Jawahir-ul-Quran - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
اے ایمان والو8 حلال نہ سمجھو اللہ کی نشانیوں کو اور نہ ادب والے مہینہ کو اور نہ اس جانور کو جو نیاز کعبہ کی ہو اور نہ جن کے گلے پٹا ڈال کر لیجاویں کعبہ کو اور نہ آنے والوں کو حرمت والے گھر کی طرف جو ڈھونڈتے ہیں فضل اپنے رب کا اور اس کی خوشی اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرلو9   اور باعث نہ ہو تم کو10 اس قوم کی دشمنی جو کہ تم کو روکتی تھی حرمت والی مسجد سے اس پر کہ زیادتی کرنے لگو اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیزگاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور ظلم پر اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے
8 یہ تیسرا دعویٰ ہے یہاں اللہ کی نذروں، نیازوں اور بیت اللہ کی منتوں کی حرمت و عزت قائم رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شَعَائِرُ اللہ الصفا والمروۃ والھدی والبدن کل ھذا من شعائر اللہ (ابن جریر ج 6 ص 31) حضرت شیخ نے فرمایا شعائر اللہ ما کان معلما بقربان یتقرب بہ الی اللہ من صلوۃ او دعاء او ذبیحۃ او غیرھا۔ امام رازی فرماتے ہیں۔ قال بعضھم الشعائرھی الھدایا تطعن فی اسنامھا و تقلد لیعلم انہ ھدی (کبیر ج 3 ص 521) ۔ وَلَا الشَّھْرَ الْحَرَامَ الف لام جنس کا ہے اور اس سے مراد چار عزت والے مہینے ہیں جن میں جنگ و قتال ممنوع تھا۔ یعنی رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم الحرام۔ وَلَا الْھَدْیَ یہ ھَدْیَۃ کی جمع ہے اور اس سے وہ چوپائے مراد ہیں جو تقرب الی اللہ کی نیت سے بیت اللہ کی طرف ہدیہ اور نذر و منت کے طور پر لیجائے جاتے ہیں۔ و ھو ما اھدی الی البیت و تقرب بہ الی اللہ تعالیٰ من النسائک وھو جمع ھدیۃ (مدارک ج 1 ص 208) الھدی ما اھدی الی بیت اللہ تعالیٰ من ناقۃ او بقرۃ او شاۃ الخ (قرطبی ج 6 ص 39) وَ لَا الْقَلَائِدَ یہ قَلَادَۃ کی جمع ہے اور قلادہ وہ نشانی ہے جسے ہدی کے جانوروں کے گلے میں لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بیت اللہ کی ہدی ہے اور اس سے کوئی تعرض نہ کرے۔ قلادوں کی بےحرمتی کرنے سے بطور مبالغہ منع فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ خود ہدایا تو کجا ان کے گلے کے قلادوں کی بےحرمتی بھی مت کرو۔ یا القلائد سے پہلے ذوات مضاف محذوف ہے ای ذوات القلائد یعنی قلادوں والے جانوروں کے بےحرمتی مت کرو۔ المراد منہ الھدی ذوات القلائد۔ الثانی انہ نھی عن التعرفض القلائد الھدی مبالغہ فی النھی عن التعرض للھدی (کبیر ج 3 ص 821) وَ لَا آمِّیْنَ الْبَیْتَ الخ اس سے اطراف مکہ کے وہ لوگ مراد ہیں جنہوں نے مشرکین سے مل کر حدیبیہ کے دن حضور ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو بیت اللہ کے طواف سے روکا تھا مگر بعد میں اسلام قبول کرلیا اور محض اللہ کی رضا کے لیے ہدایا لیکر حج کو آتے تھے ان کو چھیڑنے اور ان کی بےحرمتی کرنے سے منع فرمایا۔ حاصل یہ کہ ایمان والوں کو اس سے منع فرمایا کہ وہ شعائر اللہ اور اللہ کے گھر کی نذروں، منتوں اور حجاج کرام کی بےحرمتی کریں یا ان سے کسی قسم کا ناجائز تعرض کریں۔ حضرت شاہ ولی اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں “ مترجم گوید یعنی تعرض حاجیاں و معتمران مسلماناں نباید کرد ولفظہ ایشاں نباید گرفت واللہ اعلم ” حضرت شیخ کے نزدیک بھی راجح یہی ہے کہ اس سے مسلمان حجاج ہی مراد ہیں۔ بعض مفسرین نے آمِّیْنَ الْبَیْتَ سے وہ مشرکین مراد لیے ہیں جنہوں نے حدیبیہ کے دن آپ کو بیت اللہ سے روکا تھا اور مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ یعنی جب یہ لوگ حج کو آئیں تو ان سے تعرض مت کرو اور مشرکین کا اپنے زعم میں حج کرنے سے مقصود اللہ کی رضا مندی تھا اگرچہ شرک کی وجہ سے وہ اللہ کی رضامندی حاصل نہیں کر پاتے تھے ان کے نزدیک یہ آیت فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُم (توبہ) سے منسوخ ہے لیکن جو مفسرین اس آیت کو مسلمانوں کے حق میں مانتے ہیں ان کے نزدیک یہ آیت منسوخ نہیں وقال بعض المفسرین ان الایۃ فی المسلمین فھی محکمۃ وحکمہا باق فلم تنسخ (المنار ج 6 ص 126) وکذا فی الکبیر ج 3 ص 522) لیکن حضرت شیخ کے نزدیک پہلا معنی راجح ہے۔ 9 یہ غَیْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْدِ الخ سے متعلق ہے۔ وہاں بحالتِ احرام شکار کرنے سے منع فرمایا تھا یہاں فرمایا جب احرام سے باہر آجاؤ تو شکار کرنے کی اجازت ہے یہ امر وجوب کے لیے نہیں، اباحت کے لیے ہے۔ فالامر للاباحۃ بعد الحظر (روح ج 6 ص 55) ۔ 10 جَرْمٌ کے معنی برانگیختہ کرنے اور اکسانے کے ہیں۔ ای لایحملنکم عن ابن عباس وقتادۃ (قرطبی ج 6 ص 44) شَنَاٰنُ بغض و عداوت شَنَاٰنُ قَوْمٍ ای بغضھم (مفردات ص 268) حضرت شیخ نے فرمایا قوم سے یہاں وہی جدید مسلمان مراد ہیں جن کا پہلے آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ میں ذکر ہوچکا ہے۔ اَنْ صَدُّوْکُم۔ اَنْ سے پہلے لام تعلیل مقدر ہے ای لان صدوکم اور یہ ماقبل کی علت ہے۔ عنِ المسجد الحرام یہ صَدُّوْکُمْ سے متعلق ہے۔ اَنْ تَعْتَدُوْا، اَنْ مصدریہ ہے اور یہ لَایَجْرِمَنَّکُمْ کا مفعول ثانی ہے من القرطبی والکشاف۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ جن مشرکین نے حدیبیہ کے دن ان کو بیت اللہ کے طواف سے روکا تھا ان میں سے جو اسلام لا چکے تھے مذکورہ واقعہ کی بنا پر ان سے بغض نہ رکھا جائے اور ان پر کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے اور ان سے بدلہ نہ لیا جائے اور نہ ان کو حرم کی طرف ہدایا لیجانے اور بیت اللہ کا حج کرنے سے روکا جائے۔ ای لا یحملنکم بغض قوم لصدھم ایاکم عن المسجد الحرام علی اعتدائکم علیھم وا نتقامکم منھم للتشفی (روح ج 6 ص 56) عام مفسرین نے آمِّیْنَ الْبَیْت کی طرح یہاں بھی قوم سے مشرکین مراد لیے ہیں لیکن حضرت شیخ کے نزدیک پہلا معنی راجح ہے۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْویٰ الخ پہلے فرمایا تم خود ان پر زیادتی نہ کرو۔ یہاں فرمایا اگر کوئی اور ان پر ظلم و زیادتی کرے تو تم سب مل کر ظالم کا مقابلہ کرو۔ اور احسان وتقویٰ کے معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کرو لیکن ظلم اور گناہ کے کاموں میں کسی کا ہاتھ نہ بٹاؤ۔ شعائر اللہ کی نہ خود بےحرمتی کرو نہ ان کی بےحرمتی ہونے دو ان کو بےحرمت ہوتے ہوئے دیکھ کر خاموش رہنا اور اطراف مکہ کے جدید مسلمانوں پر یہودیوں کا ظلم و ستم دیکھ کر بیٹھے رہنا اور ان کی مدد نہ کرنا یہ بھی بےحرمتی کرنے اور تعاون علی الاثم والعدوان میں داخل ہے۔
Top