کے ہار اپنے ہاتھوں سے تیار کیے پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے انہیں وہ ہار پہنائے پھر انہیں میرے باپ (ابوبکر) کے ساتھ انہیں بھیجا اور رسول اللہ ﷺ پر کوئی چیز حرام نہ تھی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کی تھی حتی کہ ہدی کو نحر کیا گیا، اس حدیث کو بخاری نے نقل کیا (1) (صحیح بخاری، کتاب المناسک، جلد 1، صفحہ 230، ایضا صحیح بخاری، کتاب المناسک، حدیث 1585، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ امام مالک، امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور جمہور علماء رحمۃ اللہ علیہم کا مذہب ہے حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : ہدی بھیجنے والا محرم ہوجائے گا، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : جس نے ہدی بھیجی اس پر وہ چیزیں حرام ہوجائیں گی، جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں حتی کہ ہدی کو نحر کردیا جائے۔ اس کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ (2) (صحیح بخاری، کتاب المناسک، جلد 1، صفحہ 230، ایضا صحیح بخاری، کتاب المناسک، حدیث 1585، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یہ حضرت ابن عمر، عطا، مجاہد، اور سعید بن جبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا مذہب ہے۔ خطابی نے اصحابی الرائے سے بھی یہ قول حکایت کیا ہے انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ کی حدیث سے حجت پکڑی ہے، فرمایا میں نبی مکرم ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے اپنی قمیص کو گریبان سے پھاڑا پھر اسے ٹانگوں سے نکالا لوگوں نے نبی مکرم ﷺ کی طرف دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” میں نے ان بدنوں کو قلادہ پہنانے اور شعار کرنے کا فلاں جگہ پر حکم دیا تھا جنہیں میں نے حرم کی طرف بھیجا تھا اور اسی طرح میں نے قمیص پہنی ہوئی تھی اور میں بھول گیا تھا پس میں نے اپنے سر سے اس لیے قمیص کو نہیں نکالا “ آپ ﷺ نے بدنہ کو بھیجا تھا اور خود مدینہ میں ٹھہرے رہے تھے، اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن عطا، بن ابی لبییۃ ہے وہ ضعیف ہے۔ اگر بکری کو قلادہ پہنایا اور اس کو حرم کی طرف بھیجا تو کو فیوں نے کہا ؛ وہ محرم نہ ہوگا، کیونکہ مسنون نہیں ہے اور نہ شعائر میں سے ہے، کیونکہ اس پر بھیڑیا کا خوف ہے پس وہ حرم تک نہیں پہنچے گی بخلاف اونٹ کے اسے چھوڑ دیا جائے گا اور خود پانی پر وارد ہوگا، درخت کھائے گا اور حرم تک پہنچ جائے گا، صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ام المؤمنین ؓ سے مروی ہے فرمایا : میں نے اس اون سے ہار بٹے جو میرے پاس تھی، (3) (صحیح بخاری، کتاب المناسک، جلد 1، صفحہ 230، ایضا صحیح بخاری، کتاب المناسک، حدیث 1590، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وتکون الجبال کالعھن المنفوش “۔ (القارعہ) مسئلہ نمبر : (7) جب ہدی کو قلادہ پہنایا جائے یا اشعار کیا جائے تو اسے نہ بیچنا جائز ہے اور نہ ہبہ کرنا جائز ہے، کیونکہ وہ واجب ہوچکی ہے، اگر اس کا واجب کرنے والا مر جائے تو وہ میراث میں شمار نہ ہوگی، بلکہ وہ نافذ ہوگی، بخلاف قربانی کے جانور کے وہ امام مالک (رح) کے نزدیک خاص ذبح کے ساتھ واجب ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنے قول کے ساتھ واجب کر دے، اگر ذبح کے پہلے قول سے ساتھ واجب کردیا اور کہا : جعلت ھذہ الشاۃ اضحیۃ تو وہ متعین ہوجائے گی اور اس پر ذبح کرنا واجب ہوگا، اگر وہ گم ہوجائے، پھر ایام ذبح میں اسے پالے یا اس کے بعد پالے اسے ذبح کرے اور اس کا بیچنا جائز نہیں، اگر کسی اپنی پہلی قربانی کے علاوہ قربانی، خریدی تو امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) کے قول میں دونوں کو ذبح کرے گا، امام شافعی (رح) نے فرمایا : اگر گم ہوجائے یا چوری ہوجائے تو اس پر بدل واجب نہیں، بدل واجب میں ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا جب گم ہوجائے تو ہو جائز ہوجائے گی، جو شخص دسویں ذی الحجۃ کے دن قربانی کرنے سے پہلے مر جائے تو وہ وارثت میں جاری ہوگی، جیسا کہ دوسرا مال ہے بخلاف ہدی کے، امام احمد اور ابوثوررحمۃ اللہ علیہ نے کہا : ہر حال میں اسے ذبح کیا جائے گا۔ امام اوزاعی نے فرمایا : اے ذبح کیا جائے گا مگر یہ کہ اس پر اتنا قرضہ ہو کہ اس کو ادا کرنا ممکن نہ ہو مگر اسی قربانی سے تو اسے قرضہ میں بیچا جائے گا، اگر زبح کرنے کے بعد مر جائے تو اس کی طرف سے اس میں وارثت جاری نہ ہوگی وہ اسے کھائیں یا صدقہ کریں جو چاہیں کرٰں اس کے گوشت کو بطور میراث تقسیم نہیں کریں گے، ذبح سے پہلے قربانی کو جو عیوب لاحق ہوجائیں تو مالک پر بدل ہوگا بخلاف ہدی کے، یہ امام مالک (رح) کے مذہب کی تحصیل ہے۔ بعض علماء نے کہا : ہدی میں مالک پر بدل ہوگا، پہلا قول زیادہ درست ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا آمین البیت الحرام “۔ یعنی جو بیت اللہ کا قصد کرنے والے ہیں، یہ ان کے قول سے ہے : اممت کذا، میں نے اس کا قصد کیا، اعمش نے والا امی البیت الحرام یعنی اضافت کے ساتھ پڑھا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” غیر محلی الصید “ معنی یہ ہے کہ کفار کو نہ روکو جو تعبد اور قربت کی جہت سے بیت حرام کا قصد کرنے والے ہیں، اسی بنا پر کہا گیا ہے : ان آیات میں مشرک کو روکنے کی نہی ہے اور اس کی قلادہ کی وجہ سے حرمت کی رعایت ہے یا اس نے بیت اللہ کا قصد کیا ہے یہ تمام احکام آیۃ السیف کے ساتھ منسوخ ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم “۔ (توبہ 5) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامھم ھذا (توبہ : 28) مشرک کو حج کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ اشہر حرم میں اسے امن دیا جائے گا اگر اس نے ہدی بھیجی ہو، اسے قلادہ پہنایا ہو اور حج کا ارادہ کیا ہو، حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ابن زید نے یہی فرمایا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا، ایک قوم نے کہا : یہ آیت محکمہ ہے، یہ منسوخ نہیں ہے یہ مسلمانوں کے بارے میں ہے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ مسلمانوں میں جو بیت اللہ کا قصد کرنے والا ہو اسے ڈرایا جائے۔ یہ نہی شہر حرام اور دوسرے مہینوں میں عام ہے۔ لیکن شہر حرام کا ذکر تعظیما اور تفصیلا فرمایا : یہ عطا کے قول پر چلنا ہے معنی یہ ہے کہ اللہ کے معالم کو حلال نہ سمجھو، اس سے اللہ کا امر اور اس کی نہی ہے جو اس نے لوگوں کو بتایا اسے حلال نہ سمجھو، اسی وجہ سے ابو میسرہ نے کہا : یہ آیت محکمۃ ہے۔ مجاہد نے کہا : اس سے منسوخ نہیں ہے، مگر صرف القلائد، کوئی شخص حرم کے درخت کے چھلکے سے قلادہ پہناتا تھا تو وہ قربت حاصل نہیں کرتا تھا پس اس کو منسوخ کیا گیا، ابن جریج نے کہا : یہ آیت اس بات سے نہی ہے کہ حاجیوں سے سامان نہ چھینا جائے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 147 دارالکتب العلمیہ) ابن زید نے کہا : یہ آیت فتح مکہ کے سال نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے، مشرکین حج اور عمرہ کرنے کے لئے آئے تو مسلمانوں نے کہا : یارسول اللہ ﷺ ان مشرکین کو ہم نہیں چھوڑیں گے، ہم ان پر حملہ کریں گے تو قرآن نازل ہوا : (آیت) ” ولا آمین البیت الحرام “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 147 دارالکتب العلمیہ) بعض علماء نے فرمایا : یہ شریح بن ضبیعۃ البکری کے معاملہ کے لیے تھا اسے الحطم سے لقب دیا جاتا تھا اسے رسول اللہ ﷺ کے لشکر نے پکڑ لیا جب کہ وہ عمرہ میں تھا تو یہ آیت نازل ہوئی، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے، یہ حطم مرتد ہوگیا تھا اور مرتد ہو کر قتل کیا گیا تھا اس کی خبر سے مروی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس مدینہ طیبہ میں آیا اور اس نے مدینہ سے باہر اپنے گھوڑے پیچھے چھوڑ آیا، اس نے کہا : تم کس چیز کی طرف دعوت دیتے ہو ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” لا الا الہ اللہ “۔ کی گواہی دینا، نماز کا قائم کرنا اور زکوۃ ادا کرنا “ اس نے کہا : اچھا ہے مگر میرے کچھ امراء ہیں ان کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، شاید میں اسلام قبول کروں اور انہیں آپ کے پاس لے آؤں، نبی مکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو کہا تھا تم پر ایک آدمی داخل ہوگا جو شیطان کی زبان بولے گا، پھر وہ آپ کے پاس سے نکلا تو نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” یہ کافر چہرہ کے ساتھ داخل ہوا اوغادر گدی کے ساتھ باہر نکلا وہ شخص مسلمان نہیں ہے “ وہ حطم شخص مدینہ طبیہ کی چراگاہ سے گزرا تو چوپائے ہانک کرلے گیا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اسے تلاش کیا تو وہ عاجز آگئے وہ یہ کہتے ہوئے نکلا : قد لفھا اللیل بسواق حطم لیس براعی ابل ولا غنم : ولا بجزار علی ظھر وضم باتوا نیاما وابن ھند لم ینم : بات یقایسھا غلام کالرلم خدلج الساقین خفاق القدم : جب عام القضیۃ کو نبی مکرم ﷺ نکلے تو آپ نے یمامۃ کے حجاج کا تلبیہ سنا، آپ ﷺ نے فرمایا : یہ حطم اور اس کے ساتھ ہیں اس نے جو مدینہ طیبہ سے جانور لوٹے تھے اس نے انہیں ہار پہنا دیئے تھے اور مکہ کی طرف بھیجا تھا، صحابہ کرام اس کی طلب میں نکلے تو یہ آیت نازل ہوئی ان کو حلال نہ سمجھو اللہ کے لیے اشعار کیا گیا ہے اگرچہ وہ مشرک ہی ہوں، یہ حضرت ابن عباس ؓ نے ذکر کیا ہے (2) (اسباب النزول للواحدی، صفحہ 181) مسئلہ نمبر : (9) اس بنا پر کہ یہ آیت محکمۃ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لا تحلوا شعائر اللہ “۔ امور مناسک کو مکمل کرنے کا تقاضا کرتا ہے ای وجہ سے علماء نے فرمایا : آدمی جب حج میں داخل ہو پھر فاسد کردے تو اس پر افعال حج ادا کرنا لازم ہے اور اس میں سے کسی فعل کا ترک جائز نہیں اگرچہ اس کا حج فاسد ہوچکا ہے پھر آئندہ سال اس پر اس حج کی قضا لازم ہے، ابو اللیث سمر قندی نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا الشھرالاحرام “۔ منسوخ ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول سے (آیت) ” قاتلوا المشرکین کافۃ “۔ (توبہ : 36) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا الھدی ولا القلآئد “۔ (المائدہ : 2) محکم منسوخ نہیں ہے، پس جس نے ہدی کو قلادہ پہنایا اور احرام کی نیت کی تو وہ محرم ہوگیا اس کے لیے اس آیت کی دلیل کے ساتھ احرام باندھنا جائز نہیں، یہ احکام ایک دوسرے پر معطوف ہیں، بعض منسوخ ہیں اور بغض غیر منسوخ ہیں۔ مسئلہ نمبر : (10) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا “۔ جمہور علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ تجارت میں نفع اور فضل تلاش کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اپنے ظن اور امید میں اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے ہیں بعض علماء نے فرمایا : ان بعض تجارت طلب کرتے تھے، بعض حج کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا طلب کرتے تھے اگرچہ وہ اس کو پا نہیں سکتے تھے اور عربوں میں سے کچھ مرنے کے بعد جزا کا عقیدہ رکھتے تھے اور مرنے کے بعد اٹھنے کا نظریہ رکھتے تھے، کوئی بعید نہیں کہ انہیں آگ میں تخفیف حاصل ہو، ابن عطیہ نے کہا : یہ آیت اللہ تعالیٰ کی طرف عربوں کے لیے الفت کا اظہار ہے اور ان پر مہربانی کا مظاہرہ ہے تاکہ ان کے نفوس خوش ہوں اور لوگ دین میں داخل ہوں اور حج کے موقع پر آئیں قرآن کو سنیں اور ان پر مہربانی کا مظاہرہ ہے تاکہ ان کے نفوس خوش ہوں اور لوگ دین میں داخل ہوں اور حج کے موقع پر آئیں قرآن کو سنیں اور ان کے دلوں میں ایمان داخل ہو اور ان کے پاس حجت قائم ہوجائے جیسی کہ وہ تھی یہ آیت فتح مکہ کے سال نازل ہوئی پھر اس آیت کو سن 9 ہجری کے بعد منسوخ کردیا جب حضرت ابوبکر ؓ نے حج کیا تھا اور سورة برات کا لوگوں میں اعلان کیا گیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (11) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا حللتم فاصطادوا “۔ یہ امرا باحت کے لیے ہے، اس پر علماء کا اجماع ہے احرام کی وجہ سے شکار حرام تھا اس حرمت کو اٹھایا گیا ہے، اکثر علماء نے یہ بیان کیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے بلکہ افعل کا صیغہ جو منع کے بعد وارد ہوتا ہے وہ اپنی اصل یعنی وجوب کے لیے وارد ہوتا ہے۔ یہ قاضی ابو الطیب وغیرہ کا مذہب ہے، کیونکہ وجوب کا مقتضا قائم ہے اور منع پہلے گزر چکا ہے، جو مانع کی صلاحیت نہیں رکھتا اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے (آیت) ” فاذا انسلخ الاشھر الحرم فاقتلوالمشرکین “۔ (توبہ : 5) یہ یہ افعل کا صیغہ وجوب کے لیے ہے اس سے مراد جہاد ہے یہاں اور اس کی مثل اباحت جو سمجھی گئی ہے۔ مثلا (آیت) ” فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا “۔ (الجمعہ : 10) (آیت) ” فاذا تطھرن فاتوھن “۔ (بقرہ 222) یہ معنی اجماع کی وجہ سے ہے نہ کہ امر کے صیغہ کے اعتبار سے ہے۔ مسئلہ نمبر : (12) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولا یجرمنکم شنان قوم ان صدوکم عن المسجدالحرام “۔ یعنی تمہیں کسی قوم کی دشمنی نہ ابھارے، یہ حضرت ابن عباس اور قتادہ ؓ سے مروی ہے اور یہ کسائی (رح) اور ابو العباس ؓ کا قول ہے یہ دونوں مفعولوں کی طرف متعدی ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 148 دارالکتب العلمیہ) کہا جاتا ہے : جرمنی کذا علی بغضک یعنی حملنی علیہ۔ شاعر نے کہا : ولقد طعنت اباعیینۃ طعنۃ جرمت فزارۃ بعدھا ان یغضبوا “۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 149 دارالکتب العلمیہ) اخفش نے کہا : اس کا معنی ہے ” لایحقنکم “ تمہیں کہنہ اور بغض میں مبتلا نہ کرے۔ ابو عبیدہ اور فراء نے کہا : لا یحرمنکم کا معنی ہے تمہیں کسی قوم کا بغض حق سے باطل کی طرف تجاوز کرنے تک نہ پہنچائے اور عدل سے ظلم کی طرف نہ پہنچائے نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ” جو تجھے امین بنائے اس کی امانت ادا کر اور جو تجھ سے خیانت کرے اس سے خیانت نہ کر “۔ اس کے متعلق کلام گزر چکا ہے اس آیت کی مثال یہ ہے : (آیت) ” فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدی علیکم (بقرہ : 194) اس پر تفصیلی کلام گزر چکی ہے، کہا جاتا ہے : فلان جریمۃ اھلہ یعنی فلان ان کا کمانے والا ہے، الجریمۃ اور الجارم کا معنی کمانے والا ہے۔ اجرم فلان کا معنی ہے فلاں نے گناہ کیا، اسی سے شاعر کا قول ہے : جریمۃ ناھض فی راس نیق ‘ (3) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 148 دارالکتب العلمیہ) تری العظام ماجمعت صلیبا :۔ اس کا معنی ہے خوراک کمانے والا المصلیب سے مراد چربی ہے یہ اصل ہے ج را اور میم کی بنا میں، ابن الفارس نے کہا : جرم، اجرم اور ولا جرم یہ تیرے اس قول کے قائم مقام ہے لا بدولا محالۃ اس کی اصل جرم سے ہے جس کا معنی ہے کھانا، شاعر نے کہا : حرمت فزارۃ بعدھا ان یغضبوا : ایک اور شاعر نے کہا : یایھا المشتکی عکلا وما جرمت الی القبائل من قتل واباس : کہا جاتا ہے : جرم یجرم جرما اس کا معنی ہے کاٹنا، الرمانی علی بن عیسیٰ نے : یہ اصل ہے پس جرم کا معنی ہے کسی چیز پر ابھارنا تاکہ اسے دوسرے سے جدا کر دے اور جرم بمعنی کسب اس لیے ہے کیونکہ وہ اسے سب کی طرف منقطع کردیتا ہے۔ جرم بمعنی حق بھی ہے، کیونکہ حق اس پر قطعی ہوجاتا ہے۔ خلیل نے کہا : (آیت) ” لا جرم ان لھم النار “۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 148 دارالکتب العلمیہ) (النحل : 62) کا معنی ہے ان کے لیے عذاب ثابت ہوچکا ہے، کسائی نے کہا : جرم اور اجرم دونوں لغتوں کا ایک معنی ہے یعنی اکتسب۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے یجرمنکم یا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے اس کا معنی ہے وہ تمہیں اکسائے نہیں، بصری علماء یا کے ضمہ کو نہیں جانتے وہ کہتے ہیں : جرم لاغیر، الشنان کا معنی بغض ہے نون کے فتحہ اور نون کے سکون کے ساتھ پڑھا گیا ہے کہا جاتا ہے : شئت الرجل اشنئوۃ شنئا وشناۃ وشنانا وشنانا، نون کے جزم کے ساتھ سب کا معنی ہے ناراض ہونا، یعنی کسی قوم کا بغض تمہیں حق سے تجاوز کرنے پر نہ اکسائے، اس سے مراد بغضکم قوما ہے، مصدر کو مفعول کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ ابن زید نے کہا : جب مسلمانوں کو حدیبیہ کے ساتھ بیت اللہ سے روکا گیا تو مسلمانوں کے پاس سے کچھ مشرک گزرے جو عمرہ کرنا چاہتے تھے، مسلمانوں نے کہا : ہم انہیں روکیں گے جس طرح انہوں نے ہمارے ساتھیوں کو روکا تھا تو یہ آیت نازل ہوئی یعنی ان پر تجاوز نہ کرو اور انہیں روکو۔ (آیت) ’ ان صدوکم ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ مفعول لاجہ ہے یعنی لان صدوکم ابو عمرو اور ابن کثیر (رح) نے ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے ان صدوکم یہ ابوعبید کا مختا ہے۔ اعمش سے مروی ہے ” ان یصدوکم “ ابن عطیہ (رح) نے کہا : فان جزا کے لیے ہے یعنی اگر اس فعل کی مثل مستقبل میں واقع ہو، پہلی قرات معنی کے اعتبار سے بہتر ہے، نحاس نے کہا ان صدوکم ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ ہو تو علماء نحو اور محدثین اس قرات سے منع کرتے ہیں اسکی کئی وجوہ ہیں۔ (1) یہ آیت فتح مکہ کے سال 8 ہجری کو نازل ہوئی جب کہ مشرکوں نے مسلمانوں کو چھ ہجری میں حدیبیہ کے سال روکا تھا پس روکنا آیت سے پہلے تھا جب ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ جائز نہ ہوگا مگر اس کے بعد جیسے تو کہتا ہے : لا تعط فلانا شیئا ان قاتلک اور یہ نہیں ہوسکتا مگر مستقبل میں اور اگر آپ ہمزہ کو فتحہ دیں گے تو یہ ماضی کے لیے ہوگا پس اس بنا پر جائز نہ ہوگا کہ مگر ان صدوکم اگر یہ حدیث صحیح نہ بھی ہوتی تو بھی فتحہ واجب ہوتا کیونکہ (آیت) ” لا تحلوا شعآئر اللہ “۔ الخ دلیل ہے کہ مکہ انکے قبضہ میں تھا وہ اس سے نہیں روک سکتے تھے مگر جب کہ وہ بیت اللہ سے روکنے پر قادر تھے اس وجہ سے بھی فتحہ واجب ہے کیونکہ یہ ماضی کے لیے ہے۔ (آیت) ’ ان تعتدوا “ محل نصب میں ہے کیونکہ یہ مفعول بہ ہے یعنی تمہیں کسی قوم کی دشمنی حد سے بڑھنے پر نہ اکسائے، ابو حاتم اور ابوعبید نے شنئان کو نون کے اسکان کے ساتھ پڑھنے کا انکار کیا ہے، کیونکہ اس کی مثل مصادر متحرک ہوتے ہیں، دوسرے علماء نے ان کی مخالفت کی ہے فرمایا : یہ مصدر نہیں ہے لیکن یہ کسلان اور غضبان کے وزن پر اسم فاعل ہے۔ مسئلہ نمبر : (13) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وتعاونوا علی البر والتقوی “۔ اخفش نے کہا : یہ پہلی کلام سے علیحدہ ہے یہ تمام مخلوق کو نیکی اور تقوی پر تعاون کا حکم ہے یعنی تمہیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے اس پر گفتگو کرو اس کے مطابق عمل کرو اور اس سے رک جاؤ جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور اس سے بچو، نبی مکرم ﷺ سے مروی ہے حدیث کے موافق ہے آپ ﷺ نے فرمایا ” نیکی پر راہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے “ (1) (کنزالعمال، کتاب الاحادیث والا قوال جلد 6، صفحہ 359، حدیث نمبر 16052) کہا جاتا ہے کہ برائی پر راہنمائی کرنے والا برائی کرنے والے کی طرح ہے۔ پھر بعض علماء نے فرمایا : البر اور التقوی دونوں ہم معنی ہیں تاکید اور مبالغہ کے لیے لفظ کے اختلاف کے ساتھ مکرر فرمایا کیونکہ ہر نیکی تقوی ہے اور ہر تقوی نیکی ہے، ابن عطیہ نے کہا : اس میں کچھ تسامح ہے ان دو لفظوں کی دلالت میں عرف یہ ہے کہ البر واجب اور مندوب سب کو شامل ہے التقوی واجب کی رعایت ہے۔ اگر ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے تو وہ مجازا ہوتا ہے، ماروردی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے نیکی پر تعاون کرنے کی دعوت دی ہے اور تقوی کو اس کے ملایا، کیونکہ تقوی میں اللہ کی رضا ہے اور نیکی میں لوگوں کی رضا ہے جس نے اللہ تعالیٰ اور لوگوں کی رضا کو جمع کیا اس کی سعادت مکمل ہوئی اور اس کی نعمت عام ہوئی۔ ابن خویز منداد نے احکام میں کہا : نیکی اور تقوی پر تعاون کئی وجوہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنے علم کے ساتھ لوگوں کی مدد کرے اور انہیں تعلیم دے، غنی اپنے مال کے ساتھ لوگوں کی مدد کرے، شجاع اپنی شجاعت کے ساتھ اللہ کے راستہ میں جہاد کرے، مسلمان ایک دوسرے کے معاون ہوں جس طرح ایک ہاتھ ہوتا ہے۔ ” مومنوں کے خون برابر ہیں ان کے ادنی کے امان کا خیال رکھا جائے گا دوسرے لوگوں پر ان کا غلبہ ہے۔ “ (2) (سنن ابن ماجہ ایواب الدیات، جلد 1، صفحہ 197، ایضا حدیث نمبر 2672، 2673، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حد سے تجاوز کرنے والے سے اعراض کرنا اور اس کی مدد نہ کرنا واجب ہے اور جس غلط روش پر ظالم ہے اس سے اسے پھیرنا واجب ہے، پھر منع فرمایا : (آیت) ” ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، الاثم، سے مراد وہ حکم ہے جو جرائم کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور (آیت) ” العدوان “ سے مراد لوگوں پر ظلم کرنا ہے پھر تقوی کا حکم دیا اور مجملا دھمکی دی فرمایا ؛ (آیت) ” واتقواللہ، ان اللہ شدید العقاب “۔
Top