Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰهِ وَ لَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْهَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَاۤ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رِضْوَانًا١ؕ وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا١ؕ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا١ۘ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) لَا تُحِلُّوْا : حلال نہ سمجھو شَعَآئِرَ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیاں وَلَا : اور نہ الشَّهْرَ الْحَرَامَ : مہینے ادب والے وَلَا : اور نہ الْهَدْيَ : نیاز کعبہ وَلَا : اور نہ الْقَلَآئِدَ : گلے میں پٹہ ڈالے ہوئے وَلَآ : اور نہ آٰمِّيْنَ : قصد کرنیوالے ( آنیوالے) الْبَيْتَ الْحَرَامَ : احترام والا گھر (خانہ کعبہ) يَبْتَغُوْنَ : وہ چاہتے ہیں فَضْلًا : فضل مِّنْ رَّبِّهِمْ : اپنے رب سے وَرِضْوَانًا : اور خوشنودی وَاِذَا : اور جب حَلَلْتُمْ : احرام کھول دو فَاصْطَادُوْا : تو شکار کرلو وَلَا : اور نہ يَجْرِمَنَّكُمْ : تمہارے لیے باعث ہو شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : قوم اَنْ : جو صَدُّوْكُمْ : تم کو روکتی تھی عَنِ : سے الْمَسْجِدِ : مسجد الْحَرَامِ : حرام (خانہ کعبہ) اَنْ تَعْتَدُوْا : کہ تم زیادتی کرو وَتَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد کرو عَلَي الْبِرِّ : نیکی پر (میں) وَالتَّقْوٰى : اور تقویٰ (پرہیزگاری) وَلَا تَعَاوَنُوْا : اور ایک دوسرے کی مدد نہ کرو عَلَي : پر (میں الْاِثْمِ : گناہ وَالْعُدْوَانِ : اور زیادتی (سرکشی) وَاتَّقُوا اللّٰهَ : اور ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
مومنو ! خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کریئے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹّے بندھے ہوں اور نہ ان لوگوں کی جو عزت کے گھر (یعنی بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے پروردگار کے فضل اور اسکی خوشنودی کے طلبگار ہوں۔ اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا کا عذاب سخت ہے۔
قول باری ہے یایھا الذین امنوالاتجلواشعائر اللہ۔ اے ایمان والو ! خدا پرستی کی نشانیوں کو بےحرمت نہ کرو) اس آیت کی تفسیر میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ شعائر سے مراد مناسک حج ہیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ صفاء مروہ قربانی کے جانور سب شعائر میں داخل ہیں۔ عطاء کا قول ہے کہ اس سے مراد اللہ کے فرائض ہیں جو اس نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کئے ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ اللہ کا سارا دین شعائر اللہ ہے کیونکہ قول باری ہے ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے گا تو یہ تعظیم دلوں کی پرہیز گاری میں سے ہے) آیت میں شعائر اللہ سے اللہ کا دین مراد ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے حرم کے نشانات مراد ہیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو احرام کے بغیر ان سے آگے جانے کی ممانعت کردی جب وہ مکہ میں داخل ہونا چاہئیں یہ تمام وجوہ آیت کے اندر محتمل ہیں۔ شعائر کی اصل یہ ہے کہ یہ اشعار سے ماخوذ ہے یعنی احساس کی جہت سے معلوم کرانا۔ مشاعر البدن یعنی حواس اسی سے ماخوذ ہے۔ مشاعر ان مقامات کو کہتے ہیں جنہیں علامتوں کے ذریعے واضح کیا گیا ہو آپ کہتے ہیں ’ قد شعرت بہ ‘ میں نے اسے معلوم کرلیا) قول باری لایشعرون کے معنی لایعلمون کے ہیں یعنی وہ نہیں جانتے ہیں۔ شاعر کا لفظ بھی اسی سے ماخوذ ہے اس لئے کہ وہ اپنی فطانت سے ان چیزوں کا احساس کرلیتا ہے جو دوسرے نہیں کرسکتے جب اس کی اصل وہ ہے جو ہم نے بیان کی ہے تو ھپر شعائر علامات کو کہیں گے اس کا واحد شعیرہ ہے جو اس علامت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی چیز کا احساس کیا جاتا ہے اور اس کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے قول باری لاتحلواشعائر اللہ اللہ کے دین کے تمام معالم نشانات پر مشتمل ہیں یعنی وہ باتیں جو ہمیں اللہ وحدہ نے بتائی ہیں جن کا تعلق دین کے فرائض اور اس کے نشانات سے ہے اور ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان سے نہ تو تجاوز کریں نہ ان سے پیچھے رک جائیں اور نہ ہی انہیں ضائع ہونے دیں۔ یہ مفہوم ان تمام معانی کو سمیٹ لے گا جو شعائر کی تاویل میں سلف سے منقول ہیں یہ مفہوم اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ احرام کے بغیر حرم میں داخل ہونے کی ممانعت ہے نیز حرم میں قتال کے ذریعے اس کے استحلال کی بھی ممانعت ہے اور یہاں پناہ لینے والوں کو قتل کرنا بھی ممنوع ہے۔ یہ چیز صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے اس لئے کہ یہ دونوں مقامات شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ مجاہد سے روایت کے مطابق ان دونوں مقامات کا طواف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں داخل تھا حضور ﷺ نے بھی ان کا اطواف کیا تھا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ قول باری ہے ولاالشھرالحرام نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کرلو) حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ سے مروی ہے حرام مہینے کو حلال کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ان مہینوں میں سے کسی کے اندر قتال کیا جائے کیونکہ قول باری ہے یسئلونک عن الشھرالحرام قتال فیہ، لوگ آپ سے حرام مہینے کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے) ۔ پھر فرمایا قل قتال فیہ کبیرہ، کہہ دو کہ اس میں جنگ کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے) ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور ہم نے اس کے نسخ کے قائلین کے اقوال بھی بیان کردیئے ہیں نیز یہ کہ قول باری اقتلوا المشرکین حیت وجدتموھم۔ مشرکین کو جہاں کہیں بھی پائو قتل کر دو ) نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ لیکن عطاء کا قول ہے کہ یہ حکم باقی ہے اور اب بھی اشہر حرم میں قتال کی ممانعت ہے۔ قول باری ہے ولاالشھرالحرام کے معنی مراد کے بارے میں اختلاف رائے ہے قتادہ کا قول ہے کہ اس سے اشہر حرم مراد ہیں عکرمہ کا قول ہے کہ اس سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب مراد ہیں۔ اس کی بھی گنجائش ہے کہ اس سے یہ تمام مہینے مراد ہوں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ لفظ کے اقتضاء کی رو سے صرف ایک مہینہ مراد ہو اور لفظ کی دلالت کی جہت سے بقیہ مہینوں کا حکم ازخود معلوم ہوجائے کیونکہ اشہر حرم سب کے سب ایک ہی حکم کے حامل ہیں۔ اس لئے جب ایک کا حکم بیان ہوجائے گا تو سب کے حکم پر ازخود دلالت ہوجائے گی۔ قول باری ہے ولاالھدی ولاالقلائد، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو اور نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردن میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہیں۔ ہدی ہر اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جس کے ذریعے تقرب الٰہی حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح صدقات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے المبتکرالی الجمعۃ کا لمھدی بدنۃ جمعہ کی نماز کے لئے اول وقت پر جانے والا شخص ایک اونٹ قربانی کرنے والے کی طرح ہے) ۔ پھر فرمایا ” اس کے بعد جانے والے کا درجہ گائے قربانی کرنے والے کی طرح ہے اس کے بعد والے کا درجہ بکری اس کے بعد والے کا مرغی اور اس کے بعد والے کا درجہ انڈا قربانی کرنے والے کی طرح ہے “۔ اس حدیث میں آپ نے مرغی اور انڈے کو ہدی کا نام دیا اور اس سے صدقہ مرا دلیا۔ اسی بنا پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” میرا یہ کپڑا ہدی ہے “۔ تو اس پر اس کپڑے کو صدقہ کردینا لازم ہوگا تاہم ہدی کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکریوں کی تینوں اصناف پر ہوتا ہے جنہیں حرم میں لے جا کر ذبح کیا جائے۔ قول باری ہے فاذا احصرتم فما استیسر من الھدی، اور اگر کہیں گھر جائو تو جو قربنی میسر آئے اللہ کی جناب میں پیش کرو) سلف سے لے کر خلف تک اہل علم کے مابین اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ہدی کا کم سے کم درجہ بکری ہے۔ قول باری ہے من النعم یحکم بہ ذولعدل منکم ھدیاً بالغ الکعبۃ مویشیوں میں سے جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے اور یہ نذرانہ کعبہ پہنچایا جائے گا) اسی طرح ارشاد ہے فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج فما استیسرمن الھدی، جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے وہ حسب مقدور قربانی دے۔ تمام فقہاء کے نزدیک اس کا کم سے کم درجہ بکری ہے ہدی کے اسم کا جب اطلاق ہوتا ہے تو اس کا مفہوم حرم کے اندر درج بالا اصناف ثلاثہ یعنی اونٹ گائے اور بھیڑ بکریوں کے ذبح کو شامل ہوتا ہے۔ قول باری ہے ولاالھدی سے مراد اس ہدی پر دست دراز ی کرنے کی ممانعت ہے جسے حرم میں ذبح کے لئے متعین کرلیا ہو۔ حلال یعنی دست درازی سے مراد یہ ہے کہ قربانی کے سوا اسے کسی اور مصرف میں لایا جائے۔ اس میں اس بات کی دلالت موجود ہے کہ جب ہدی کا مالک اسے بیت اللہ کی طرف لے چلے یا نذر وغیرہ کی صورت میں اس نے اس کی ذبح اپنے اوپر واجب کرلی ہو تو اب اس سے انتفاع کی ممانعت ہوجائے گی۔ اسی طرح اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ ہدی کے جانور کا گوشت کھانا ممنوع ہے خواہ یہ ہدی نذر کا ہو یا احصار کی بنا پر واجب ہوا ہو یا شکار کے بدلے میں دیا جا رہا ہو ظاہر آیت تو تمتع اور قران کے ہدی کے گوشت کی بھی ممانعت کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ہدی کا اسم ان دو نوں قربانیوں کو بھی شامل ہے لیکن چونکہ ان کے گوشت کے جواز پر دلالت قائم ہوگئی ہے اس بنا پر ان کا گوشت کھانا جائز ہے۔ قول باری ولاالقلائد کے معنی ہیں ” اور ان جانوروں پر بھی ہاتھ نہ ڈالو جن کی گردنوں میں پٹے پڑے ہوئے ہیں “۔ قلائد کی تاویل میں سلف سے کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ ہدی ہے یعنی قربانی کا جانور ہے جس کے گلے میں پٹہ پڑا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہدی کے بعض جانوروں کی گردنوں میں پٹے ڈالے جاتے ہیں اور بعض کو نہیں ڈالتے جاتے۔ اونٹ اور گائے بیل کو پٹے ڈالے جاتے ہیں اور بھیڑ بکریوں کو نہیں ڈالے جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہدی یعنی قربانی کے جانور پر دست درازی کی ممانعت کردی خواہ اس کے گلے میں پٹہ پڑا ہوا ہو یا نہ پڑا ہو۔ مجاہد کا قول ہے کہ جب لوگ احرام باندھ لیتے تو حرم کے درختوں کی چھال کا پتہ بنا کر اپنی اور اپنے ہدی کی گردنوں میں ڈال لیتے تھے یہ چیز ان کے لئے امن کا پروانہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص یا جانور پر ہاتھ ڈالنے کی ممانعت کردی جس کی گردن میں اس طرح کا پٹہ پڑا ہو تاہم انسانوں اور ہدی کے سوا دوسرے جانوروں کے بارے میں یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ قتادہ سے بھی حرم کے درختوں کی چھال کو پٹہ بنا کر انسانوں اور جانوروں کے گلے میں ڈالنے کے سلسلے میں اس قسم کی روایت ہے بعض اہل علم کا قول ہے کہ ولاالقلائد سے مراد یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کی گردنوں میں پڑے ہوئے پٹے صدقہ کردیئے جائیں اور ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جائے۔ حسن سے مروی ہے کہ ہدی کے جانور کے گلے میں جوتوں کا پتہ ڈال دیا جائے گا اگر یہ نہ ملے تو پرانی مشک کے وسط میں سوراخ کر کے اس کے گلے میں ڈالا جائے گا اور پھر اس کا صدقہ کردیا جائے گا ایک قول ہے کہ اس سے مراد وہ اون ہے جسے بٹ کر ہدی کے جانور کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ہدی کے جانور کو پٹہ ڈالنا بھی قربت اور بندگی ہے اور اس کے ساتھ اس جانور کے ہدی بننے کا حکم متعلق ہوتا ہے وہ اس طرح کہ جانور کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے حرم کی طرف لے جانے کا ارادہ کرے تو اس سے وہ جانور ہدی بن جاتا ہے اگرچہ اس نے الفاظ کے ذریعے اسے واجب نہ بھی کیا ہو۔ اس بنا پر جو جانور بھی اس صفت پر پایا جائے گا وہ ہدی کہلائے گا اور اب نہ اس پر دست درازی ہوگی اور نہ ہی اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوگی۔ اسے صرف ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کردینے کا عمل باقی رہ جائے گا۔ اس پر بھی دلالت ہو رہی ہے کہ ایسے جانوروں کے پٹوں کا بھی صدقہ کردیا جائے کیونکہ لفظ میں اس کا احتمال موجود ہے۔ اسی طرح حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے قربانی کے جو اونٹ یمن سے منگوائے تھے ان میں سے بعض کو آپ نے مکہ میں نحر یعنی ذبح کیا تھا اور بقیہ کو ذبح کرنے کے لئے آپ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا تھا۔ حضرت علی ؓ نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ ان پر پڑے ہوئے کپڑوں اور ان کی مہاروں کو صدقہ میں دے دیا جائے نیز ان میں سے کوئی چیز قصاب کو دینے سے بھی منع فرما دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ ہم خود انپے پاس سے قصاب کو اس کی اجرت دیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہدی کی سواری اس کا دودھ دوہنا اور اس کے دودھ کو استعمال میں لانا منع ہے اس لئے کہ قول باری ولاالھدی ولاالقلائد ان تمام باتوں کو متضمن ہے اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور مقام پر بھی قلائد کا ذکر اس انداز سے فرمایا ہے جو اس کی قربت یعنی قربانی اور تقرب الٰہی کا ذریعہ ہونے پر دلالت کرتا ہے نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ احکام متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس و الشھرالحرام والھدی والقلائد اللہ نے مکان محترم کعبہ کو لوگوں کے لئے اجتماعی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی اس کا م میں معاون بنادیا) ۔ اگر قربانی کے جانوروں اور قلادوں یعنی پٹوں کے ساتھ حرمتوں اور ان حقوق کا تعلق نہ ہوتا جو صرف اللہ کے لئے ہیں جس طرح کہ ماہ حرام اور کعبۃ اللہ کے ساتھ ان کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ انہیں ماہ حرام اور کعبہ کے ساتھ یکجا کر کے ان امور کی اطلاع نہ دیتا جو لوگوں کے مفادات ان کی بھلائیوں اور ان کی اجتماعی زندگی کے قیام کے سلسلے میں ان شعائر میں موجود ہیں۔ حکم نے مجاہد سے روایت کی ہے سورة مائدہ میں سے صرف دو آیتیں منسوخ ہوئی ہیں ایک تو یہ آیت لاتحلواشعائر اللہ ولاالشھرالحرام ولاالھدی ولاالقلائد۔ اسے اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم۔ کی آیت نے منسوخ کردیا ہے اور دوسری آیت وان جائوک فاحکم بینھم۔ جسے ۔ وان الحکم بینھم بما انزل اللہ۔ نے منسوخ کردیا ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے ماہ حرام میں قتال کی تحریم اور ان قلادوں کی منسوخی مراد ہے جو لو گ حرم کے درختوں کی چھال سے پٹے بنا کر اپنے اور اپنے جانوروں کے گلوں میں لٹکا لیتے تھے تاکہ انہیں امن حاصل ہوجائے۔ اس سے قربانی کے جانوروں کے قلادوں کی منسوخی مراد لینا درست نہیں ہے کیونکہ یہ حکم حضور ﷺ صحابہ کرام اور تابعین سے نقل متواتر کے ذریعے ثابت اور باقی ہے۔ مالک بن مغول نے عطاء سے قول باری ولاالقلائد کی تفسیر کے سلسلے میں نقل کیا ہے کہ لوگ جب باہر جاتے تو حرم کے درختوں کی چھال کا قلادہ بنا کر گلے میں ڈال لیتے اور ا س پر یہ آیت نازل ہوئی لاتحلواشعائر اللہ۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ اہل جاہلیت کے عقائد کے مطابق جو لوگ ایسا کرتے اللہ تعالیٰ نے ان پر دست دراز ی کرنے سے منع فرما دیا ہو کیونکہ حضور ﷺ کی بعثت کے بعد بھی لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی ان باتوں پر برقرار رہنے دیا گیا تھا جو عقل کے خلاف نہیں تھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان میں سے جن باتوں کو منسوخ کرنے کا ارادہ فرما لیا گیا ان کی منسوخی کا حکم بھیج دیا گیا۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے منع فرما دیا تھا جنہوں نے حرم کے درختوں کی چھال قلادہ بنا کر اپنے گلوں میں ڈال رکھی تھی پھر یہ حکم اس بنا پر منسوخ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ جہاں کہیں بھی تھے امن عطا کردیا تھا اور مشرکین کے قتل کا حکم دے دیا تھا الا یہ کہ وہ مسلمان ہوجاتے۔ چناچہ ارشاد باری ہے اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم اس طرح مشرکین پر حرم کے درختوں کی چھال سے بنے ہوئے قلادوں کی بنا پر دست درازی کی ممانعت کا حکم منسوخ ہوگیا اور دوسری طرمسلمانوں کو پرسکون صورت حال کی بنا پر ان قلادوں کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اس لئے اس حکم کے باقی رہنے کی کوئی ضرورت نہیں رہی تھی اور صرف قربانی کے جانوروں کو قلائد پہنانے کا حکم باقی رہ گیا تھا۔ ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق مروزی نے روایت بیان کی انہیں حسین بن ابی الربیع جرجانی نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں ثوری نے شعبی سے سورة مائدہ میں صرف ایک آیت منسوخ ہوئی ہے جو یہ ہے یایھا الذین امنو الاتحلواشعائر اللہ) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں حسین بن ابی اربیع جرجانی نے انہیں عبدالرزاق نے انہیں معمر نے قتادہ سے قول باری لاتحلواشعائر اللہ تا آخر آیت کے متعلق بیان کیا کہ یہ منسوخ ہوچکی ہے۔ ایک شخص جب حج کے ارادے سے گھر سے چل پڑتا تو گلے میں ببول کی چھال کا پٹہ ڈال لیتا پھر کوئی شخص اس سے تعرض نہ کرتا جب حج سے واپس ہوتا تو بال کا بٹا ہوا قلادہ ڈال لیتا جس کی بنا پر کوئی اسے کچھ نقصان نہ پہنچاتا اس زمانے میں مشرک کو بیت اللہ سے روکا نہیں جاتا تھا۔ چناچہ مسلمانوں کو ماہ حرام میں قتال کرنے نیز بیت اللہ کے آس پاس تلوار اٹھانے سے روک دیا گیا تھا پھر اس حکم کو قول باری اقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم نے منسوخ کردیا۔ یزید بن زریع نے سعید سے انہوں نے قتادہ سے قول باری جعل الہ الکعبۃ البیت الحرام قیاماً للناس والشھرالحرام والقلائد کی تفسیر کے سلسلے میں یہ روایت بیان کی ہے کہ آیت میں مذکورہ امور یعنی بیت اللہ ماہ حرام اور قلائد لو اللہ تعالیٰ نے زمانہ جاہلیت میں لوگوں کے لئے ایک دوسرے کی زد سے بچنے کے لئے رکاوٹیں بناد ی تھیں۔ چناچہ حالت یہ تھی کہ زمانہ جاہلیت میں ماہ حرام کے اندر ایک شخص کا اپنے باپ کے قاتل سے سامنا ہوجاتا تو وہ اس تے تعرض نہ کرتا اور نہ ہی اس کے قریب جاتا۔ اسی طرح اگر ایک شخص ہر قسم کے جرائم کر گزرتا اور پھر حرم میں آکر پناہ لے لیتا تو نہ اسے کوئی پکڑتا اور نہ ہی اس کے پاس جاتا۔ اس طرح ایک شخص بھوک کی بنا پر جانوروں کی ہڈیاں اور پٹھے کھا رہا ہوتا اور پھر اس حالت میں اس کے پاس سے پٹے والے قربانی کے جانور گزرتے تو وہ انہیں کچھ نہ کہتا اور نہ ہی ان کے قریب جاتا۔ جب کوئی شخص بیت اللہ کے ارادے سے گھر سے نکلتا تو بال کا بٹا ہوا پٹہ اپنے گلے میں ڈال لینا جو اسے لوگوں کی دست درازیوں اور زیادتیوں سے محفوظ رکھتا اسی طرح جب اس کی واپسی ہوتی تو اذخر گھاس یا حرم کے درخت کی چھال اپنے گلے میں لٹکا لیتا اور اس طرح لوگوں کے ہاتھوں سے محفوظ ہوجاتا۔ ہمیں جعفر بن محمد واسطی نے راویت بیان کی، انہیں جعفر بن محمد بن الیمان نے انہیں ابو عبیداللہ نے انہیں عبداللہ بن صالح نے معاویہ بن صالح سے انہوں نے علی بن ابی طلحہ سے اللہ تاآخر آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ مسلمان اور مشرکین اکٹھے بیت اللہ کا حج کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کسی بھی شخص کو بیت اللہ میں آنے سے روکنے اور اس سے تعرض کرنے سے خواہ وہ مومن ہو یا کافر، منع فرما دیا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی انما المشرکون تجس فلایقدبرالمسجد الحرام بعاعا مھم۔ بے شک مشرکین نجس ہیں اس لئے اس سال کے بعد وہ حرم کے قریب نہ آئیں) ۔ نیز فرمایا ماکان للمشرکین ان یعمروامساجد اللہ شاھدین علی انفسھم بالکفر۔ مشرکین اس لائق ہی نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں جبکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کی گواہی دے رہے ہوں) ۔ اسحاق بن یوسف نے ابن عون سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حسن سے یہ بات پوچھی کہ آیا سورة مائدہ کی کوئی آیت منسوخ ہوئی ہے انہوں نے اس کا جواب نفع میں دیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ولاامین البیعت الحرام۔ نہ ان لوگوں کو چھیڑو جو مکان محترم کعبہ کی طرف جا رہے ہوں) میں حسن کے نزدیک اہل ایمان مراد ہیں کیونکہ اگر اس سے کفار مراد لئے جائیں تو درست نہیں ہوگا اس لئے کہ یہ بات قول باری فلایقرلوالمسجد الحرام بعد عامھم ھذا) سے منسوخ ہوچکی ہے۔ نیز قول باری ولاالشھرالحرام میں ماہ حرام کے اندر قتال کی تحریم بھی منسوخ ہوچکی ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں البتہ حسن کے نزدیک یہ حکم باقی ہے جیسا کہ عطاء سے بھی روایت کی گئی ہے۔ قول باری ہے یبتغون فضلاً من ربھم ودضواناً جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں) حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ اس سے تجارت میں منافع مراد ہے۔ جیسا کہ قول باری ہے لیس لیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنیرب کا فضل تلاش کرو) حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ سے حج کے اندر تجارت کے بارے میں پوچھا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہم نے پہلے اس امر کا ذکر کردیا ہے۔ مجاہد نے یبتغون فضلاً من ربھم ورضواناً ۔ کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے اجرت اور تجارت مراد ہے۔ قول باری ہے واذاحلکتم فاصطادوا جب تم احرام کھول دو تو شکار کرو) مجاہد عطاء اور دوسرے حضرات کا قول ہے کہ آیت میں شکار کرنے کا حکم نہیں بلکہ تعلیم یعنی معلوم کرانا ہے کہ اگر کوئی احرام کھولنے والا شکار کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ چاہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت کے ذریعے شکار کرنے پر لگی ہوئی پابندی اٹھا دی گئی ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے فاذاقضیت الصلوۃ فانتشروافی الارض وابتغوا من فضل اللہ۔ جب جمعہ کی نماز ادا کرلی جائے تو زمین میں بکھرجائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو) ۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد وذروالبیع اور خرید و فروخت چھوڑ دو ) کے ذریعے بیع و شراپر پابندی عائد کردی تو پھر جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے اس ارشاد کے ذریعے یہ پابندی ختم کردی۔ قول باری واذا حللتم فاصطادوا۔ اس امرکو متضمن ہے کہ پہلے احرام موجود تھا کیونکہ احرام کھولنے کی بات اس وقت ہوسکتی ہے جب احرام پہلے موجود وہ۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری ولاالھدی ولاالقلائد ولاامین البیت الحرام۔ اس بات کا مقتضی ہے کہ اس کام کو سرانجام دینے والا شخص حالت احرام میں ہو۔ جس سے یہ دلالت ہوگئی کہ ہدی یعنی قربانی کے جانور کو ہانک کرلے چلنا اور اس کی گردن میں پٹہ ڈالنا احرام کا موجب ہے قول باری والاامین البیت الحرام اس پر دلالت کرتا ہے کہ کسی کے لئے احرام کے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہونا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ قول باری واذا حللتم ما صطادوا اس امر کو متضمن تھا کہ جو شخص بیت اللہ کا ارادہ کرے اس پر احرام باندھنا ضروری ہے پھر وہ احرام کھول دے گا اور اس کے بعد اس کے لئے شکار بھی جائز ہوجائے گا۔ قول باری واذا حللتم فاصطادو میں احرام کے بعد احلال یعنی احرام کھولنا مراد ہے ۔ اور حرم سے باہر آجانا بھی مراد ہے کیونکہ حضور ﷺ نے حدود حرم کے اندر شکار کی ممانعت کردی تھی۔ چناچہ آپ کا ارشاد ہے ولاینفرصیدھا اور حرم کے اندر شکار کو بھگایا نہیں جائے گا) اس بارے میں سلف اور حلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ آیت میں احرام کھولنا اور حدود حرم سے باہر نکل آنا دونوں مراد ہیں۔ یہ اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ جو شخص حلق کر کے احرام کھول دے اس کے لئے شکار کرنا جائز ہے اور طواف زیارت کا ابھی باقی ہونا شکار کے لئے مانع نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے واذاحللتم فاصطادوا اور حلق کرانے والا احرام کھول چکا ہے اس لئے کہ حلق یعنی سرمونڈنے کا یہ عمل احرام کھولنے کے لئے کیا گیا تھا۔ قول باری ہے ولایجرمنکم شنان قوم ان متدوکم عن المسجد الحرام ان تعدوا، اور دیکھو ایک گروہ نے جو تمہارے لئے مسجد حرام کا راستہ بند کردیا ہے تو اس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلے میں ناروازیادتیاں کرنے لگو) ۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ کا قول ہے کہ لایحرمنکم کے معنی ” لایحملنکم “ کے ہیں یعنی تمہیں ابھارنہ دے “۔ اہل لغت کا کہنا ہے ” جرمنی زید علی بغضک کے معنی ہیں زید نے مجھے تمہاری عداوت پر ابھارا “۔ فراء کا قول ہے کہ اس کے معنی ” لایکسبنکم “ کے ہیں کہا جاتا ہے ” حرمت علی اھلی “ میں نے اپنے اہل و عیال کے لئے کمائی کی) نیز کہا جاتا ہے ” فلان جریمۃ اھلہ “ (فلاں) شخص اپنے اہل و عیال کے لئے کا سب یعنی کمائی کرنے والا ہے) شاعر کا قول ہے۔ جریمۃ ناھض فی راس نیق تری لعضام ماجمعت صلیبا۔ یہ عقاب اپنے بچے کو جو اڑنے کے لائق ہوتا ہے پہاڑ کی چوٹی پر اپنے شکار کئے ہوئے پرندوں کا گوشت کھلاتا ہے اور ان پرندوں کی ہڈیاں باقی رہ جاتی ہیں جن سے گودا بہہ رہا ہوتا ہے) جب کوئی شخص کاٹ ڈالنے کا عمل کرے تو کہا جاتا ہے جرم یجوم جرماً قول باری شنان قوم کو نون کے زبر اور سکون دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے جس نے زبر کے ساتھ اس کی قرات کی ہے اس نے اسے مصدر قراردیا ہے اور ماضی مضارع مصدر اس طرح ہوں گے شنئۃ اشناہ شناناً ۔ شنان بغض کو کہتے ہیں گویا یوں فرمایا گیا ” تمہیں کسی قوم کے ساتھ بغض اس پر نہ ابھارے…“ اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ سے مروی ہے کہ ’ کسی قوم کی عداوت ‘ جس نے نون کے سکون کے ساتھ اس کی قرات کی ہے اس کے نزدیک اس کے معنی بغیض یعنی سخت دشمنی رکھنے والے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مسلمانوں کو کافروں کی زیادتی کی بنا پر جو انہوں نے بیت اللہ میں انہیں جانے سے روک کر کی تھی حق سے تجاوز کر کے ظلم و تعدی پر اتر آنے سے منع فرما دیا۔ اس کی مثال حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے ادالاماتۃ الی من متمنک ولاتخن من اخنک جس شخص نے تمہارے پاس امانت رکھی اس کی امانت اسے واپس کر دو اور جو شخص تمہارے ساتھ خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو) ۔ قول باری ہے وتعاولواعلی المبروالتقوی۔ جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو) ظاہر آیت اس بات کا مقتضی ہے کہ ہر اس کا م میں تعاون کرنا واجب ہے جس میں اللہ کی اطاعت ہو کیونکہ اللہ کی اطاعتوں کو برکہاجاتا ہے۔ قول باری ہے ولاتعاونوا علی الاثم والعدون۔ اور جو کام گناہ اور سرکشی کے ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو) آیت میں معاصی کے اندر دوسروں کے ساتھ تعاون کی نہی ہے۔
Top